ست مالا پہاڑی سلسلے میں۳؍ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ قلعہ فطرت سے محبت کرنے والوں اور تاریخ کے شائقین کیلئے پرکشش مقام ہے۔
دور سے لی گئی ہے اس میں پورا قلعہ نظر آرہا ہے۔ تصویر:آئی این این
انتور قلعہ اورنگ آبادکےکنڑ تعلقہ میں واقع ایک تاریخی پہاڑی قلعہ ہے۔ یہ قلعہ فطرت سے محبت کرنے والوں اور تاریخ کے شائقین دونوں کیلئے ایک پرکشش مقام ہے۔ سطح سمندر سے تقریباً ۳؍ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ قلعہ ست مالا پہاڑی سلسلوں میں ایک اہم اسٹریٹجک پوزیشن رکھتا تھا، جو کبھی خاندیش اور مراٹھواڑا کے درمیان قدیم تجارتی راستے پر نظر رکھتا تھا۔
تاریخی پس منظر
انتور قلعہ کی تعمیر پندرہویں صدی کے وسط میں ایک مقامی مراٹھا سردار نے کی، اور قلعے کا نام بھی اسی کے نام پر پڑا۔ روایتاً اسے دھونےبرادری کے مراٹھا سرداروں سے منسوب کیا جاتا ہے، جو قلعہ کے نزدیک چمن پور/چمنہ پور گاؤں میں آباد تھے اور جن کے ایک پیش رو روی راؤ شام راؤ دھونے کا نام یہاں کے ’قلعہ دار‘ کے طور پر مقامی تاریخ میں ملتا ہے۔
بعد ازاں یہ قلعہ نظام شاہی سلطنت احمد نگر کے زیرِ نگیں آیا، جس کاثبوت قلعے کے دروازوں اور دیواروں پر کندہ فارسی کتبوں اور نوشتہ جات سےملتا ہے۔سترہویں صدی میں مغل و مراٹھا کشمکش کے زمانے میں یہاں خونریز معرکے ہوئےاور بالآخر قلعہ ایک بار پھر مراٹھااقتدار میں آیا، لیکن انگریز،نظام گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ۱۸۲۰ء کے آس پاس برطانوی لشکر نے اس پر قبضہ کر لیا۔
قلعے کی اندرونی عمارتوں میں سے ایک حصے کو بعد کے ادوار میں ایک صوفی بزرگ کے مزارمیں تبدیل کر دیا گیا، جو آج بھی مقامی عقیدت مندوں کی توجہ کا مرکز ہے۔
دیکھنے لائق مقامات
انتور قلعہ کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کے مضبوط فصیل بند حصے، متعدد دروازے اور اونچے برج ہیں۔
تین بڑے دروازے: مشرقی رُخ پر مرکزی شاندار دروازہ، جس کے اندرونی محراب پر نہایت نفیس سنگ تراشی اور مجسمہ نما کٹاؤ موجود ہے۔ اسی محراب کے ساتھ چار توپ کےگولے سجاوٹ کے طور پر دیوار میں نصب ہیں، ایسی سجاوٹ نہ صرف مہاراشٹر بلکہ باہر بھی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
فصیل اور برج: جنوبی حصے میں۲؍بڑے برج اور مضبوط فصیل قلعہ کے دفاعی کردار کو ظاہر کرتے ہیں، جب کہ شمالی حصہ نسبتاً زیادہ محفوظ اور ’قلعہ در قلعہ‘ کی شکل میں مضبوط کیا گیا ہے۔
آبی ذخائر: قلعے کے وسط اور مغربی ڈھلوان کی جانب چٹانوں کو تراش کر بنائےگئے حوض اور ٹینک آج بھی بارش کا پانی سمیٹ کر رکھتےہیں، جو زمانۂ قدیم میں محاصرے کے دوران پانی کی ضرورت پوری کرتے ہوں گے۔
راستےمیں کہیں کہیں فارسی کتبوں والے پتھر، اور قلعے کے نزدیک تقریباً۶؍فٹ اونچا ایک سنگی ستون(راستہ بتانے والا سنگ میل)بھی ملتا ہے جس پرچار اطراف مختلف شہروں کے رخ اور فاصلے درج ہیں اور سنہ۱۶۰۸ءنقش ہے، ماہرین کے نزدیک یہ بھی ایک اہم تاریخی نشان ہے جسے عرصہ دراز سے جوں کا توں چھوڑاگیا ہے۔
ٹریکنگ (پہاڑی سفر):یہ قلعہ ٹریکنگ کے شوقین افراد کیلئےایک بہترین مقام ہے۔ اگرچہ ایک راستہ گاڑی کے ذریعے ایک خاص مقام تک جاتا ہے، لیکن پہاڑی پر چڑھنے کا تجربہ مہم جوئی سے بھرپور ہوتا ہے اور قلعے کی پوزیشن کی اسٹریٹجک اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
یہاں کیسے پہنچیں؟
اورنگ آباد: عام طور پر یہ راستہ بتایا جاتا ہے کہ آپ اورنگ آباد سے کنڑ،ناگد/ناگاپورسے کھولا پور ہوتے ہوئے قلعہ تک پہنچ سکتے ہیں۔
چالیس گائوں:کچھ سیاح چالیس گاؤں،ناگد،انتور کے راستے سے بھی یہاں پہنچتے ہیں۔
ٹریکنگ: قلعے تک چڑھائی نسبتاً آسان تا درمیانی درجے کی کہی جاتی ہے اور عموماً ڈیڑھ تا۲؍ گھنٹے میں اوپر پہنچا جا سکتا ہے، اس لیے نئے ٹریکرز کے لیے بھی مناسب مانا جاتا ہے۔