Inquilab Logo

مسلمانوں کو ہر سطح پر احساس کمتری میں مبتلا رکھنے کی سازش

Updated: January 16, 2023, 3:53 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

اس سازش کے تحت لو جہاد اور تبدیلی مذہب کے موضوع کو خاص طور سے ہوا دی جارہی ہے۔ سماج کا تعلیم یافتہ طبقہ اگر چہ کسی حد تک ان غلط فہمیوں کے الجھاوے میں آنے سے محفوظ ہے لیکن کم پڑھے لکھے افراد اس جال میں پھنس جاتے ہیں اور پھر کل تک جن کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارتے تھے وہی مسلمان پڑوسی انھیں دشمن نظر آنے لگتا ہے

photo;INN
تصویر :آئی این این

آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کے حالیہ بیان کا چرچا ان دنوں خوب ہے اور میڈیا سے لے کر سیاست دان اور سماجی کارکنوں کے ذریعہ اس بیان کی تعبیر و توضیح مختلف طریقوں سے پیش کی جا رہی ہے۔ ان عناصر کے ذریعہ اس بیان کی جو تاویل اور توجیہہ پیش کی جارہی ہے، وہ اپنے اپنے موقف اور مفاد کے پیش نظر ہے اور اس میں غیر جانب داری اور دیانت داری کا عنصر برائے نام ہے۔ دراصل یہ بیان سنگھ کی اس حکمت عملی کا ایک جزو ہے جس کے تحت اس ملک کے مسلمانوں کو ہر سطح پر عدم تحفظ اور احساس کمتری میں ہمہ وقت مقید کئے رکھنا ہے تاکہ وہ اپنی سماجی اور معاشی ترقی سے زیادہ اس بات پر فکر مند ہوں کہ وہ اس ملک میں رہنے کا حق رکھتے ہیں یا نہیں اور یہاں رہنے کیلئے انھیں کن شرطوں کو ماننا پڑے گا؟ اس طرز کے بیانات دانستہ طور پر دئیے ہی اسلئے جاتے ہیں کہ مسلمان اپنی حالت زار کو بہتر بنانے کے اقدام کے تئیں سنجیدہ ہونے کے بجائے اس ملک میں اپنے وجود کی بقا کو یقینی بنانے پر سارا زور اور توانائی صرف کرتے رہیں ۔
 ’سنگھ پر مکھ‘ کے اس بیان سے جو سب سے پہلا تاثر پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ وہ اور ان کی تنظیم ملک کے آئین اور قانون سے خود کو بالاتر سمجھتے ہیں ۔ وہ جس تنظیم کی سربراہی کرتے ہیں اس کی تاریخ میں بارہا ایسے ابواب مل جائیں گے جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس تنظیم سے وابستہ ہونے والوں کی نفسیات میںخود کو قانون اور آئین سے مقدم اور بالاتر سمجھنے کا مادہ اس قدر سرایت کئے ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں اپنی خود ساختہ رائے یا تصور کو ملک کی مصدقہ حقیقت کے طور پر دیکھنے اور ماننے لگتے ہیں۔ دراصل یہ رویہ ہی ایسی باتیں کہنے کی تحریک عطا کرتا ہے جو آئین اور قانون کی رو سے مناسب نہیں ہوتیں۔ ہندوستان کی قدیم تاریخ سے نابلد افراد اس ملک کو ایک مذہب اور قوم کی ملکیت سمجھتے ہیں جبکہ سچائی یہ ہے کہ اس ملک کی سر زمین کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس پر مختلف مذاہب، قوموں اور قبیلوں نے اپنی بستیاں بسائیں اور ان بستیوں کے بسنے سے اس سرزمین کو ایک ایسے ملک کی صورت حاصل ہوئی جہاں بہ یک وقت مختلف عقیدوں، فرقوں اور طبقات کے افراد شیر و شکر کی مانند زندگی گزارتے ہیں۔ تاریخ کی اس مصدقہ حقیقت کو جھٹلا کر زندگی کی ہر سطح پر اتحاد و یکجہتی کی تائید اور تحریک عطا کرنے والے اس ملک کو کسی ایک مذہب یا قوم سے منسوب کرنے کی کوشش انتہائی افسوس ناک ہے۔
 اس وقت ملک گیر سطح پر ہندوستانی مسلمانوں کے حوالے سے کئی طرح کی غلط فہمیاں پھیلانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس مہم میں لو جہاد اور تبدیلی مذہب کے موضوع کو خاص طور سے ہوا دی جارہی ہے۔ سماج کا تعلیم یافتہ طبقہ اگر چہ کسی حد تک ان غلط فہمیوں کے الجھاوے میں آنے سے محفوظ ہے لیکن کم پڑھے لکھے افراد یا ایسے لوگ جو زندگی کی پیچیدگیوں کا مناسب درک نہیں رکھتے، بہت آسانی سے اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اس جال میں پھنسنے کے بعد وہ مسلمانوں کے متعلق عناد آمیز فکر کا شکار ہو جاتے ہیں اور اکثر اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ کل تک جن کے ساتھ ایک پڑوسی کی حیثیت سے ہنسی خوشی زندگی گزارتے تھے وہی مسلمان پڑوسی انھیں دشمن نظر آنے لگتا ہے۔ملک گیر سطح پر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے جو ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں ان کی وجہ سے غیر مسلم اذہان اس قدر آلودہ ہو چکے ہیں کہ وہ دپیکا پڈوکون کے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک مضحکہ خیز صورت ہے لیکن اسے یوں ہی مذاق میں ٹالا نہیں جا سکتا۔ یہ دراصل مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک اظہار ہے اور گزشتہ کچھ برسوں کے دوران سیاست اور میڈیا نے اس نفرت کی تشہیر میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔
 مسلمانوں کے خلاف غلط فہمی پھیلانے کی ایک تازہ مثال سنگھ پرمکھ کے بیان کا وہ حصہ ہے جس میں انھوں نے کہا  ہےکہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اس احساس عظمت سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے جس کی بنا پر وہ خود کو ملک کے دیگر باشندوں خصوصاً ہندوؤں سے افضل سمجھتے ہیں۔ اگر اس موضوع پر قومی سروے کروایا جائے تو مشکل سے ایک آدھ ہی مسلمان ایسے نظر آئیں گے جو اس نام نہاد احساس عظمت میں مبتلا ہوں ورنہ سچائی تو یہ ہے کہ اس وقت ملک کے ہر خطے میں بسنے والے مسلمانوں کیلئے زندگی کی ہر سطح پر متعدد قسم کے مسائل درپیش ہیں اور ایسی صورت میں بھی اگر وہ پدرم سلطان بو د کا راگ الاپ رہا ہے تو یا تو وہ اتنا باشعور نہیں ہے جو حقائق حال کا درک رکھتا ہو یا پھر ایسی باتیں کہنے کیلئے بعض عناصر پس پردہ اس کی مدد اور حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔اس ملک کی سیاست میں بعض ایسے نام نہاد قوم پرست مسلمان اس طرز کی فکر کے ذریعہ مسلمانوں کا مسلسل استحصال اور اپنے خفیہ آقاؤں کے مفاد کی راہ ہموار کر رہے ہیں ۔ اس وقت ملک میں جو حالات ہیں ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہتر یہ ہے کہ مسلمان جس قدر جلد ان مصنوعی ہمدردوں کے بہکاوے سے باہر آ جائے گا اس کے حق میں اتنا ہی بہتر ہوگا۔
 آزادی کے بعد سے اب تک اس ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے حالات میںبہتری نہیں آئی ہے اور تعلیم، صحت اور روزگار جیسے زندگی کے اہم شعبوں میں ان کے حالات پسماندہ طبقات سے بھی زیادہ غیر اطمینان بخش ہیں۔ ہندوستانی اقلیتوں کی سماجی اور معاشی صورتحال پر مبنی سرکاری تحقیقاتی کمیشنوں کی رپورٹس اس کا بین ثبوت ہیں۔ اقتدار کی سطح پر مسلمانوں کے معاملات و مسائل کو نظر انداز کرنے کی دانستہ حکمت عملی اختیار کئے جانے سے قبل بھی اس ملک کی اقلیتوں کے درمیان مسلمان ترقی اور خوشحالی کے اس آخری پائیدان پر تھا جہاں محرومی اور بے بسی اس کا مقدر بن چکی تھی۔ اب جبکہ سیاسی سطح پر منظر نامہ پوری طرح تبدیل ہو چکا ہے صورتحال مزید مخدوش ہو چکی ہے ۔ ان حقائق کے پیش نظر یہ کیوں کر کہا جا سکتا ہے کہ اس ملک کے مسلمان اب بھی اس احساس عظمت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں کہ ان کے اسلاف کبھی اس ملک پر حکومت کیا کرتے تھے؟ اس ملک پر مسلمانوں کی حکمرانی کا زمانہ اس ملک کی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش اور ناقابل تردید باب ہے ۔ دائیں بازو کی پارٹیوں اور تنظیموں کے ذریعہ اس باب کی خود ساختہ تعبیر کی بنیاد پر ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد آمیز رویے کو جائز نہیں قراردیا جا سکتالیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ملک کا مسلمان گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے اس نفرت اور تشدد کاہدف بنا ہوا ہے اور اس کے باوجود اس پر یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ مسلمانوں کو احساس عظمت کے دائرے سے باہر آنا پڑے گاتبھی وہ اس ملک میں رہنے کے حقدار ہوں گے۔
 اقتدار پر جب سے دائیں بازو کا غلبہ ہوا ہے تب سے اس ملک کی تاریخ اور تہذیبی و ثقافتی شناخت کو پوری طرح تبدیل کرنے کی کوشش ہر سطح پر ہورہی ہے۔ اس کوشش کا ہی ایک روپ وہ بھی ہے جس میں تاریخ کے زمانی تسلسل کو منقطع کرکے آزادی اور غلامی کے تصور پر ان افسانوی حکایتوں کا ملمع چڑھا کر پیش کرنا ہے جس کی رو سے مغلوں اور دیگر مسلمانوںکا دور حکومت اس ملک کے عوام کیلئے انتہائی تکلیف دہ رہا ہے اور خاص طور سے ان حکومتوں نے ہندوؤں کو مسلسل پریشان کیا ۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ تاریخ کے اس ناقص تصور نے ان انگریزوں کو بالکل پاک صاف بنا دیا جن کے مظالم کی داستانوں کی گونج آج بھی مکمل طور پر معدوم نہیں ہوئی ہے۔ انگریزوں کو ان نام نہاد مورخین کا شکرگزار ہونا چاہئے جو اپنے طور پر تاریخ کے رواں دھارے کوصرف ایک سمت موڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور اس کوشش کا واحد مقصد اس ملک کے مسلمانوں کو ہمہ وقت خوف کی نفسیات میں مبتلا کئے رکھنا ہے تاکہ وہ اپنی سماجی اور معاشی ترقی کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنے سے محروم رہیں۔
 آخر میںیہ انتہائی اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک میںمسلمانوں کے رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ اگر ایسے ہی ہوتا رہا تو پھر قانون اور آئین کی حکمرانی کے تصور کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ ایسے بیانات صریح طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو مزید بڑھاوا دیں گے اور خود مسلمانوں کو مسلسل خوف اور کمتری کے احساس میں مبتلا کئے رہیں گے اور یہی دائیں محاذ کا اصل مقصد بھی ہے۔ ایسے بیانات پر عدلیہ سمیت ان تمام اداروں کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے جو جمہوریت کی بقا میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK