یہاں کی وادیوں، پہاڑوں، تالابوں اور قبائلی افراد نے مل کر ایسی داستان لکھی ہے جسے پڑھا نہیں صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔
EPAPER
Updated: June 18, 2025, 11:36 AM IST | Mohammed Habib | Mumbai
یہاں کی وادیوں، پہاڑوں، تالابوں اور قبائلی افراد نے مل کر ایسی داستان لکھی ہے جسے پڑھا نہیں صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔
ایک قدیم پہاڑی بستی، جہاں موسموں کا مزاج نازک ہے، اور فضا میں شال اوڑھے سناٹا بولتا ہے۔ جھارکھنڈ کی سرزمین پر واقع ہزاری باغ ایک ایسا مقام ہے جہاں فطرت، ثقافت اور تاریخ نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام رکھےہیں۔ یہاں کی وادیاں، پہاڑیاں، تالاب، مندر، اور قبائلی رنگ سب مل کر ایک ایسی داستان سناتے ہیں، جسے صرف پڑھا نہیں، محسوس کیا جاتا ہے۔
نام کا مفہوم
کہتے ہیں، ’ہزاری باغ‘کا مطلب ہی ’ہزار باغات‘ہے —اور جب آپ اس جگہ کی ہواؤں، وادیوں اور پہاڑی راستوں سے گزرتے ہیں، تو لگتا ہے جیسے ہر گوشہ ایک الگ باغ ہو…ایک الگ کیفیت!
تاریخی پس منظر
ہزاری باغ کو انگریزوں نے ۱۹؍ ویں صدی میں ضلع کے طور پر قائم کیا۔ یہاں جیل بھی بنائی گئی جہاں سیاسی قیدیوں کو رکھا جاتا، لیکن وہ جیل خود ایک درسگاہ بن گئی، جہاں جے پرکاش نارائن اور جگجیون رام جیسے انقلابی سوچنے لگے، لکھنے لگے۔ یہ علاقہ آدیواسی تحریکوں، زرعی احتجاجات اور سماجی بیداری کی آماجگاہ رہا ہے۔
ہزاری باغ نیشنل پارک
ہزاری باغ وائلڈ لائف سنکچری، جو۱۹۵۵ءمیں قائم ہوئی، تقریباً۱۸۶؍کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں ہرن، نیل گائے، چیتے، بھالو، جنگلی سور اور سیکڑوں قسم کے پرندے آزاد فضا میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ علاقہ گھنے سال در سال پرانے جنگلات، خاموش پہاڑی راستوں اور گہرے نالوں پر مشتمل ہے۔ یہاں آپ قدرت کو نہ صرف دیکھتے ہیں، بلکہ اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔
ہزار باغ جھیل
ہزاری باغ شہرکےعین وسط میں واقع، یہ جھیل ’ہزاری باغ لیک‘ یا مقامی زبان میں صرف ’جھیل‘کے نام سے معروف ہے۔ یہ کوئی قدرتی جھیل نہیں بلکہ ایک مصنوعی جھیل ہے، جسے برطانوی دور حکومت میں آبپاشی اور ذخیرہ آب کے لیے تیار کیا گیا تھا، مگر رفتہ رفتہ یہ مقام تفریحی مرکز، مقامی لوگوں کے لیے پکنک اسپاٹ اور صبح شام کی سیر کا سب سے دلکش گوشہ بن گیا ہے۔ ہزاری باغ جھیل صرف ایک جھیل نہیں ہےبلکہ جھیلوں کا ایک سلسلہ ہے، جو ۵؍ جھیلوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جھیل سب سے بڑی ہے، یہ عام طورپر سیر کرنے والوں، فوٹوگرافی کے شوقین حضرات، اور کشتی رانی کرنے والوں سے آباد رہتی ہے۔ دوسری اور تیسری جھیل نسبتاً چھوٹی ہیں، مگر ان کے کنارے بہت پر فضا ہیں۔ چوتھی اور پانچویں جھیل کو نسبتاً کم جانا جاتا ہے، مگر یہاں فطرت زیادہ خاموش اورپراسرار لگتی ہے۔ یہ تمام جھیلیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، جیسے قدرت نے پانی کو نظم میں پرو دیا ہو۔ صبح کے وقت، جب سورج کی پہلی کرن پانی پر پڑتی ہے، تو جھیل ایک آئینہ بن جاتی ہےجس میں آسمان خود کو دیکھتا ہے۔ شام میں یہاں کی پرسکون لہریں، کناروں پر بیٹھے لوگوں کی خاموش باتیں اور دور کہیں بجتی بانسری… سب مل کر وقت کو تھما سا دیتی ہیں۔
کونار ندی
کونار ندی پہاڑوں سےنکلتی ہے، جنگلوں سے گزرتی ہے، اور تہذیب کے میدانوں کو سیراب کرتی ہے۔ کونار ندی اس پورے خطے کو سیراب کرتی ہے۔ کنہار ندی کا جنم جھارکھنڈ کے ہزاری باغ ضلع میں ہوتا ہے، جہاں گھنے جنگلات، سرسبز پہاڑیاں اور پہاڑی چشمے آپس میں مل کر اسے جنم دیتےہیں۔ یہ ندی آگے چل کر دامودر ندی میں شامل ہو جاتی ہے، جو خود بہار اور جھارکھنڈ کی اہم ندیوں میں شمار ہوتی ہے۔ قریبی جھیلیں جیسے کینیری تالاب اور ہزاری باغ جھیل، محض پانی کی سطحیں نہیں، عاشقوں کی یادیں اور شاعر کی خلوت ہیں۔
کونار ڈیم
ہزاری باغ سے تھوڑا فاصلہ پر کونار ڈیم واقع ہے۔ یہ ایک زبردست انجینئرنگ کا کارنامہ ہے جو نہ صرف پینے کے پانی کا ذریعہ ہےبلکہ اطراف کا قدرتی حسن دو چند کر دیتا ہے۔ یہاں شام کے وقت سورج کا پانی پر جھلملانا، گویا کسی راگ کے آخر میں بجتی ہوئی تان ہو۔ یہ جھارکھنڈ کا پہلا بڑا ڈیم منصوبہ تھا اور دامودر ویلی کارپوریشن کا حصہ تھا۔ ڈیم کے آس پاس کا علاقہ آج پکنک اسپاٹ بن چکا ہے خاص طور پر سردیوں میں جب مقامی لوگ اپنے بچوں، ساز و سامان، اور دال-چاول کی ہانڈیوں کے ساتھ یہاں کا رخ کرتے ہیں۔