Inquilab Logo Happiest Places to Work

طلعت محمود نے فلم ’آرزو‘ میں ایک نغمے کو آواز دی اورراتوں رات اسٹار بن گئے

Updated: April 13, 2025, 12:08 PM IST | Anis Amrohvi | Mumbai

اس سے قبل ۱۹۴۴ء میں بنگالی موسیقار کمل داس گپتا نے طلعت محمود کی آواز میں فیاض ہاشمی کا ایک گیت ’تصویر تری دل میرا بہلا نہ سکے گی‘ ریکارڈ کرایا تھا۔ اُس وقت ان کی عمر محض ۲۰؍ سال تھی۔ اُن کے اس ریکارڈ کی ایک لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہو ئی تھیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

طلعت محمود ۲۴؍فروری ۱۹۲۴ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن ہی سے موسیقی کی طرف اُن کا رُجحان صاف نظر آرہا تھاجبکہ ان کے والد منظور محمود اپنے بیٹے کو گلوکار بنتے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ طلعت محمود میوزک کا سامان بیچنے والی دُکانوں اور آل انڈیا ریڈیو کے ریکارڈنگ اسٹوڈیو کے چکر کاٹتے رہتے تھے۔ کندل لال سہگل کی آواز اور ریگل سٹی کی طوائفوں کی آوازوں کے درمیان پھنسے طلعت محمود نے بالآخر لکھنؤ میں میوزک کے سب سے اہم ادارے ’مورسی کالج آف میوزک‘ میں داخلہ لے لیا۔ 
ایچ ایم وی کی ایک ٹیم لکھنؤ کے سفر پر تھی۔ اُسی دوران اُس کی نظر میں طلعت محمود کسی طرح آگئے۔ اس کے بعد ان کا لکھنؤ سے باہر کا سفر شروع ہو گیا۔ ایچ ایم وی کی ٹیم اُنہیں کلکتہ لے گئی۔ وہاں سبل داس گپتا کا ایک نغمہ ’’سب دن ایک سمان نہیں ‘‘ طلعت محمود کی آواز میں ریکارڈ کرایا گیا۔ یہ اُن کی پہلی ریکارڈنگ تھی۔ وہاں طلعت محمود نے نیو تھیٹر سے بھی وابستگی اختیار کی اور فلم ’سمیتی‘ میں انہیں ایک چھوٹا سا کردار بھی ملا۔ اس وقت طلعت محمود کی عمر صرف ۲۰؍برس تھی اور تبھی ان پر قسمت کی دیوی مہربان ہوئی اور کلکتہ میں ہی ان کے سب سے پیارے اور آدرش سنگر کے ایل سہگل سے طلعت محمود کی ملاقات ہو گئی۔ 
سبل داس گپتا کے بڑے بھائی کمل داس گپتا کو طلعت محمود کی آواز بہت پیاری لگی۔ کمل داس گپتا نے طلعت محمود کی آواز میں اپنا گیت ’’تصویر تری دل میرا بہلا نہ سکے گی‘‘ ریکارڈ کروایا۔ یہ گیت فیاض ہاشمی کے زورِ قلم کا نتیجہ تھا اور اِسی نغمے کی ریکارڈنگ کے ساتھ طلعت محمود کا نصیب کھل گیا۔ راتوں رات اِس ایک گیت نے طلعت محمود کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی کے آخری برسوں میں ان کے اس ریکارڈ کی ایک لاکھ کاپیاں فروخت ہو گئیں۔ اس کے بعد طلعت محمود نے بہت سے گیت ریکارڈ کرائے۔ بیشتر بنگلہ زبان کے گیت تھے اور ان گیتوں کو انہوں نے تپن کمار کے نام سے ریکارڈ کروایا۔ اس وقت بنگلہ گیتوں میں طلعت محمود کے مقابلے میں ہیمنت کمار، جگموہن اور جوتیکا رائے بھی موجود تھے۔ 
اس کے بعد ہندی فلموں میں کریئر بنانے کی نیت سے طلعت محمود کلکتہ سے ممبئی آگئے۔ اُن کی آواز کے جادو سے مسحور ہوکر موسیقار انل بسواس نے اُن کو گیت گانے کیلئے موقع دینے کا فیصلہ کیا اور ۱۹۵۱ء میں فلم ’آرزو‘ میں طلعت محمود کی آواز استعمال کی گئی۔ فلم ’آرزو‘ میں پردے پر دلیپ کمار نے طلعت کی آواز میں ریکارڈ کیا ہوا گیت ’’اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل‘‘ گایا اور اس گیت سے بھی طلعت محمود کو بڑی شہرت حاصل ہوگئی۔ فلم ’آرزو‘ میں انل بسواس اور دلیپ کمار کا جو ساتھ طلعت محمود کو حاصل ہوا، وہ برسوں تک جاری رہا۔ اس کے فوراً بعد تمام بڑے میوزک ڈائریکٹروں، جیسے کہ نوشاد علی، سجاد حسین، شنکر جے کشن، ایس ڈی برمن، خیام اور سلیل چودھری کے ساتھ اُنہوں نے گانا شروع کر دیا۔ 
طلعت محمود کی آواز میں ایک فطری لرزش تھی جوکہ اس وقت افسانوی حیثیت اختیار کر جانے والے ہیرو دلیپ کمار کی آواز کیلئے بہت موزوں تھی لہٰذا وہ دِن بھی آیا جب طلعت محمود کی آواز کو دلیپ کمار کی آواز کے طور پر پہچانا جانے لگا۔ دلیپ کمار نے ایک موقع پر بڑی فراخ دلی سے اِس بات کا اعتراف کیا تھا کہ وہ طلعت محمود کی آواز کے سہارے ہی ’شہنشاہِ جذبات‘ بن سکے تھے۔ طلعت محمود نے ’فٹ پاتھ‘ (۱۹۵۳ء) اور’بابل‘ (۱۹۶۰ء) میں دلیپ کمار کو اپنی آواز دی۔ یوں تو اُنہوں نے دیوآنند اور راج کپور کیلئے بھی گیت گائے مگر دلیپ کمار کی فلموں میں اُن کے گیت زیادہ مقبول ہوئے۔ فلم شائقین کو دلیپ کمار کیلئے ان کی آواز فطری لگی۔ 
اگرچہ طلعت محمود کو محمد رفیع، مناڈے، مکیش اور پھر کچھ آگے چل کر کشور کمار جیسے گلوکاروں سے سخت مقابلے کا سامنا تھا، لیکن طلعت محمود اپنی جگہ برقرار رہے اور چوتھی دہائی سے چھٹی دہائی تک اُن کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا اور ہندی فلموں کا یہی دَور سنہرا دَور بھی کہلاتا ہے۔ طلعت محمود کو دوسرے گلوکاروں پر اُن کے تلفظ اور لہجے کی وجہ سے بھی خاصی سبقت حاصل تھی۔ طلعت محمود کے سدابہار گیتوں میں ’’اے مرے دل کہیں اور چل (فلم: ’داغ‘ ۱۹۵۲ء)، شام غم کی قسم (فلم: ’فٹ پاتھ‘ ۱۹۵۳ء)، جائیں تو جائیں کہاں (فلم: ’ٹیکسی ڈرائیور‘ ۱۹۵۴ء)، جلتے ہیں جس کیلئے تیری آنکھوں کے دیئے (فلم: ’سجاتا‘ ۱۹۵۹ء)، اِتنا نہ مجھ سے تو پیار بڑھا کہ میں اک بادل آوارہ (فلم: ’چھایا‘ ۱۹۶۱ء)، پھر وہی شام وہی غم وہی تنہائی ہے (فلم: ’جہاں آرا‘، ۱۹۶۴ء) اورتصویر بناتا ہوں، تصویر نہیں بنتی (فلم: ’بارہ دری‘ ۱۹۵۵ء)‘‘ جیسے گیت شامل ہیں جو آج بھی سننے والے کے دامنِ دل کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ 
طلعت محمود نے روشن، مدن موہن اور اوپی نیر کیلئے کچھ بہترین قسم کے نغمات کو اپنی آواز سے لازوال بنایا ہے۔ طلعت محمود صرف ایک بات پر مصر رہتے تھے، وہ یہ کہ ان کو جو گیت بھی گانے کو دیا جائے وہ عمدہ شاعری کا نمونہ ہو۔ کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوا کہ کوئی نغمہ اُنہیں پسند نہیں آیا تو انہوں نے اُس گیت کو گانے سے اِنکار کر دیا مگر سمجھوتہ نہیں کیا۔ طلعت محمود اکثر کہا کرتے تھے ’’میرا خاندان روشن خیال لوگوں کا خاندان ہے اور اچھی شاعری کی پرکھ اور پہچان مجھ میں اِتنی ہے کہ میں ’تک بندی‘ کو اپنی آواز نہیں دے سکتا۔ ‘‘
طلعت محمود نے کچھ فلموں میں گلوکار کے ساتھ ساتھ اداکاری بھی کی ہے۔ انہوں نے ’راج لکشمی (۱۹۴۵ء)، تم اور میں (۱۹۴۷ء)، سماپتی (۱۹۴۹ء)، آرام (۱۹۵۱ء)، دلِ ناداں (۱۹۵۳)، وارث (۱۹۵۴ء)، ڈاک بابو (۱۹۵۴ء)، رفتار (۱۹۵۵ء)، دیوالی کی رات (۱۹۵۶ء)، ایک گائوں کی کہانی (۱۹۵۷ء)، لالہ رُخ (۱۹۵۸ء)، مالک (۱۹۵۸ء) اورسونے کی چڑیا (۱۹۵۸ء)‘‘ میں وہ نوتن کے ہیرو تھے اور زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ نجی زندگی میں طلعت محمود ایک نہایت شریف انسان تھے۔ دلیپ کمار کے لفظوں میں طلعت محمود ایک عمدہ گلوکار ہی نہ تھے بلکہ شریف، مہذب اور شائستہ انسان تھے۔ طلعت محمود ’ادب اور آداب‘ کے لکھنوی کلچر کی جیتی جاگتی تصویر تھے اور وہ کم گو بھی تھے۔ 
گلوکاری کے آخری برسوں میں اُنہوں نے بہت تیزی سے بدلتے ہوئے موسیقی کے منظرنامے سے اپنی ناخوشی اور بددلی کا اظہار کیا تھا اور موسیقی کے نام پر بے ہنگم شور کا یہ نتیجہ تھا کہ اُنہوں نے اسٹوڈیو جانا اور نغمے ریکارڈ کرانا بند کر دیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اَب موسیقی میں اِتنا شور ہونے لگا ہے کہ وہ اُن کی خیالوں میں ڈوبی ہوئی آواز سے مطابقت نہیں کر پاتی۔ چار دہائیوں پر مشتمل اپنی پروفیشنل زندگی میں طلعت محمود نے کل ۱۲؍ زبانوں میں تقریباً ۷۵۰؍ نغمے ریکارڈ کرائے۔ موسیقی کی دُنیا میں اُن کی گراں قدر خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے طلعت محمود کو پدم بھوشن کے ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ 
ٍٍ۲۰؍فروری ۱۹۵۱ء کو طلعت محمود کی شادی ایک بنگالی کرشچین لڑکی للتا ملک سے ہوئی جو خود بھی فلموں میں کام کرتی تھی اور طلعت محمود کی بہت بڑی مداح تھی۔ شادی کے بعد للتا ملک نے اپنا نام تبدیل کرکے نسرین رکھ لیا۔ نسرین سے طلعت محمود کی دو اولادیں ہوئیں، ۱۹۵۳ء میں بیٹا خالد اور ۱۹۵۹ء میں بیٹی سبینا۔ 
اگرچہ طلعت محمود کے بیٹے خالد نے اپنے باپ کی اہلیت ورثے میں پائی ہے۔ اُن کی آواز طلعت کی آواز سے بہت قریب بھی ہے مگر یہ سچ اپنی جگہ موجود رہے گا کہ طلعت محمود کی آواز کی نقل نہیں کی جا سکتی۔ وہ اپنی مثالی اور انفرادی آواز کے ساتھ موسیقی کے دیوانوں کی یادوں میں بسے رہیں گے۔ کوئی بھی شخص یہ تصوّر کیسے کر سکتا ہے کہ طلعت محمود کے علاوہ کوئی اور یہ نغمہ گا رہا ہے۔ 
مری یاد میں تم نہ آنسو بہانا
نہ دل کو جلانا....... مجھے بھول جانا
مگر یہ ممکن نہیں ہے۔ کم از کم جب تک یہ دُنیا قائم رہے گی، یہ ممکن نہیں کہ طلعت محمود کو بھلا دیا جائے۔ 
 فلمی موسیقی کی تاریخ میں ۹؍مئی ۱۹۹۸ء کا دِن یقینی طور پر ’یوم سیاہ‘کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا کیونکہ اِس دِن سنہری آواز کے مالک اور گلوکار شہنشاہِ غزل طلعت محمود اَپنے شیدائیوں کو چھوڑکر اِس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ طلعت محمود کی مقبولیت کا اَندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کے اِنتقال کی خبر پھیلتے ہی لندن، ویسٹ انڈیز، ہالینڈ، لاگوس اور امریکہ سے اُن کے شیدائیوں کے فون پر فون آنے لگے۔ اَفسوس کی بات یہ ہے کہ فلم اِنڈسٹری میں اُن کے بہت کم شیدائیوں نے اُن کی طرف دھیان دیا۔ بہت کم فلمی لوگ اِس مقبول گلوکار کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے پہنچے۔ 
طلعت محمود نے ہندی فلموں کے رومان پسند عہد کے گیتوں کو اپنی آواز سے لازوال بنا دیا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK