دونوں رپورٹوں میں الگ الگ نتائج اخذ کئے گئے ہیں لیکن بی جے پی کی ریاستی حکومت نے اسمبلی میں وہی رپورٹ پیش کی جو اس کے مزاج سے ہم آہنگ تھی۔
EPAPER
Updated: December 28, 2025, 12:15 PM IST | Raqeeb ul Zaman | Mumbai
دونوں رپورٹوں میں الگ الگ نتائج اخذ کئے گئے ہیں لیکن بی جے پی کی ریاستی حکومت نے اسمبلی میں وہی رپورٹ پیش کی جو اس کے مزاج سے ہم آہنگ تھی۔
گزشتہ ماہ آسام اسمبلی میں نیلی قتل عام پر جو ہندوستان میں آزادی کے بعد سب سے بڑے قتل عام تھا، ۲؍ رپورٹیں پیش کی گئیں۔ دونوں رپورٹوں میں الگ الگ نتائج اخذ کئے گئے ہیں۔ تیواری کمیشن جسے کانگریس کی ریاستی حکومت نے قائم کیا تھا، کا کہنا ہے کہ آسام میں غیر ملکیوں کے خلاف تحریک کے عین عروج پر ہونے کے دوران ہی اسمبلی انتخابات کا انعقاد کروانے کا اندرا گاندھی حکومت کا فیصلہ ۱۹۸۳ء کے اس قتل عام کی وجہ سے نہیں تھا۔ یاد رہے کہ فروری ۱۹۸۳ء میں آسام کے موریگاؤں ضلع میں صدر راج کے دوران اسمبلی انتخابات کے کچھ ہی دن بعد ہونے والے اس قتل عام میں ۱۸۰۰؍ بنگالی مسلمانوں کو مار دیا گیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ ۴۲؍ سال گزر جانے کے باوجود آج تک کسی کو اس قتل عام کی سزا نہیں ملی۔
دوسرا کمیشن مکتی جوجارو سمیلن اور آسام تحریک کی قیادت کرنے والی اُن تنظیموں نے قائم کیا تھا جنہوں نے نام نہاد غیر قانونی تارکین وطن(بنگالی مسلمانوں ) کے خلاف بھیڑ کو اُکسایا تھا۔ جسٹس (سبکدوش) ٹی یو مہتا کمیشن نے نتیجہ اخذ کیا کہ تشدد کی وجہ عوام کی مرضی کے خلاف کروائے انتخابات تھے۔ ہیمنت بسوا شرما حکومت نے اُس وقت کی ریاستی حکومت کے قائم کردہ تیواری کمیشن کی رپورٹ کے بجائے ’’غیر سرکاری‘‘ مہتا کمیشن کی رپورٹ کو گزشتہ دنوں اسمبلی میں پیش کیا۔ اس نے الیکشن سے قبل ’’غیر ملکی تارکین وطن‘‘ کے خلاف عوام کی برہمی کے بیانیہ کو ایک بار پھر ہوا دیدی ہے لیکن جاپانی محقق مکیکو کیمورا نے نشاندہی کی ہے دونوں رپورٹیں میں مرنے والوں کیلئے انصاف کے سوال کو نظرانداز کیاگیا ہے۔
کیمورا نے۲۰۱۳ء میں ’’دی نیلی میسکر آف ۱۹۸۳ء : ایجنسی آف رائٹرز‘‘ (۱۹۸۳ء کانیلی قتل عام: فسادیوں کی ایجنسی) لکھی، جو اس قتل عام پر ہونےوالے چند اہم تحقیقی کاموں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب میں فسادات کی وجوہات، حملہ آوروں کی اس میں شمولیت، آسام اسٹوڈنٹس یونین جیسی تنظیموں اور حکومت کے رول کا تجزیہ کیاگیاہے۔ زیر نظر انٹرویو میں کیمورا نے دونوں کمیشنوں کے پیچھے کے محرکات اور اس امر پر گفتگو کی ہےکہ جب دہائیوں تک انصاف نہ ملے تو متاثرہ سماج میں کیا تبدیلی آتی ہے۔ ذیل میں اس گفتگو کوملاحظہ کریں :
اتنے برسوں بعد ۱۹۸۳ء کے نیلی قتل عام کے تعلق سے ابھی حال ہی میں ۲؍ رپورٹیں پیش کرنے کے آسام حکومت کے اس فیصلے پر آپ کیا کہیں گے؟
مجھے نہیں معلوم کہ حکومت نے اس رپورٹ کو اب کیوں عام کرنے کافیصلہ کیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس کا مقصد وہی ہو جو لوگ کہہ رہے ہیں، یعنی یہ دیگر معاملات سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہو۔
دونوں کمیشنوں کی رپورٹ میں بنیادی فرق کیا ہے؟ مسلم کسانوں کے خلاف تشدد پر یہ کیا کہتی ہیں ؟ کیا ان میں اس قتل عام کیلئے کسی کو ذمہ دارٹھہرایاگیاہے؟
جیسا کہ میں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے، دونوں کمیشن شروع سے ہی اُن اداروں یا تنظیموں کے مفادات کی نمائندگی کر رہے تھے جنہوں نے انہیں قائم کیا تھا۔ تیواری کمیشن ہو یا مہتا کمیشن دونوں میں حملہ آوروں کی شناخت اور ان کے کردار پر تفصیل سے روشنی نہیں ڈالی گئی۔ آسام اسٹوڈنٹس یونین یا آل آسام گن سنگرام پریشد کے لیڈروں کے رول کے تعلق سے میڈیا رپورٹس اور جریدوں میں فراہم کی گئی تفصیلات کے علاوہ کچھ نہیں بتایاگیا۔ یہ کمیشن شروع سے ہی مخصوص گروہوں کیلئے جانبداری کا مظاہرہ کررہے تھے۔ ان کی رپورٹس یا تو مرکزی حکومت کے مؤقف یا آسام تحریک کے مؤقف کو پیش کرنے کیلئے استعمال ہوئیں۔
تشدد کی وجوہات کے حوالے سے تیواری کمیشن کا نتیجہ انتہائی مبہم ہے۔ اس میں حکومت پر تنقید سے گریز کیا گیا ہے۔ یہ طلبہ تحریک کے لیڈروں پر تنقید کرتی ہے مگر بہت نرم انداز میں۔ کمیشن نے صرف نچلی سطح کے مقامی پولیس اہلکاروں کو غفلت کا ذمہ دار قرار دیا اور بس۔ غیر موزوں حالات میں انتخابات کرانے کے حکومت کے فیصلے کو کسی سطح پر نہیں چھیڑا گیا۔ تیواری کمیشن نہ ضروری اقدامات کی بات کرتا ہے نہ ہی متاثرین کو معاوضہ یا انصاف دینے کے حوالے سے کچھ کہا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ حکومت نے بھی اس موضوع پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔
مہتا کمیشن رپورٹ بھی آسام تحریک کے لیڈروں کے رول پر خاموش ہے۔ وہ یقینی طور پر جانتے تھے کہ اگر وہ انتخابات کے بائیکاٹ کو جاری رکھیں گے تو خونریزی ہوگی، کیونکہ مقامی پولیس تحریک کے پروپیگنڈے سے متاثر تھی کہ ’’غیر ملکیوں ‘‘ کو آسام سے نکالنا ضروری ہے۔
یہ افسوسناک ہے کہ آج تک نیلی قتل عام پر کوئی غیر جانبدار اور آزادا نہ تفتیش نہیں ہوئی جیسے ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں پیپلز یونین فار سو ِل لبرٹیز( پی یو سی ایل) اور پیپلز یونین فار ڈیموکریٹک رائٹس ( پی یو ڈی آر) کرتی ہیں۔
آپ نیلی قتل عام کے متاثرین سے ملتی رہیں، کچھ اپنے تجربات بتائیں، متاثرین کے تعلق سے آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟
میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ حملے کے بعد بھی زیادہ تر لوگ ان ہی دیہاتوں میں مقیم رہے جہاں حملہ ہوا تھا۔ گاؤں کے ہر گھر نے کسی نہ کسی کو کھویا تھا۔ سراج الدین جن کا ذکر میں نے اپنی کتاب میں کیا ہے اور جنہوں نے سباسری کرشنن کی دستاویزی فلم میں تفصیل بیان کی ہے، نے بتایا کہ ان کی چار بیٹیوں کاقتل ہوا تھا۔ ایسا نہیں کہ یہ صرف ان کے ساتھ ہوا۔ کئی خاندانوں نے کہا کہ انہوں نے۱۰-۲۰؍ رشتہ دار کھوئے۔ اور وہ آج بھی انہی تلخ اور خوفناک یادوں کے ساتھ جی رہے ہیں۔ میں آخری بار۱۸؍ فروری ۲۰۲۳ء کو وہاں گئی تھی۔ ہر سال وہاں قتل عام کے یاد میں پروگرام ہوتا تھالیکن اُس سال یہ پروگرام بہت ہی مختصر تھا۔ میں نے سنا کہ منتظمین ڈر رہے تھے کہ کہیں انہیں اس کے نتائج نہ بھگتنے پڑیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔
تیواری کمیشن نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ۱۹۸۳ء کا یہ تشدد فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں تھا حالانکہ میں اس میں ۲؍ ہزار سے زائد مسلمان مارے گئے تھے۔ آپ اس نتیجے کو کیسے دیکھتی ہیں ؟
حال ہی میں ’دی پرنٹ‘ میں شائع ہونےوالے ایک مضمون کے مطابق کمیشن کا کہنا ہے کہ ’’اس واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دینا پوری طرح غیر ضروری ہے کیوں کہ پاگل پن پر مبنی اس تشدد سے سماج کے تمام طبقات متاثر ہوئے۔ ‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ تشدد کی کئی وارداتیں ہوئیں اور نہ حملہ آوروں کے گروپ طے تھے نہ متاثرین کے تاہم یہ بھی حقیقت یہ ہے کہ ا س میں سب سے زیادہ نشانہ مسلمانوں کو بنایاگیا۔ آسام میں نیلی جیسی اور کوئی واقعہ کبھی نہیں ہوا۔ یہ بھی صاف ہے کہ آسام پولیس نے نیلی علاقے میں ممکنہ حملے کی وارننگ کو نظرانداز کیا کیونکہ ان کی ہمدردیاں نام نہاددراندازوں کے خلاف چھیڑی گئی تحریک کے ساتھ تھیں۔
آپ کی نظر میں ۱۹۸۳ء کے تشدد کی وجہ کیا تھی ؟ اور اس میں حکومت اور آسام تحریک کے لیڈروں کا کردار کیا تھا؟
جیسا کہ میں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے، سب سے بڑا ناکامی مرکزی حکومت کی تھی جو صورتحال کو سنبھال نہیں سکی۔ اس کے علاوہ بڑی حد تک آسام اسٹوڈنٹس یونین بھی ذمہ دار ہے۔ اسمبلی انتخابات کانگریس اور آسام اسٹوڈنٹس یونین کے درمیان طاقت کی رسہ کشی کا ذریعہ بن گئے تھے اور صورتحال کو سنبھالنے کے بجائے سیاسی فائدے کیلئے استعمال کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تشدد روکنے کی بجائے مرکزی حکومت اور آسام اسٹوڈنٹس یونین نے ایسی فضا پیدا کی جہاں خوف اور نفرت بڑھتی گئی۔