اپنی پہلی فلم ’یملا جٹ‘کی کامیابی کے بعد پران نے فلم ’خاندان‘ سائن کی، جس میں ملکۂ ترنم نورجہاں ہیروئن تھیں جبکہ ’یملا جٹ‘ میں وہ چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر کام کر چکی تھیں۔
EPAPER
Updated: August 17, 2025, 11:28 AM IST | Anis Amrohvi | Mumbai
اپنی پہلی فلم ’یملا جٹ‘کی کامیابی کے بعد پران نے فلم ’خاندان‘ سائن کی، جس میں ملکۂ ترنم نورجہاں ہیروئن تھیں جبکہ ’یملا جٹ‘ میں وہ چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر کام کر چکی تھیں۔
ملک کی آزادی سے پہلے کا زمانہ تھا۔ ہر طرف انگریزی سرکار کا رعب و دبدبہ تھا اور ہندوستانی عوام میں ملک کی آزادی کیلئے بے تابی بڑھتی جا رہی تھی۔ کچھ لوگ اپنی شان و شوکت برقرار رکھنے کیلئے انگریزوں کی حمایت کر رہے تھے اور بعض ایسے بھی تھے جو خاموشی سے سرکار کیلئے کام کر رہے تھے مگر دل سے اپنے وطن کی آزادی کے خواہاں تھے۔ ایسے ہی ایک شخص لالہ کیول کشن سکند کا چھوٹا سا کنبہ دہلی کے بلی ماران علاقے میں آباد تھا۔ وہ دل سے ملک کی آزادی کے متمنی تھے۔
لالہ جی سرکار کے کاموں کا ٹھیکہ لیا کرتے تھے۔ اُن ہی لالہ کیول کشن سکند کے یہاں ۱۲؍فروری ۱۹۲۰ء کو پران کشن سکند کی پیدائش ہوئی، جو آگے چل کر ہندوستانی سنیما کے ایک بڑے فنکار کے طور پر پہچانے گئے۔ لالہ کیول کشن اپنے مختلف سرکاری ٹھیکوں کے سلسلے میں کئی شہروں میں ٹھکانے بدلتے رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پران کشن سکند کی ابتدائی تعلیم دہلی، میرٹھ، دہرہ دُون اور رام پور جیسے شہروں میں ہوئی۔ انہوں نے رضا ہائی اسکول، رام پور سے ہائی اسکول پاس کیا۔ پران کو فوٹوگرافی کا بہت شوق تھا لہٰذا وہ دہلی گئے اور ’داس اینڈ کو‘ اسٹوڈیو میں فوٹوگرافر کی ملازمت کرنے لگے۔ اتفاق سے اس اسٹوڈیو کا ایک یونٹ شملہ میں بھی تھا لہٰذا پران کو شملہ بھیج دیا گیا۔ شملہ میں پران نے تقریباً ایک برس فوٹوگرافر کا کام کیا اور پھر کسی ذریعہ سے لاہور چلے گئے۔ لاہور میں بھی وہ بحیثیت فوٹوگرافر ہی کام کر رہے تھے۔
پران کو سگریٹ پینے کا شوق بارہ برس کی عمر سے ہی لگ گیا تھا۔ ایک دن وہ لاہور میں کسی پان والے کی دُکان سے سگریٹ خرید رہے تھے۔ اتفاق سے وہیں لاہور فلم انڈسٹری کے مشہور اسکرپٹ رائٹر ولی محمد ولی بھی موجود تھے۔ ولی صاحب کو پران کے سگریٹ پینے کا انداز کچھ مختلف لگا اور وہ اُن کو غور سے دیکھنے لگے۔ دراصل یہاں ولی صاحب کو اپنی لکھی ایک فلم کا کردار یاد آرہا تھا جو وہ پران میں دیکھ رہے تھے۔ ولی محمد نے پران سے اپنا تعارف کرایا اور وہیں سے ایک کاغذ لے کر اپنا پتہ لکھ کر پران کو دیا اور کہا کہ وہ کسی روز اس پتے پر آکر ان سے ملاقات کریں۔ پران نے وہ کاغذ لے کر رکھ تو لیا مگر زیادہ توجہ نہیں دی۔
کچھ دنوں بعد ولی محمد کی ملاقات ایک بارپھر پران سے ہوئی تو انہوں نے ملاقات والی بات دہرائی۔ پران نے پوچھا کہ وہ کیوں ان سے ملنا چاہتے ہیں ؟ تب ولی صاحب نے بتایا کہ وہ اُن کو فلم میں کام دلوانا چاہتے ہیں۔ پران نے اُن کی اس بات کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا مگر ملاقات کا وعدہ کر لیا۔
ایک دن پران ولی صاحب کے دیئے ہوئے پتے پر پہنچ گئے اور تب ولی محمد صاحب نے پران کو مختصراً فلم ’یملا جٹ‘ کی کہانی کے ویلن کے کردار کے بارے میں بتایا۔ پران کو کہانی پسند آئی، اسلئے وہ اس فلم میں کام کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ یہ واقعہ ۱۹۴۰ء کا ہے۔ پران کی پہلی فلم ’یملا جٹ‘ کامیاب ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے ولی محمد کے ساتھ بعد میں بھی کئی فلموں میں کام کیا اور اس طرح سے وہ فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے۔
ولی محمد لاہور میں دَل سُکھ پنچولی کے ’پنچولی اسٹوڈیو‘ میں مستقل ملازمت پر اسکرپٹ رائٹر، مکالمہ نگار اور نغمہ نگار تھے۔ انہوں نے پران کو پنچولی اسٹوڈیو سے یہ سہولت دلوا دی تھی کہ وہ فرصت کے اوقات میں اپنے فوٹوگرافری کے کام کو جاری رکھ سکتے تھے۔ موتی بی گڈوانی کی ہدایت میں بنی فلم ’یملا جٹ‘کی کامیابی کے بعد پران نے شوکت حسین رضوی کی فلم ’خاندان‘ سائن کی، جس میں ملکۂ ترنم نورجہاں ہیروئن تھیں۔ پران کی پہلی فلم ’یملا جٹ‘ میں نورجہاں چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر کام کر چکی تھیں۔ فلم ’خاندان‘ میں نورجہاں کی عمر صرف ۱۵؍برس تھی اور وہ پران سے قد میں چھوٹی تھیں، لہٰذا دونوں کے کلوز اَپ شاٹ لیتے وقت نورجہاں کو ایک چھوٹے سے اسٹول پر کھڑا کیا جاتا تھا۔
لاہور میں ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۶ء تک پران ۲۲؍فلموں میں اداکاری کر چکے تھے اور ۱۸؍فلمیں ابھی اُن کے پاس باقی تھیں، اسی دوران ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کا معاملہ پیش آگیا جس کی وجہ سے ان کے کریئر میں ایک خلا آگیا۔ ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۷ء تک کی تمام فلمیں غیرمنقسم ہندوستان میں بنی تھیں۔ اس کے بعد پران بمبئی چلے آئے لیکن کافی دنوں تک انہیں یہاں کوئی فلم نہیں ملی۔ ایک طرح سے دل برداشتہ ہوکر انہوں نے اپنا کریئر بدلنے کا ارادہ کر لیا اور بمبئی کے مرین ڈرائیو پر ہوٹل ڈیلمار میں ملازمت شروع کر دی۔ وہاں ملازمت کرتے ہوئے کچھ ہی ماہ گزرے تھے کہ بمبئی ٹاکیز میں سعادت حسن منٹو کی سفارش پر اُن کو فلم ’ضدی‘ میں کام مل گیا۔ فلم ’ضدی‘ دیوآنند کی پہلی فلم تھی اور کامنی کوشل اُس فلم کی ہیروئن تھیں۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد پران کو لگاتار فلمیں ملنی شروع ہو گئیں۔
۱۹۴۸ء میں ’ضدی‘ کی ریلیزکے بعد اُسی سال پران کی ’نیک دل، گرہستی، چنریا، برہن اوربرسات کی ایک رات‘ جیسی اہم فلمیں بھی ریلیز ہوئیں۔ اس کی وجہ سے اُن کی شہرت بڑھتی گئی۔ اگلے ہی برس ۱۹۴۹ء میں اُن کی ۵؍ فلمیں ’راکھی، پتلی، جنم پتری، بڑی بہن اوراپرادھی‘ ریلیز ہوئیں۔ اِن میں ’بڑی بہن‘ نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ ولی صاحب بھی تقسیم کے بعد بمبئی آگئے اور ایک پروڈیوسر کے بطور مہالکشمی ریس کورس کے پاس فیمس اسٹوڈیو میں اپنا آفس بھی بنا لیا تھا۔ ۱۹۵۲ء میں ولی محمد کی فلم ’زمانے کی ہوا‘ میں پران نظر آئے۔ ۱۹۵۳ء میں پران نے پہلی بار راج کپور کے ساتھ فلم ’آہ‘ میں کام کیا۔ یہ اُن کا پہلا شریف آدمی کا کردار تھا اور تھوڑا الگ قسم کا بھی تھا جوانہوں نے نہایت مہذب طریقے سے ادا کیا تھا۔ ۱۹۵۵ء میں ’دیوداس، بارہ دری، منیم جی اورآزاد‘ جیسی فلموں میں پران نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان فلموں میں ان کی اداکاری کی وجہ سے اُن کے چاہنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی۔
فلم ’آزاد‘ میں پہلی بار اُن کا ساتھ دلیپ کمار کے ساتھ ہوا۔ ۱۹۵۸ء میں دلپ کمار کے ساتھ بمل رائے کی فلم ’مدھومتی‘ میں پران کی اداکاری کو کافی سراہا گیا۔ اسی سال جیمنی فلمز کی ’راج تلک‘ میں بھی پران موجود تھے۔ ۱۹۵۹ء میں بابو بھائی مستری کی ہدایت میں ’بے درد زمانہ کیا جانے‘ اور نانا بھائی بھٹ کی ہدایت میں ’ڈاکا‘ میں بھی پران نظر آئے۔ اسی سال فلمالیہ کی ’دل دے کے دیکھو‘، منروا مووی ٹون کی ’دو غنڈے‘ اور لیکھ راج بھاکری کی ’پیار کی راہیں ‘ اُن کی خاص فلمیں رہیں۔
۱۹۶۰ء میں ’بسنت، بے وقوف، چھلیا، دلی جنکشن، گیمبلر، جس دیش میں گنگا بہتی ہے، ماں باپ اورٹرنک کال‘ جیسی اہم فلموں میں پران موجود تھے۔ راج کپور کی فلم ’جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ میں پران نے ایک خونخوار ڈاکو کا کردار ادا کیا تھا مگر ایک سین میں جب اُن کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، تو وہاں فلم بینوں کو پتہ چلتا ہے کہ انسان کتنا بھی خونخوار کیوں نہ ہو، اس کے دل کے کسی نہ کسی گوشے میں انسانیت ضرور زندہ رہتی ہے۔
۱۹۶۱ء میں ’جب پیار کسی سے ہوتا ہے‘ میں ناصر حسین کی ہدایت میں اور ۱۹۶۲ء میں ’دل تیرا دیوانہ، ہاف ٹکٹ، جھولا اور من موجی‘ جیسی فلموں میں انہوں نے بہترین کردار ادا کئے۔ ’ہاف ٹکٹ‘ اور’من موجی‘ میں کشور کمار اُن کے ساتھ تھے۔ ۱۹۶۳ء میں منموہن دیسائی کی ہدایت میں ’بلف ماسٹر‘، راول فلمز کی ’دل ہی تو ہے‘، شکتی سامنت کی ’ایک راز‘، ایچ ایس رویل کی ’میرے محبوب‘، ناصر حسین کی ’پھر وہی دل لایا ہوں ‘ اور وکرم پروڈکشن کی ’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘ جیسی فلموں میں پران کے یادگار کردار تھے۔ خاص طور پر فلم ’میرے محبوب‘ کے عیاش اور بگڑے ہوئے نواب منے میاں کو اور۱۹۶۴ء میں فلم ’کشمیر کی کلی‘ کے ٹھیکیدار کا وہ مکالمہ ’’شتالے شتالے شمپا، ہمارا بھی شمئے آئے گا‘‘ کو لوگ آج تک نہیں بھول سکے ہیں۔
پران کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ہر فلم میں اپنی ایک الگ قسم کی ڈائیلاگ ڈیلیوری پیش کرتے تھے اور ایک الگ قسم کا ایکشن جیسے سگریٹ پینے کا انداز، جیب سے رومال نکالنا اور رکھنا، اُنگلی نچا کے بولنا، ایک آنکھ کو مچکاکے بولنا اور لنگڑاکے چلنا، جیسے مختلف قسم کے ایکشن سے کردارنبھاتے تھے۔ ۱۹۶۵ء میں ’دو دل، خاندان، گمنام، میرے صنم اورشہید‘جیسی فلموں سے پران نے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں سے فلم بینوں کا دل جیت لیا تھا۔ حالانکہ ان میں اُن کا کردار منفی ہوتا تھا مگر ایک وہ اتنا مختلف ہوتا تھا کہ ہر کردار الگ ہی اپنی چھاپ چھوڑتا تھا۔ ایک دور ایسا بھی آیا تھا جب لوگ فلموں کی پبلسٹی میں پران کا نام دیکھ کر ہی فلم دیکھنے جاتے تھے۔
۱۹۶۶ء میں پران کے نگیٹیو کردار والی دلیپ کمار، وحیدہ رحمن کی فلم ’دل دیا درد لیا‘ آئی۔ کاردار صاحب کی اس فلم میں پران نے ایک الگ قسم کی اداکاری کی تھی۔ شروع میں وہ ریاست کے راجکمار کو طرح طرح سے ذلیل کرتا ہے اور جب راجکمار اپنے اصلی کردار میں سامنے آتا ہے تو پران در در بھٹکتے ہوئے بھی اپنی اس نفرت کو کم نہیں کر پاتا اور راجکمار کو ایک ملازم کی طرح ہی کمتر سمجھتا ہے۔ اسی برس منوج کمار اور آشا پاریکھ کی کامیاب ترین فلم ’دو بدن‘ میں پران نے ویلن کا کردار نبھایا تھا۔ اس کے ساتھ فلم ’ملن، پتھر کے صنم اور دلیپ کمار کے ساتھ رام اور شیام‘ میں بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ اُسی برس فلمساز و ہدایتکار منوج کمار نے فلم ’اُپکار‘ میں پہلی بار پران کو الگ طرح کے کریکٹر ایکٹر کے طور پر ملنگ بابا کے کردار میں پیش کیا۔ منفی کرداروں میں پران کا وہ عروج کا زمانہ تھا، مگر ملنگ بابا کے کردار میں پران نے کچھ اِس طرح سے پران ڈالے کہ وہ فلم آج بھی صرف ملنگ بابا کے کردار کی وجہ سے ہی یاد کی جاتی ہے۔
(دوسری اور آخری قسط آئندہ ہفتے)