اوم پرکاش چھِبّر ہندی فلمی دنیا کے اُن نادر کیریکٹرایکٹرز میں شامل ہیں جنہوں نے۳؍دہائیوں تک کامیڈی اور سنجیدہ دونوں طرح کےکرداروں میں ایسی چھاپ چھوڑی کہ ان کا چہرہ اور آواز خود ایک عہد کی علامت بن گئے۔
EPAPER
Updated: December 19, 2025, 11:05 AM IST | Mumbai
اوم پرکاش چھِبّر ہندی فلمی دنیا کے اُن نادر کیریکٹرایکٹرز میں شامل ہیں جنہوں نے۳؍دہائیوں تک کامیڈی اور سنجیدہ دونوں طرح کےکرداروں میں ایسی چھاپ چھوڑی کہ ان کا چہرہ اور آواز خود ایک عہد کی علامت بن گئے۔
اوم پرکاش چھِبّر ہندی فلمی دنیا کے اُن نادر کیریکٹرایکٹرز میں شامل ہیں جنہوں نے۳؍دہائیوں تک کامیڈی اور سنجیدہ دونوں طرح کےکرداروں میں ایسی چھاپ چھوڑی کہ ان کا چہرہ اور آواز خود ایک عہد کی علامت بن گئے۔ ۱۹؍دسمبر۱۹۱۹ءکو لاہور (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئے اور۲۱؍فروری ۱۹۹۸ءکوممبئی میں انتقال ہوا۔ ان کے کریئرمیں تقریباً۳۰۰؍سے زیادہ فلمیں شامل ہیں، جن میں چپکے چپکے، پڑوسن،نمک حلال، گول مال اور چمیلی کی شادی جیسی کلاسک فلمیں نمایاں ہیں۔
اوم پرکاش ایک پنجابی خاندان میں پیدا ہوئے، جو موسیقی اور تھیٹرسےدلچسپی رکھتا تھا، اگرچہ باقاعدہ فلمی پس منظر نہیں تھا۔ کم عمری سےہی ان میں نقل اُتارنے، لہجوں اور حرکات و سکنات کی سٹیج پر پیشکش کی غیر معمولی صلاحیت تھی، جسے اسکول کے اساتذہ اور مقامی ڈرامہ منڈلیوں نےفوراً پہچان لیا۔ ۱۹۳۰ءکی دہائی کے اواخر میں وہ آل انڈیا ریڈیو لاہورسے وابستہ ہوئے، جہاں ’فتح دین‘کے نام سے ایک مزاحیہ ریڈیو کردار تخلیق کیا۔ دیہاتی بولی اور عام آدمی کی سادگی پر مبنی یہ کردار اتنا مقبول ہوا کہ پورے پنجاب اور سرحدی علاقوں میں ان کی آواز گھر گھر پہنچ گئی۔ ۱۹۴۷ءکی تقسیم کے بعد اوم پرکاش کو بھی لاکھوں لوگوں کی طرح لاہورچھوڑ کر دہلی اور پھر بعد میں ممبئی آنا پڑا۔ یہاں انہوں نے پہلے اسٹیج اور ریڈیو کے ذریعے قدم جما ئے، پھر اتفاقاً ایک شادی کی تقریب میں ان کی مزاحیہ پرفارمنس دیکھ کر ایک فلم ساز نےانہیں رول آفر کیا۱۹۴۰ءکی دہائی کے آخر میں ان کی فلمی انٹری چھوٹےرولز سے شروع ہوئی، لیکن ۱۹۵۰ءکےعشرے میں وہ بالکل مستحکم کریکٹر ایکٹر کے طور پر سامنے آ گئے۔ ۱۹۵۰ءکی دہائی میں اوم پرکاش نے متعدد فلموں میں درمیانے درجے کے مزاحیہ اور سائیڈ رول ادا کیے، لیکن ہائوڑا بریج (۱۹۵۸ء) جیسی فلموں میں ان کے کرداروں نے انہیں وسیع پہچان دلائی، جہاں وہ اپنےمخصوص چہرے کے تاثرات، لہجے اور ڈائیلاگ ڈلیوری سے سیچوئشنل کامیڈی پیدا کرتےنظرآئے۔ ۱۹۶۰ءکی دہائی میں پیار کئے جا(۱۹۶۶ء)، پڑوسن(۱۹۶۸ء) اور سادھو اور شیطان (۱۹۶۸ء) میں ان کے مزاحیہ اور کبھی کبھی تھوڑے لالچی مگر دل کے نرم مزاج کرداروں نے انہیں گھریلو سنیما کا لازمی حصہ بنا دیا۔ ۱۹۶۰ءاور۱۹۷۰ءکی دہائی میں وہ ہندی سینما کے پسندیدہ باپ،چچا، استاد اور بزرگ بن گئے۔ ’گھر گھر کی کہانی‘، ’دوستی‘، ’آنند‘، ’نمک حرام‘، ’گورا اور کالا‘ اور ’چپکے چپکے‘ جیسی فلموں میں ان کا کردار کبھی مرکزی نہ ہو کر بھی یادگار رہا۔ خاص طور پر ’چپکے چپکے‘ میں ان کی موجودگی نےفلم کے خاندانی مزاح کو ایک تہذیبی وقار عطا کیا۔ اوم پرکاش کی اداکاری کی سب سے بڑی خوبی ان کی آواز تھی،نہ بہت بھاری، نہ بہت ہلکی، مگر ایسی کہ دل میں اتر جائے۔ ان کے مکالمے چیخ کرنہیں بولے جاتے تھے، بلکہ کان میں کہے جاتے تھے۔ وہ کیمرے کے سامنے خود کو بڑا ثابت نہیں کرتے تھے، بلکہ کردار کو بڑا بنا دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے ستارے ان کے ساتھ کام کر کے خود کو محفوظ محسوس کرتے تھے۔
اوم پرکاش نےاپنےفلمی کریئر کے ساتھ ساتھ گھریلو زندگی کو بھی سنبھالا اور ممبئی میں یکسر فلمی ماحول کے باوجود نسبتاً سادہ اور محتاط طرزِزندگی اختیار کیے رکھا۔ بڑھاپے میں بھی انہیں دوستوں کے ساتھ تاش کھیلتے، محفلوں میں لطیفے سناتے اور نئے فنکاروں کو تجربات سناتے دیکھا گیا۔ ۲۱؍ فروری ۱۹۹۸ءکو دل کا دورہ پڑنے سے وہ ممبئی میں انتقال کر گئے، ان کی عمر اس وقت تقریباً ۷۸؍برس تھی۔