Inquilab Logo

’جملہ‘ سرکار اور ملک کے معاشی مسائل

Updated: October 09, 2023, 12:56 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

مودی حکومت جی ۔۲۰؍ کی تشہیر اور جملے بازی سے عوام کو بے وقوف بنا رہی ہے۔ وہ سنگین معاشی مسائل کو چھپانا چاہتی ہے جبکہ انڈیا اتحادی ایسے مسائل اور موضوعات کو زیر بحث لانا چاہتے ہیں جو عوام کی زندگیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

The Modi government has failed miserably in the three people-centric tests of unemployment, inflation and household savings.Photo:INN
مودی حکومت بے روزگاری، مہنگائی اور گھریلو بچت کے تین عوام مرکوز امتحانات میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔تصویر:آئی این این

اگر کوئی استاد اپنی جماعت کومبالغہ سمجھانے کیلئے کوئی اچھی مثال دینا چاہتا ہے تو وہ ریزرو بینک آف انڈیا کی ستمبر ۲۰۲۳ء کی رپورٹ سے یہ جملہ نقل کرسکتا ہے۔
 ’’ستمبر ۲۰۲۳ءمیں  ہندوستان عالمی مرکز بن گیا جب دنیا کے طاقتور ممالک کے لیڈران اور بین الاقوامی تنظیمیں  (جی ۔۲۰؍اجلاس کیلئے) دہلی میں  جمع ہوئے۔‘‘
 ریزرو بینک آف انڈیا کے مطابق،عالمی مرکز روم(۲۰۲۱ء) سے بالی (۲۰۲۲ء) پہنچا اور اس کے بعد ہندوستان (۲۰۲۳ء) آگیا جہاں  سے وہ ریو ڈی جنیرو (۲۰۲۴ء) روانہ ہوگا۔ نئی دہلی کے عالمی مرکز بننے سے ہمیں  کئی جھٹکے محسوس ہوئے۔ مثلاً منی پور میں  ۳؍ مئی ۲۰۲۳ءمیں کو شروع ہونے والا تشدد جو تا حال جاری ہے، کشمیر میں  دہشت گردانہ حملے،ہماچل پردیش اور دیگر ریاستوں  میں  زمین کھسکنے کے واقعات اور تباہی خیز سیلاب اور تمل ناڈو میں  بی جے پی کی اتحادی پارٹی آل انڈیا انا ڈی ایم کے پارٹی  کی این ڈی اے اتحاد سے علاحدگی۔
 عالمی مرکز کی تبدیلی کے نتیجہ میں  حکومت کی جانب سے مزید اعلانات کئے جائیں  گے اور ہمیں  غیرمتوقع واقعات دیکھنے ملیں  گے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ۲۰؍ اور ۲۱؍ ستمبر کو پیش آ چکا ہے۔ پارلیمنٹ میں  خواتین ریزرویشن جملہ بل پاس ہوا جس کا نفاذ ۲۰۲۹ء کے پارلیمانی انتخابات کے بعد ہوگا۔ خواتین ریزرویشن بل وزیراعظم کی طرف سے ایک تحفہ کی طرح پیش کیا جائے گا۔ (درحقیقت یہ بل ایک ایسے چیک کی طرح ہے جس کی تاریخ گزر چکی ہے اور بینک دیوالیہ ہوچکا ہے۔) اور ’’وشو گرو ہندوستان‘‘کے دعوے کی تشہیر کی جائے گی اورجی ۔۲۰؍ اجلاس کی تصاویر اور ویڈیوز ٹیلی کاسٹ کئے جائیں  گے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر وائرل کئے جائیں  گے۔
علاوہ ازیں ، `ایک ملک ایک انتخاب کا منصوبہ اور یکساں  سول کوڈ بھی محض جملے ہیں ۔ اول الذکر کیلئے رام ناتھ کووند کمیٹی اور لاء کمیشن جبکہ اخرالذکر کا کریڈٹ لینے کیلئے اتراکھنڈ، آسام اور مدھیہ پردیش میں  سخت مقابلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
 اسی طرح راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے `تبدیلی مذہب اور `لو جہاد کے بڑھتے واقعات پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔ انہوں  نے آر ایس ایس ممبران سے اس کا جارحانہ مقابلہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ آپ تیار ہو جائیے کیونکہ اب گرجا گھر، ان کے پادریوں ، مشنریوں  اور عیسائیوں  کی دعائیہ محفلوں  پر حملے ہوں  گے۔ بین مذہبی شادی کرنے والے نوجوان جوڑوں  کو اخلاقی اور مذہبی تنظیموں  سے خبردار ہو جانا چا ہئے جو `ہندو لڑکیوں  کے وقار کے تحفظ کیلئے ان پر جھپٹیں  گے۔ (مجھے حیرت ہوتی ہے کہ غیر ہندو لڑکیوں  کے ساتھ رہنے والے ہندو لڑکوں  کے وقار کی حفاظت کون کرے گا؟)
 تبدیلی مذہب اور لوجہاد کے بے بنیاد الزامات پر مجھے حیرت ہوتی ہے۔ آپ عیسائی مشنری کے زیر انتظام چلنے والے متعدد اسکولوں  اور کالجوں  میں  پڑھنے والے ہزاروں  بچوں  سے جا کر پوچھئے کہ کیا انہیں  کبھی زبردستی تبدیلی مذہب پر مجبور کیا گیا؟ آپ خود سے پوچھئےکہ پچھلے سال یا گزشتہ دو تین برسوں  میں  آپ کے علاقہ یا شہر میں  کتنی بین مذہبی شادیاں  ہوئی ہیں ؟ نارائن مورتھی نے کہا تھا، ’’میں  صرف خدا پر یقین رکھتا ہوں ۔ اس کے بعد ہر چیز کیلئے میں  اعدادوشمار پر اعتبار کرتا ہوں ۔‘‘ کیا آر ایس ایس بین مذہبی شادیوں  اور لوجہاد کے اعدادوشمار پیش کرسکتا ہے؟ اس جنگ میں  وزیراعظم نے بھی قدم رکھ دیا ہے۔ انہوں  نے بیان دیا کہ سناتن دھرم خطرہ میں  ہے۔ جبکہ موہن بھاگوت نے تبدیلی مذہب اور لوجہاد کے موضوعات آر ایس ایس کے اسلحہ خانہ سے نکالے ہیں ۔
 دوسری طرف’ `انڈیا‘ اتحادی ایسے مسائل اور موضوعات کو زیر بحث لانا چاہتے ہیں  جو عوام کی زندگیوں  پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ ان میں  مہنگائی، بے روزگاری، نسلی اور فرقہ وارانہ جھڑپیں ، نفرت انگیز بیان بازی اور جرائم، اظہار رائے اور شخصی آزادی پر پابندی، ریاستوں  کے حقوق کی پامالی، ملک کے وفاقی ڈھانچے اور دستور پر حملے، انصاف فراہم کرنے والی عدالتوں  کے اختیارات میں  کمی، سرحد پر چینی دراندازی، دہشت گردانہ کارروائیاں ، معاشی ترقی کی دھیمی رفتار، بڑھتی عدم مساوات، اقربا کو فائدہ پہنچانے والی سرمایہ داری، فلاحی اسکیموں  میں  کمی، ملک کے قرض میں  اضافہ، تفتیشی ایجنسیوں  کا غلط استعمال، پارلیمانی اصول و اداروں  کی تحقیر، بڑھتی مرکزیت اور شخصیت پرستی جیسے اہم موضوعات شامل ہیں ۔
 بی جے پی پیسہ کی طاقت اور قانون کا غلط استعمال کرکے اپوزیشن کے حملوں  کو بے اثر بنانا چاہتی ہے۔ اس وقت ملک کی معیشت مسائل سے جوجھ رہی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملک اور معیشت غلط ہاتھوں  میں  ہے۔ اگر حقائق پر نظر ڈالیں  تو معیشت کی اصل صورتحال سامنے آتی ہے۔
 اگست۲۰۲۳ءمیں  بے روزگاری کی شرح ۸ء۱؍ فیصد تھی۔ ۲۰۲۲ء میں  ۱۵۔۲۴؍ سال کے نوجوانوں  میں  شرح ۲۳ء۲۲؍ فیصد رہی۔ اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا کی ۲۰۲۳ء کی رپورٹ کے مطابق گریجویٹ نوجوانوں  میں  ۴۲؍ فیصد بے روزگار ہیں ۔ اگست ۲۰۲۳ء میں  ایک کروڑ ۹۱؍لاکھ ۶۰؍ ہزارخاندانوں  نے منریگا اسکیم کے تحت کام کرنے کیلئے درخواست دی جس سے ملک میں  پھیلی معاشی بدحالی کا پتہ چلتا ہے۔
 آر بی آئی کی اگست کی رپورٹ کے مطابق، صارفی قیمت اشاریہ کی مہنگائی ۶ء۸؍ فی صد، ایندھن اور بجلی کی مہنگائی ۴ء۳؍ فیصد اور خرد ہ اشیاء ۹ء۲؍ فیصد تھی۔ فروری ۲۰۲۲ءسے صارفی قیمت اشاریہ کی شرح مہنگائی، برداشت کی حد یعنی ۶؍ فیصد سے اوپر ہے۔
 معاشی سال  ۲۱۔۲۰۲۰ءمیں  گھریلو اثاثوں  کی مالیت جی ڈی پی کا ۱۵ء۴؍فیصد تھی جو۲۲۔۲۰۲۱ء میں  ۱۰ء۹؍ فی صد پر سمٹ گئی ہے۔ اسی عرصہ میں  گھریلو معاشی قرض ۳ء۹؍ سے بڑھ کر ۵ء۸؍ فیصد تک جا پہنچا ہے۔ معاشی اثاثوں  میں  بھی کمی ہوئی ہے جو ۱۱ء۵؍ سے ۵ء۱؍ فیصد ہوگئے۔ان اعدادوشمار سے صاف ظاہر ہے کہ مودی حکومت بے روزگاری، مہنگائی اور گھریلو بچت کے تین عوام مرکوز امتحانات میں  بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ اس لئے وہ مختلف شوشے چھوڑ کر عوام کو گمراہ کر رہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK