Inquilab Logo

’’پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!‘‘

Updated: November 04, 2023, 1:26 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

خود کرنے کے کام اور حکومت سے کروانے کے کام، ان کی ایک طویل فہرست ملک کے مسلمانوں کے سامنے ہے مگر نہ تو خود کرنے والے کام ہوپاتے ہیں نہ ہی حکومت سے کروانے والے کام۔ یہ جمود کبھی تو ٹوٹے۔

Muslims protesting. Photo: INN
مسلمان احتجاج کرتے ہوئے ۔تصویر:آئی این این

فیض  جب اپنی شاندار نظم ’’تنہائی‘‘ میں  یہ کہتے ہیں  کہ: 
پھر کوئی آیا دل زار! نہیں  کوئی نہیں 
راہ رو ہوگا کہیں  اور چلا جائیگا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں  کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں  میں  خوابیدہ چراغ
سوگئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزر
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں  کے سراغ
گل کرو شمعیں ، بڑھا دو مئے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں  کو مقفل کرلو
اب یہاں  کوئی نہیں ، کوئی نہیں  آئیگا
تو وہ (فیضؔ) احساس تنہائی کو بیان کررہے ہوتے ہیں ۔ اس میں  بظاہر مایوسی کی کیفیت ہے مگر مایوسی نہیں  ہے۔ شاعر مایوس ہو بھی نہیں  سکتا۔ وہ جانتا ہے کہ رات جب مکمل طور پر ڈھل چکی ہوگی تو طلوعِ آفتاب کا نگاہوں  کو خیرہ کرنے والا منظر ہر خاص و عام کیلئے ہوگا۔ یہی قانون قدرت ہے۔ حالات کبھی ایک سے نہیں  رہتے۔ تغیرات ان کا مقدر ہیں ۔ ہماری تعلیمات میں  عُسر اوریُسر  کا فلسفہ موجود ہے جس میں  رتی برابر فرق آیا نہ کبھی آئیگا۔ عُسر کہتے ہیں  تنگی اور بدحالی کو، یُسر کہتے ہیں  فراخی اور خوش حالی کو۔ ارتضیٰ نشاط نے کہا تھا:
مرے اللہ نے ہر عُسر کو اک یُسر بخشا ہے
برس جاتے ہیں  جب بادل دھنک لہرانے لگتی ہے
کیا تغیر کے ناگزیر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کچھ نہ کرے اور اپنی ساری توانائی اور وسائل حالات کے بدلنے کے انتظار میں  صرف کردے؟ جی نہیں ۔ قانون قدرت کے مطابق تو یقینی ہوتے ہیں   مگر انسان کے سامنے یہ آزمائش رکھی گئی ہے کہ وہ مثبت تبدیلیوں  کیلئے جاں  سوزی کے ساتھ جدوجہد کرتا ہے یا نہیں ۔ اسی جدوجہد پر فیصلوں  کا انحصار ہوتا ہے۔ جدوجہد مخلصانہ اور تیز تر ہوئی تو مشیت بدل جاتی ہے اور حالات مزید خرابی کی طرف مائل ہونے سے بچ جاتے ہیں ۔ حالات کا پہیہ مخالف سمت میں  گھوم جاتاہے۔ جہاں  تک ہندوستانی مسلمانوں  کا تعلق ہے اُنہوں  نے نہ تو عُسر میں  یُسر  تلاش کرنے کی کوشش کی نہ ہی وقت اور حالات کے پہیے کو مخالف سمت میں  گھمانے کی۔ طویل عرصے سے جاری اس طرزِ عمل کا نتیجہ خوفزدہ کرنے والا ہے۔ ایسے میں  مسلمانوں  کے پاس شکایتوں  کا دفتر تو ہے مگر جاں  سوزی کے ساتھ مثبت جدوجہد کی جامع منصوبہ بندی نہیں  ہے۔جس قسم کے برگشتہ حالات سے انہیں  گزرنا پڑا اور ہنوز گزرنا پڑ رہا ہے اگر اُن میں  تھوڑی بہت موافق و دل پسند تبدیلی رونما ہوجائے تو جتنا سوچ بچار موجودہ برگشتہ حالات میں  ہورہا ہے اُتنا بھی باقی نہیں  رہے گا۔ عُسر میں  یُسر  کی تلاش ایسے ناپختہ یا نیم پختہ ارادوں  سے نہیں  کی جاتی۔ ایسا نہیں  کہ ابابیلوں  کا انتظار کرنے والوں  کو علم نہیں  ہے کہ ابابیلیں  کب آتی ہیں ۔ وہ جانتے ہیں  کہ آغاز ِ انتظار سے ابابیلوں  کے آنے تک یعنی عُسر سے یُسر تک مختصر، طویل یا طویل تر مسافت ہے جس کا پُرجوش اور تعمیری نقطۂ نظر سے طے کیا جانا شرط ہے۔ یہ شرط پوری کئے بغیر ابابیلیں  کیسے آسکتی ہیں ؟ اگر آبھی گئیں  تو اِس سوال کا جواب کہاں  سے آئیگا کہ اس میں  آپ کا کیا حصہ ہے؟ ا س کیلئے آپ نے کیا کیا ہے؟ 
 گزشتہ چند برسوں  کے دوران کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جو ایک طرف حالات کی افسوسناک برگشتگی اور دوسری طرف ملک کے مسلمانوں  کی بے بسی کا آئینہ تھے۔ ان حالات میں  بہت سوں  کو فکرمند، انتشار ِذہنی میں  مبتلا اور مایوسی کے قریب جاتا ہوا دیکھا گیا۔ ایسا تب ہوتا ہے جب فلسفہ ٔ عُسر و یُسر  پر برائے نام یقین رہ جاتا ہے اور انسان اس کا درمیانی فاصلہ طے کرنے کی مخلصانہ جدوجہد سے باز رہتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر بے توفیقی، توفیق میں  نہیں  بدلتی۔ یہی بے توفیقی خرابیٔ حالات کو اَدبار، انحطاط اور زوال کی طرف لے جاتی ہے۔ اَدبار، انحطاط اور زوال کیا ہے اس سے ایک جہان واقف ہے مگر کم ہی لوگ جانتے ہیں  کہ زوال نہ تو اچانک آتا ہے نہ ہی کسی ایک جانب سے وارد ہوتا ہے۔ زوال مختلف محاذوں  پر بے توفیقی اور بے عملی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس کے محرکات ایک دوسرے کو اِس طرح مہمیز کرتے ہیں  کہ تعلیمی پسماندگی سماجی پسماندگی کے در پر اور یہ دونوں  معاشی پسماندگی کے در پر ڈیرا ڈال دیتی ہیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں  نے عُسر میں  یُسر  کی تلاش کے نام پر سیاسی جماعتوں  اور حکومتوں  پر انحصار اور اعتبار کیا۔ اس سے نہ تو کچھ حاصل ہوسکتا تھا نہ حاصل ہوا۔ ماضی کے اس تجربے سے کچھ سیکھنے کے بجائے آج بھی سیاسی جماعتوں  اور حکومتوں  سے لو َ لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی بہت ادنیٰ سی مثال یہ ہے کہ تقریباً ہر ریاست کی اُردو اکیڈمی غیر فعال ہے۔ اس کے خلاف شکایتیں  کی جاتی ہیں ، محضر نامے پیش کئے جاتے ہیں  اور آخر کار بددل ہوکر گھر بیٹھ جانے کا طریقہ اپنا لیا جاتا ہے مگر کوئی غیرت مند اہل اُردو یہ اعلان نہیں  کرتا کہ محترم صاحبان ِاقتدار، آپ کے تغافل کا بہت بہت شکریہ، ہم اہل اُردو خود ایک عدد شاندار اُردو اکیڈمی قائم کرلیں  گے جس کی کوشش ہوگی کہ سرکاری اُردو اکیڈمی سے بہتر اور غیر سیاسی کارکردگی کا مظاہرہ کرے، اس کے افتتاح کیلئے آپ کو مدعو کیا جائیگا، ضرور تشریف لائیے۔
 یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ اسے اور بھی کئی باتوں  پر منطبق کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں  کہ مسلمان بحیثیت شہری یا آبادی کے معتدبہ حصے کی حیثیت سے اپنے حق سے دستبردار ہوجائیں ۔ یہ تو ہرگز نہیں  ہونا چاہئے مگر جب ساری توانائی اپنا حق مانگنے پر صرف ہونے لگے اس کے باوجود خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوتے ہوں  تو کچھ تو کیا ہی جانا چاہئے۔ جو مشورہ بالائی سطور میں  دیا گیا ہے وہ نہ سہی، کوئی اور تجویز اور تدبیر سہی۔ کچھ کام خود کئے جاسکتے ہیں  اور کچھ حکومتوں  سے کروانے کے ہوتے ہیں ۔ اس مضمون نگار کی نظر میں  اگر اُردو اکیڈمی جیسا کوئی ادارہ بنالینا خود کیا جاسکنے والا کام ہے تو تعلیم اور ملازمتوں  میں  ریزرویشن مختلف ہے، اس کیلئے اہل اقتدار ہی پر انحصار کیا جائیگا جس کیلئے اپنی سیاسی طاقت کو منوانا ہوگا۔ اس میں  شک نہیں  کہ احتجاج اور مظاہروں  سے کئی کام بن جاتے ہیں  مگر یہ مضمون نگار اس کی حمایت نہیں  کرتا۔ اس کے نزدیک حکمت اور تدبر پیچیدہ سے پیچیدہ کاموں  کی کلید ہے  جسے ’’گمشدہ میراث‘‘ کہا گیا ہے، کیا اس میراث کو دوبارہ حاصل نہیں  کیا جاسکتا؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK