’’تندرستی ہزار نعمت ہے۔ ‘‘ یہ کہاوت پہلے محض کہاوت تھی لیکن اس میں ایک مصرعے کا اضافہ کر کے سالکؔ نے اسے ایک مکمل شعر بنا دیا ہے۔
EPAPER
Updated: May 26, 2024, 12:09 PM IST | Ibrahim Jalis | Mumbai
’’تندرستی ہزار نعمت ہے۔ ‘‘ یہ کہاوت پہلے محض کہاوت تھی لیکن اس میں ایک مصرعے کا اضافہ کر کے سالکؔ نے اسے ایک مکمل شعر بنا دیا ہے۔
’’تندرستی ہزار نعمت ہے۔ ‘‘ یہ کہاوت پہلے محض کہاوت تھی لیکن اس میں ایک مصرعے کا اضافہ کر کے سالکؔ نے اسے ایک مکمل شعر بنا دیا ہے۔
تنگدستی اگر نہ ہو سالکؔ =تندرستی ہزار نعمت ہے
گویا پرانے زمانے کے لوگوں میں یہ خیال عام تھا کہ؛
تنگدستی بھی ہو اگر سالکؔ =تندرستی ہزار نعمت ہے
لیکن سالک نے اپنے ذاتی تجربے اور دوسرے غریب مگر تنگ دست لوگوں کی حالت زار کا مشاہدہ کرکے یہ فیصلہ دیا کہ؛
’’تندرستی تو ہزار نعمت ہے بشرطیکہ تندرست آدمی تنگدست نہ ہو۔ ‘‘
آدمی تندرست ہونے کے علاوہ تنگ دست بھی ہو تو وہ زیادہ عرصے تک تندرست نہیں رہ سکتا۔ تنگ دستی کے باعث وہ خالص گھی اور خالص دودھ نہیں خرید سکتا، ایسی قیمتی غذائیں نہیں کھا سکتا جن میں وٹامن اور غذائیت کے دیگر ضروری اجزا ہوں ۔ تنگ دستی کے باعث روٹی کے بعد فروٹ نہیں کھا سکتا۔ جب فروٹ نہیں کھا سکتا تو خون بھی نہیں بنتا۔ جب خون نہیں بنتا تو تندرست کیسے رہ سکتا ہے۔ تندرست آدمی کو بھوک بہت لگتی ہے۔ ایک تندرست آدمی بیک وقت دو آدمیوں کی غذا کھا سکتاہے لیکن تنگ دستی کے باعث وہ ایک آدمی کی بھی پیٹ بھرغذا نہیں کھاسکتا تو دُبلا ہونے لگتا ہے۔ ہڈے موترے نکالنے لگتا ہے۔ تنگ دست آدمی کو چوبیس گھنٹے روپے اور روٹی کی فکر لگی رہتی ہے یا لگا رہتا ہے۔ فکر مذکر ہے یا مونٔث؟ فکر کو بعض لوگ مذکر کہتے ہیں اور بعض لوگ مونث۔ لیکن میری رائے میں اگر فکر زیادہ ہو تو ’’فکر‘‘ مذکر ہے یعنی آدمی کو فکر لگا رہتاہے مگر اگر فکر کم ہے تو مونث ہے یعنی آدمی کو فکر لگی رہتی ہے۔ خیر بہرحال اگر آدمی کو پیٹ بھر روٹی بھی ملتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ فکر لگی ہوئی یا لگا ہوا ہے تو آدمی اسی طرح دبلا ہونے لگتا ہے جس طرح سائیکل کے ٹیوب یا فٹ بال کے بلیڈر میں بڑا ننّھا سا پنکچر ہوجائے اور آہستہ آہستہ ہوانکلنے لگے۔ تندرست آدمی فکرمند اور تنگدست ہوجائے تو دیکھے ہی دیکھتے اس کا گوشت اندر اور ہڈیاں باہر نکل آتی ہیں اور لوگ باگ مذاق اڑاتے ہیں۔
وہ دیکھو مچھّر پہلوان =وہ دیکھو پّدی پہلوان
میرا ذاتی تجربہ تو کہتا ہے کہ تندرستی نہ ورزش میں ہے نہ آب وہوا میں، تندرستی اگر ہے تو صرف پیسے میں ہے۔ صرف پیسہ ہو تو آدمی اب وہوا خرید سکتاہے یعنی کراچی کو چھوڑکر راولپنڈی میں آباد ہوسکتاہے، سوئٹزر لینڈ میں رہ سکتا ہے۔ بھینس خرید سکتا ہے، خالص دودھ پی سکتا ہے، خالص گھی کھاسکتا ہے، مرغی کا سوپ پی سکتاہے۔ شوربہ پی سکتا ہے۔ ، انڈے کھا سکتاہے، ہار لکس اور ا وولٹین پی سکتا ہے جب چاہے وٹامن کی گولیاں پھانک سکتا ہے، روٹی کے بعد فروٹ کھا سکتا ہے۔ بیمار ہو تو فوراً علاج کرواکر فوراً تندرست ہوسکتاہے، اِسی لئے تو سالکؔ نے کہا:
تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ =تندرستی ہزار نعمت ہے