Inquilab Logo Happiest Places to Work

رنگین فلموں کا دور آتے ہی ہندی فلموں میں کشمیر کے مناظر کی عکاسی ہونے لگی تھی

Updated: May 18, 2025, 12:23 PM IST | Anis Amrohvi | Mumbai

شمی کپور کی مقبول فلم’ جنگلی‘ کی کہانی کشمیر کے پس منظر میں تیار کی گئی تھی، اسی طرح ششی کپور کی فلم ’جب جب پھول کھلے‘ اور راجندر کمار کی ’آرزو‘ میں بھی کشمیر کے مناظر کا بہترین استعمال کیا گیاتھا۔

Shashi Kapoor and Nanda`s film `Jab Jab Phool Khele` was released in 1965. Photo: INN.
ششی کپور اور نندہ کی فلم ’جب جب پھول کھلے‘۱۹۶۵ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ تصویر: آئی این این۔

کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر نے جب پہلی بار سرزمین کشمیر پر قدم رکھا اور اس نے چشم حیرت سے اس دلفریب وادی کا حسن پرور نظارہ دیکھاتو اچانک ہی ان کے منہ سے فارسی کا یہ شعر نکلا:
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
یعنی اگر دنیا میں کہیں جنت ہے، تو وہ یہی ہے، یہی ہے، اور صرف یہی ہے۔ میرے خیال سے کشمیر کے حسن کی اس سے بہتر مثال ممکن نہیں ہو سکتی۔ بادشاہ اکبر کے بعد جب اس کا لاڈلا بیٹا جہانگیر تخت نشین ہوا تو اس نے باقاعدہ کئی سیرگاہیں اور باغات کشمیر کے مختلف حصوں میں بنوائے۔ اس کا زیادہ تر وقت کشمیر کی سیرگاہوں میں ہی گزرتا تھا۔ مغلوں کے بعد انگریز حاکموں نے بھی کشمیر کے حسن سے متاثر ہوکر اپنے فرصت کے اوقات میں کشمیر کے مختلف مقامات کی سیر وتفریح میں گزارنے پسند کئے۔ یوں دیکھا جائے تو کشمیر سرزمین ہند کے سر کا تاج معلوم ہوتا ہے۔ 
ہماری فلموں نے بھی کشمیر کے حسن کو پردۂ سیمیں کے ذریعہ ہندوستان کے دور دراز کے علاقوں تک پہنچانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ بہت سے ایسے لوگ جو اپنی بہت سی مجبوریوں کے باعث خود کشمیر جاکر وہاں کے قدرتی مناظر کے حسن سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے تھے، انہوں نے کشمیر کے حسین مناظر کو پردۂ سیمیں پر دیکھ کر اپنی آنکھوں میں ٹھنڈک کا احساس کیا ہوگا۔ ہماری فلموں کے شروعاتی دور میں فلموں کی زیادہ تر شوٹنگ اسٹوڈیو ہی میں ہوا کرتی تھی۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک تو تکنیکی طور پر شوٹنگ سے متعلق ساز و سامان کو اِدھر سے اُدھر لانے لے جانے میں بڑی دقت تھی، دوسرے لوگوں کی بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے بھی کام اچھا نہیں ہو پاتا تھا۔ آرٹسٹ بھی بھیڑ بھاڑ سے بچتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کے زمانے تک آئوٹ ڈور شوٹنگ کا رواج کم ہی رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس دور کی فلموں میں کشمیر کی نمائندگی بھی بہت کم ہوئی۔ 
رنگین فلموں کا زمانہ آتے ہی آئوٹ ڈور شوٹنگ کا رواج بڑھا۔ اس کے ساتھ ہی قدرتی مناظر کو اور زیادہ خوبصورتی کے ساتھ پیش کرنے کا رجحان فلمساز وں اور ہدایتکاروں میں بتدریج بڑھتا چلا گیا۔ اس کیلئے ہندوستان میں کشمیر جنت نظیر سے بہتر جگہ اور کیا ہو سکتی تھی، لہٰذا ہمارے فلمسازوں نے کشمیر کا رُخ کیا اور اپنی فلموں کی کہانیوں کا رُخ بھی کشمیر کی طرف موڑنے لگے۔ 
اداکار ششی کپور کی ایک فلم آئی تھی ’جب جب پھول کھلے‘۔ اس فلم میں بڑے گھر کی ایک لڑکی نندہ اپنے منگیتر کے ساتھ کشمیر کی سیر کو جاتی ہے اور وہاں شکارہ چلانے والے غریب نوجوان ششی کپور پر عاشق ہو جاتی ہے.... اور پھر کشمیر کی حسین وادیوں میں ان کا عشق پروان چڑھنے لگتا ہے۔ کشمیر کے باغوں کی سیر ہوتی ہے، وہاں کی جھیلوں میں تیرتے شکاروں میں گانے ہوتے ہیں اور فلم ہِٹ ہو جاتی ہے۔ اس فلم کے گانے آنند بخشی نے تحریرکئے تھے۔ فلمی گیت گار کی حیثیت سے یہ ان کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم کے کئی نغمے بے حد مقبول ہوئے تھے۔ فلم بینوں نے کشمیر کے حسن کو پردۂ سیمیں پر دیکھ کر بڑی راحت محسوس کی تھی۔ 
اس سے قبل شمی کپور کی ایک بہت ہی مقبول فلم’ جنگلی‘ کی کہانی بھی کشمیر ہی کے پس منظر میں تیار کی گئی تھی۔ یہ فلم اداکارہ سائرہ بانو کی پہلی فلم تھی اور کشمیری دوشیزہ کے طور پر سائرہ بانو کو اس فلم میں بہت زیادہ پسند کیا گیا تھا۔ فلم ’جنگلی‘ میں نہ صرف یہ کہ کشمیر کے باغات کی بڑی حسین عکاسی کی گئی تھی بلکہ وہاں کے برفانی طوفان اور ندیوں، جھیلوں اور برفانی چوٹیوں کی بھی بہت خوبصورت انداز میں فلمبندی کی گئی تھی۔ کشمیر کے پس منظر میں فلمائی گئی اس فلم کے کئی گیت بہت مقبول ہوئے تھے۔ خاص طور پر سائرہ بانو پر فلمایا گیا نغمہ ’’کشمیر کی کلی ہوں میں ....‘‘ بہت مقبول ہوا تھا۔ 
اداکار شمی کپور کی ہی ایک دوسری فلم ’کشمیر کی کلی‘ کی کہانی بھی ایک ایسے غریب خاندان کی لڑکی کی کہانی ہے جو کشمیر کے باغات سے پھول چن کر اپنا اور اپنے نابینا باپ کا گزارا چلاتی ہے۔ اس فلم میں اداکارہ شرمیلا ٹیگور نےکشمیری دوشیزہ کا کردار ادا کیا تھا اور ان کی یہ پہلی ہندی فلم تھی۔ کشمیری دوشیزہ کے کردار میں شرمیلا ٹیگور انتہائی خوبصورت لگی تھیں۔ فلم بینوں نے اس کردار میں ان کو بہت پسند کیا تھا۔ اس فلم میں وہاں کے باغات اور بہت سے دلفریب مناظر کی انتہائی خوبصورتی سے فلمبندی کی گئی تھی۔ 
یہاں یہ بات بتا دینا بھی ضروری ہے کہ ہماری فلموں کے چند اداکار ایسے رہے ہیں جنہوں نے کشمیر کو بڑی اہمیت دی ہے۔ ان میں شمی کپور، جوائے مکھرجی، ششی کپور اور راجندر کمار کے نام اہم ہیں۔ ان اداکاروں کی فلموں کی شوٹنگ کشمیر میں بہت زیادہ ہوئی ہے۔ اپنے زمانے کے بے حد مقبول اداکار راجندر کمار کی ایک بہت ہی مقبول فلم تھی’آرزو‘۔ یہ فلم فلمساز و ہدایتکار رامانند ساگر نے بنائی تھی۔ اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ کشمیر میں ہوئی تھی۔ کشمیر کے باغات، ڈل جھیل، برفانی چوٹیاں، جھرنے اور بنگلے وغیرہ کی نہایت عمدہ عکاسی اس فلم میں کی گئی ہے۔ آرزو فلم کے تقریباً سبھی نغمے بے حد مقبول ہوئے تھے۔ خاص طور پر لتا منگیشکر کی آواز میں اس فلم کا وہ نغمہ جو اداکارہ سادھنا پر ڈل جھیل کے پس منظر میں فلمایا گیا تھا ’’بے دردی بالما تجھ کو میرا من یاد کرتا ہے‘‘ بے حد مقبول ہوا تھا۔ اس گانے کو لکھنے کیلئے حسرتؔ جے پوری خود کشمیر گئے تھے اور اتفاق سے ڈل جھیل کے کنارے ہی کسی ہوٹل میں مقیم تھے۔ تبھی ہوٹل کی ایک کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھتے ہوئے ان کی نگاہ دور تک پھیلی ہوئی ڈل جھیل پر پڑی۔ اس وقت پوری جھیل پر دھوپ پھیلی ہوئی تھی اور ان کو ایسا لگا جیسے کسی نے بہت بڑا آئینہ لاکر وادی میں بچھا دیا ہے۔ تبھی اس نغمہ کیلئے ایک مصرعہ کچھ اس طرح موزوں ہوا:
تجھے اس جھیل کا خاموش درپن یاد کرتا ہے
ہماری فلموں کے بیشتر فلمساز، ہدایت کار، اداکار اور اداکارائیں کشمیر کے حسن سے متاثر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری بے شمار فلموں میں نہ صرف کشمیر کے حسین مناظر ہیں، وہاں کے باغات ہیں، جھیلیں اور برفیلی چوٹیاں ہیں، بلکہ ہمارے بہت سے فلمی گیتوں میں بھی کشمیر کے حسن کے قصیدے پڑھے گئے ہیں۔ ۱۹۸۲ء میں سپر اسٹار امیتابھ بچن کی ایک فلم آئی تھی ’بے مثال‘ جو رشی کیش مکھرجی نے بنائی تھی۔ اس فلم میں امیتابھ بچن کے ساتھ ہی راکھی اور ونود مہرا بھی اہم کردار میں تھے۔ اس فلم کی کافی شوٹنگ کشمیر میں ہوئی تھی۔ جب اس فلم کے کردار کشمیر کے حسن سے متاثر ہوئے تو ایک بہت خوبصورت نغمہ کشمیر کی شان میں منظر عام پر آیا کہ:کتنی خوبصورت یہ تصویر ہے، یہ کشمیر ہے، یہ کشمیر ہے۔ 
امیتابھ بچن ہی کی ایک اور فلم ’کبھی کبھی‘ ۱۹۷۴ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی تھی۔ یش چوپڑا کی اس فلم کی کافی شوٹنگ کشمیر میں ہوئی تھی۔ راکھی، ششی کپور اور وحیدہ رحمان کے ساتھ رشی کپور، نیتو سنگھ، اور نئی اداکارہ نسیم، سب نے مل جل کر اس فلم کی شوٹنگ کے دوران کشمیر میں پکنک جیسا ماحول بنا لیا تھا اور بہت انجوائے کیا تھا۔ فلم ’کبھی کبھی‘ میں کشمیر کے حسین مناظر کی عکس بندی نہایت خوبصورت انداز میں کی گئی ہے۔ اس فلم کے کئی گانے کشمیر کے باغات کے درمیان ہی فلمائے گئے ہیں، جو کافی مقبول بھی ہوئے۔ 
اسی طرح ساگر سرحدی کی فلم ’نوری‘کی کہانی بھی ایک کشمیری دوشیزہ کی کہانی ہے، جو کشمیر کے سیبوں کے باغات کے درمیان ہی میں رہتی ہے۔ یہ فلم کم بجٹ کی ہوتے ہوئے بھی بہت مقبول ہوئی تھی۔ اس فلم کا ایک گیت ’’آجا رے، آجارے میرے دلبرآجا‘‘ آج بھی جب ریڈیو سے نشر ہوتا ہے تو پورا کشمیر اور اس کے سیبوں کے باغات اور دیگر حسین مناظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ امیتابھ بچن اور ریکھا کی بہت خوبصورت فلم ’سلسلہ‘ کی کامیابی اور مقبولیت کا ایک راز کشمیر کا حسن بھی ہے، جس کو نہایت عمدگی کے ساتھ عکس بند کیا گیا ہے۔ اسی طرح فلم ’رام تیری گنگا میلی‘ میں کشمیر کے باغات اور دوسرے حسین مناظر کی بہترین عکس بندی کی گئی ہے۔ 
ایسا نہیں ہے کہ صرف رومانٹک فلموں کیلئے ہی کشمیر کے حسن اور اس کے مناظر کو پردۂ سیمیں پر اتارا گیا ہے۔ حالات بدلنے کے ساتھ ہی مشہور فلمساز و ہدایت کار گلزارؔ نے اپنی فلم ’ماچس‘ میں بھی کشمیری پس منظر کو بہت خوبصورتی سے پردۂ سیمیں پر اتارا ہے۔ گلزارؔ کی ہی ایک دوسری فلم ’موسم‘ کی کہانی بھی کشمیر کے حسین مناظر کے پس منظر میں پروان چڑھتی ہے۔ اس فلم کے کئی گیت مقبول ہوئے۔ چند سال قبل کشمیر کے پس منظر میں ایک فلم ’مشن کشمیر‘ ریلیز ہوئی تھی۔ حالانکہ اس فلم کا موضوع مختلف تھا مگر کشمیر کے باغات کے حسن نے اس فلم کے ماحول کو کافی پُرکشش بنا دیا ہے۔ اسی طرح فلم ’روجا‘ میں کشمیر کے مناظر کی فلمبندی بہت خوبصورتی سے کی گئی ہے۔ 
ان مقبول فلموں کے علاوہ جن کا فلمی پس منظر کشمیر کے باغات اور وہاں کے قدرتی حسین مناظر تھے، ایسی فلموں کی تعداد بھی کم نہیں ہے جن کی کہانی کا تعلق تو کشمیر سے نہ تھا مگر کسی نہ کسی بہانے سے ان فلموں کے گانے یا اہم مناظر کی شوٹنگ کشمیر کے باغات یا وہاں کے دوسرے اہم مقامات کو پس منظر میں رکھ کر کی گئی ہے۔ کشمیر کا دل فریب حُسن آج بھی فلمسازوں، ہدایتکاروں اور اداکاروں کیلئے اپنے اندر بے پناہ کشش لئے ہوئے ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK