Inquilab Logo

پانی پت اپنی۳؍ جنگوں اور تاریخی عمارتوں کیلئے مشہور ہے

Updated: April 23, 2024, 5:39 PM IST | Mohammed Habib | Mumbai

یہاں ایک جانب اکبر کی بنائی ہوئی کابلی باغ مسجد ہے تو دوسری جانب ابراہی لودھی کا مقبرہ ہے،یادگار کیلئے میوزیم اورسالار گنج گیٹ ہے۔

Kabuli Bagh Mosque. Photo: INN
کابلی باغ مسجد۔ تصویر : آئی این این

 ہریانہ میں واقع پانی پت دریائے جمنا کے کنارے واقع ایک بہت قدیم شہر ہے۔ تاریخی مقام ہونے کے علاوہ پانی پت سیاحوں میں بھی بہت مقبول ہے۔ تاریخی ورثے سے مالا مال ہونے کے علاوہ یہ شہر اپنے فن، ثقافت اور تہذیب کیلئے بھی دنیا بھر میں مشہور ہے۔ پانی پت شہر کے فن کے بارے میں بات کریں تو یہاں آپ کو بہت سے باصلاحیت فنکار ملیں گے جو اپنے ہاتھوں سے اشیاء تیار کرتے ہیں اور پھر انہیں بازار میں فروخت کرتے ہیں۔ 
ان وجوہات کی وجہ سے پانی پت شہر کو بین الاقوامی بازار کے طور پر بھی پہچاناجاتا ہے۔ لوگ دور دور سے اس مقام پر کاروبار کرنےآتے ہیں۔ سیاحت کے لحاظ سے پانی پت بہت سے قدیم کھنڈرات اور تاریخی مقامات کے لیے جانا جاتا ہے۔ 
پانی پت کی تاریخ: پانی پت تاریخی نقطہ نظرسےبہت مشہور ہے۔ یہاں کی سب سے اہم بات یہاں ہونے والی۳؍جنگیں ہیں۔ 
پانی پت کی پہلی جنگ۱۵۲۶ءمیں ابراہیم لودھی اور بابر کے بیچ ہوئی۔ 
• پانی پت کی دوسری جنگ شہنشاہ اکبر اور ہیمو کےبیچ ۱۵۵۶ء میں ہوئی۔ 
پانی پت کی تیسری جنگ احمد شاہ ابدالی اور سردار سدا شیو بھاؤ مراٹھا کے درمیان۱۷۶۱ء میں لڑی گئی۔ 
 یہاں کی خاص بات یہ بھی ہے کہ عالمی شہرت یافتہ شاعر مولانا حالی بھی پانی پت میں پیدا ہوئےتھے۔ اب یہاں کے چند مشہور مقامات کی تفصیل پیش ہےجنہیں دیکھنے دور دور سے سیاح آتے ہیں۔ 
بو علی شاہ قلندر کی درگاہ:بو علی شاہ قلندر کی درگاہ پانی پت کے پرکشش مقامات میں سےایک ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تاریخی درگاہ ۷۰۰؍ سال سے زیادہ پرانی ہے۔ بو علی شاہ قلندر کی درگاہ کو علاءالدین خلجی کے بیٹے قلندر خضر خان کی درگاہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بو علی شاہ قلندر کی درگاہ کی زیارت کیلئے دور دور سے سیاح آتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بو علی شاہ قلندر۱۱۹۰ءمیں پیدا ہوئے۔ 
کابلی باغ مسجد:کابلی باغ مسجد، پانی پت میں دیکھنے لائق اہم مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد بابر نے ۱۵۵۷ءمیں بنوائی تھی۔ کابلی باغ ایک باغ ہے اور اس باغ میں واقع یہ مسجد بابر کی بیوی کابلی بیگم کے نام پر بنوائی گئی تھی۔ یہ مسجد تاریخی نقطہ نظر سے قابل دیدہے، کابلی باغ مسجد میں دور دور سے آنے والے سیاحوں کی بڑی تعداد نظر آتی ہے۔ 
سالار گنج گیٹ: پانی پت میں دیکھنے لائق مقامات میں سے ایک پانی پت کا سالار گنج گیٹ ہے۔ یہ پانی پت میں واقع ایک بہت قدیم دروازہ ہےجو اپنے تاریخی وجود کی وجہ سے بہت مشہورہے۔ پانی پت کا سالار گنج گیٹ پانی پت کے عین وسط میں واقع ہے۔ یہ دروازہ پانی پت کی تاریخ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ 
پانی پت میوزیم :’پانی پت میوزیم‘پانی پت میں دیکھنے کے لیے اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ ایک تاریخی میوزیم ہے جس میں پانی پت کی تاریخ میں ہونے والی تمام جنگوں کی تفصیلات اور بڑی تصاویر آویزاں ہیں۔ اس میوزیم میں آپ کو کئی بادشاہوں اور بہادرجنگجوؤں کی تصویریں دیکھنے کو ملیں گی۔ یہ تاریخی مقام سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہاں بہت سے ہتھیاروں کی تصویریں بھی ہیں جو آپ کو پانی پت کی تاریخ سے واقف کرواتی ہیں۔ 
 ابراہیم لودھی کا مقبرہ :پانی پت میں دیکھنے لائق مقامات میں ابراہیم لودھی کا مقبرہ بھی شامل ہےجو عظیم حکمراں صوفی بزرگ بو علی شاہ قلندر کی درگاہ کے قریب واقع ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ جگہ دیکھنے کے قابل ہے۔ ابراہیم لودھی سلطنت دہلی کے سلطان تھے جو پانی پت کی پہلی جنگ میں بابر کے ہاتھوں مارے گئےتھے۔ ابراہیم لودھی کا یہ مقبرہ تاریخی نقطہ نظر سے دیکھنے کے لائق ہے جو ہندوستان کے ایک عظیم سلطان کا مقبرہ ہے۔ 
کیسے جائیں :پانی پت جانے کیلئے ریل کا راستہ آسان ہے۔ پانی پت ریلوے اسٹیشن ملک کے بیشتر حصوں سے منسلک نہیں ہے لیکن آپ دہلی سےیہاں کا سفر آسانی سے کرسکتے ہیں۔ ملک کے کسی بھی کونے سے آپ دہلی جا سکتے ہیں اور پھر وہاں سے پانی پت کے لیے براہ راست ٹرین کی سہولت حاصل کر سکتےہیں۔ دہلی سے پانی پت تک ٹرینیں ہر روز مناسب وقت پر دستیاب ہوتی ہیں۔ ہریانہ کا پانی پت شہر سڑک کے ذریعے اچھی طرح سے جڑا ہوا ہے۔ آپ آسانی سے بس کے ذریعے پانی پت پہنچ جائیں گے۔ ان کے علاوہ آپ مقامی ذرائع جیسے ٹیکسی کیب وغیرہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK