Inquilab Logo

ء۲۰۲۲ مسلمانوں نے کیا کھویا، کیا پایا

Updated: January 05, 2023, 9:56 AM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ستانے میں یوپی بازی لے گیا۔ اس کےوزیراعلیٰ یوگی نے فوری انصاف اور سزادینے کی ایک نئی روایت قائم کی جس میں عدالتی فیصلے کا انتظار اور نوٹس دیئے بغیر ملزمین کے مکانات اور عمارتوں کو غیر قانونی بتاکر زمین دوز کردیاجاتا ہے۔

UP went on a rampage in harassing and persecuting Muslims. His prime minister Yogi established a new tradition of swift justice and punishment
مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ستانے میں یوپی بازی لے گیا۔ اس کےوزیراعلیٰ یوگی نے فوری انصاف اور سزادینے کی ایک نئی روایت قائم کی

 سنیچرکورخصت ہونے والا سال وطن عزیز کے لئے ہمیشہ کی طرح جہاں امیدوبیم کی ملی جلی کیفیت کا رہا، وہیں بین الاقوامی سطح پر ایک نئی جنگ کا سبب بنا۔ ۲۴؍ فروری کو روسی صدر وِلادیمیر پوتن نے اپنے غاصبانہ عزائم کی تکمیل کے لئے مشرق اور شمال مشرق سرحدوں سے ملے پُرامن جمہوری ملک یوکرین پر حملہ کردیا جس میں دونوں طرف کے ہزاروں لوگ مارے گئے، آٹھ لاکھ سے زیادہ یوکرینی باشندے بے گھر ہوگئے اور اتنی ہی بڑی تعداد میں لوگوں نے فرار ہوکر پڑوسی ملکوں میں پناہ لی۔ اس تھوپی جانے والی جنگ سے روس کی بدنامی ہوئی ۔ وہ الگ تھلگ پڑگیا جبکہ یوکرینی صدر زیلنسکی ہیروبن کر ابھرے اورکئی یورپی ممالک اوران کے لیڈروں نے ان کے لئے نوبیل امن انعام کی سفارش کی۔ سیاسی ومعاشی مفادات کے پیش نظر ہندوستان نے روس کی مذمت کرنے کے بجائے خاموشی اختیارکی اور تاخیر کے بعد دونوں ممالک سے جنگ بندی اورامن کی اپیل کی۔رو س نے بمباری کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے یوکرین سمیت تمام فریقین سے گفتگو کے لئے رضامندی کا اظہار کیا اور شکایت کی کہ یوکرین کے مغربی حلیف ایسا نہیں چاہتے ہیں جبکہ یوکرین نے اسے غاصبانہ عزائم پر پردہ ڈالنےکی روسی چال بتایا۔ وجہ جو بھی ہو، دونوں ملکوں کو اس کا شدید احساس ہے کہ جنگ کو مزید طول دینا دونوں کے لئے تباہ کن ہوگا۔ 
 قومی سطح پر گزرا ہوا سال ، مودی دَور کے دوسرے سالوںکی طرح مذہبی عصبیت ومنافرت کا شکار رہا ۔ گجرات کی دیکھا دیکھی اب کئی بی جے پی ریاستیں ہندوتوا کی لیباریٹری بننے کی دوڑ میں شامل ہوگئی ہیں جن میں یوپی سرفہرست ہے اور کرناٹک اور مدھیہ پردیش دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ کرناٹک میں سال کی  شروعات ہی غلط ہوئی جب اڈپی ضلع کے ایک پری ڈگری کالج نے یونیفارم کے ساتھ باحجاب مسلم طالبات کے داخلے کو ممنوع قراردیا۔ ریاستی حکومت نے ایک سرکلر کے ذریعے اس کی توثیق کی تو کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کواسلام کا لازمی جز نہ بتاتے ہوئے اس کی پابندی پر تصدیق کی مہر ثبت کردی۔ اس کے بعد حلال اشیا ء کے بائیکاٹ اور تہواروں کے موقع پر مندروں میں مسلم دکانداروں پر پابندی لگانے کا شوشہ چھوڑا گیا۔ مدھیہ پردیش کے کھرگون میں رام نومی اور دہلی میں ہنومان جینتی کے موقعوں پر نکالے جانے والے جلوس تشدد کا شکار ہو گئے جبکہ مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ستانے میں یوپی بازی لے گیا۔ اس کےوزیراعلیٰ یوگی نے فوری انصاف اور سزادینے کی ایک نئی روایت قائم کی جس میں عدالتی فیصلے کا انتظار اور نوٹس دیئے بغیر ملزمین کے مکانات اور عمارتوں کو غیر قانونی بتاکر زمین دوز کردیاجاتا ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کی گاج اکثر وبیشتر مسلمانوں پر گرتی ہے۔ حیرت اس پر ہے کہ کسی بھی عدالت نے اس دھاندلی کا از خود نوٹس لے کر اس پر پابندی لگانے کی کوشش نہیں کی۔ یہی نہیں، سپریم کورٹ نے قانون کے تحت کی جانے والی انہدامی کارروائیوں کی تائید کرکے دیگر ریاستوں کوبھی اس کی کھلی چھوٹ دیدی جس کا اثر ایم پی، راجستھان اور دہلی کے جہانگیر پوری میں دیکھا گیا۔ سوال یہ ہے کہ میونسپل حکام کے ہوتے ہوئے غیرقانونی تعمیرات کیسے وجود میں آجاتی ہیں اوراس کی ضرب ، صرف مسلمانوں پر کیوں پڑتی ہے؟
 یوں تو مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی مسلمانوں کے حالات بد سے بدتر ہونا شروع ہوگئے تھے لیکن گزشتہ سال اس میں جوشدت آئی اس کی نظیرنہیں ملتی ہے۔ حکام اور قانون کا نفاذ کرنےو الوں کی ملی بھگت اور یکطرفہ کارروائی سے شرپسندوں کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ پہلے جو باتیں سرگوشیوں میں ہوتی تھیں، اب کھلےعام کی جارہی ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر نفرت کی سیاست اوراس پر حکام کی خاموشی ملک کو کہاں لے جائے گی، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
  فوری انصاف اورسزا کی ایک مثال مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ کے اس بیان سے ملتی ہے کہ جو ہمارے جلوسوں پرپتھر پھینکے گا، ہم ان کے گھروں کو پتھر کا ڈھیر بنادیں گے۔ دہشت گردی کی ملزمہ اور رکن پارلیمنٹ سادھوی پرگیہ کا لوجہادیوں کے خلاف ہندوؤں کو اپنے ہتھیاروں کی دھار تیز رکھنے کی تاکیدبھی اسی زمرے میں آتی ہے۔
 بی جے پی کی سابق ترجمان نپور شرما نے جس اہانت کا ارتکاب کیا اُس کا مقصد مسلمانوں کو طیش دلانا تھا۔ ایک وکیل ہونے کی حیثیت سے اسے اس کا احساس ہونا چاہئے تھا کہ وہ جو کہنے جارہی تھی ، آئین وقانون اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اس پر بھی اگر اس نے یہ سوچ کر گستاخانہ بیان دیا کہ کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گاتو وہ غلط نہیں تھی ۔ مسلمانوں کے احتجاج اور مختلف شہروں میں ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود پولیس نے اسےاب تک گرفتارنہیں کیا ۔ اگر خلیجی ممالک اس کے بیان پر کڑے تیور نہ دکھاتے تو پارٹی سے اس کی معطلی بھی نہیں ہوتی۔ نپورشرما کے بیان پر مسلمان کا طیش میں آنا فطری تھا لیکن بیان کی حمایت کی پاداش میں ان کے ہاتھوں ایک ٹیلر اور ڈاکٹر کے قتل کی اجازت کوئی قانون یا مہذب معاشرہ نہیں دیتا۔ مسلم تنظیموں اور علماء کرام نے اس بہیمانہ حرکت کی جس طرح مذمت کی، اسے غیرانسانی  اور غیراسلامی بتایا، اس کا خیر مقدم کیا جاناچاہئے۔ 
 ۲۰۲۲ء کی تکلیف دہ خبر بلقیس بانو کیس کے عمر قید بھگتنے والے ۱۱؍ زانیوں اور قاتلوں کی رہائی تھی۔لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ منظر وہ تھا جب رہائی پر ان کا ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا،انہیں سنسکاری برہمن بتایا گیا اورپھول مالا پہنائی گئی۔ کہتے ہیں کہ یہ رہائی وزیر داخلہ امیت شاہ کے حکم پر عمل میں آئی۔ چند ذمہ دار اورانصاف پسند خواتین اور خود بلقیس نے رہائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ فیصلہ جو بھی ہو، حیرت کی بات یہ ہے کہ مودی حکومت اب زانیوں اور قاتلوں کی سرپرستی پر بھی اترآئی ہے ہمارا اس ـضمن میں اُس سے ایک ہی سوال ہے کہ جو کچھ بلقیس یا اس کے خاندان والوں کے ساتھ ہوا اگر وہ حکومت کے ذمہ داروں اور ان کے خاندان والوں کے ساتھ ہوتا تو ؟ 
  ان حالات میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ۲۰۲۲ء میں مسلمانوں کے لئے کھونے کے لئے بہت کچھ لیکن پانے جیسا کچھ نہ تھاحتیٰ کہ مارچ میں کووڈ اور لاک ڈاؤن سے ملی نجات بھی عارضی ثابت ہوئی۔ سال کے آخری دنوں میں خبر آئی کہ کووڈ نے ایک بار پھر چین سے ہوتے ہوئے عالمی سطح پر دستک دینا شروع کردیاہے۔n

muslims Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK