جہاں تک گزرے سال میں ادب کی خاص باتوں کا سوال ہے، اس سلسلے میں کہا جا سکتا ہے کہ پچھلے سال ادب میں بڑے نشیب و فراز آئے۔
EPAPER
Updated: December 28, 2025, 11:59 AM IST | Professor Aslam Jamshed Puri | Mumbai
جہاں تک گزرے سال میں ادب کی خاص باتوں کا سوال ہے، اس سلسلے میں کہا جا سکتا ہے کہ پچھلے سال ادب میں بڑے نشیب و فراز آئے۔
۲۰۲۵ء بھی دبے پائوں گزر گیا۔ ہمیں احساس بھی نہ ہوا۔ ایسا لگا ابھی تو نیا سال آیا تھا۔ سال ِ رفتہ نے بھی مختلف رنگ دکھائے۔ ادب کے بہت سے رنگوں کی بارش ہوئی۔ کچھ رنگ ہمیشہ کے لئے بے رنگ ہو گئے۔ اردو زبان کے لاتعداد دشمنوں کی خواہش اور دشمنی کے با وجود، اردو زبان زندہ ہے۔ اردو کے درخت پر نئے گل بوٹے کھل رہے ہیں۔ کچھ پتّے زرد ہو کر ہوا کی زد پہ اُڑ گئے ہیں۔ دراصل زندہ زبانیں مرا نہیں کرتیں۔ اردو ایک زندہ زبان ہے۔ یہ وقتی طور پر دب سکتی ہے، کمزور پڑ سکتی ہے لیکن با لکل ختم نہیں ہو سکتی۔
جہاں تک گزرے سال میں ادب کی خاص باتوں کا سوال ہے، اس سلسلے میں کہا جا سکتا ہے کہ پچھلے سال ادب میں بڑے نشیب و فراز آئے۔ تنقید و تحقیق سے لے کر فکشن، شاعری، خود نوشت سوانح، انشائیہ وغیرہ کی کئی اہم کتابیں منظر ِ عام پر آئیں۔ سیمینار، جلسے جلوس، کتب میلے، جشن، بیت بازی، اجرا، خطبے، مشاعرے وغیرہ کا مسلسل جلوہ رہا۔
یہ سال بڑا نشیب و فراز کا حامل رہا۔ شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ اور شمیم حنفی نے تنقید میں جو نقوش قائم کئے تھے، وہ ہی ادب کا محور بنے رہے۔ قدوس جاوید، تقی عابدی، شافع قدوائی، حقانی القاسمی، سرور الہدیٰ، ناصرعباس نیّر، شمس بدایونی، علی احمد فاطمی، چندر بھان خیال، صغیر افراہیم، اطہر فاروقی، خالد علوی، نگار عظیم، جاوید دانش، شاہد صدیقی، خواجہ اکرام، شہاب ظفر اعظمی، غضنفر، یعقوب یاور، شمس اقبال، رضا عباس نیر، معصوم مراد آبادی، جمال فہمی، نعیم انیس، ابراہیم افسر، محمد مستمر، غالب نشتر، شہناز رحمٰن، شمع اختر کاظمی، شادا ب رشید، قمر صدیقی، نذیر فتح پوری، معین شاداب، علینہ عترت، منصور خوشتر، صفدر امام قادری، استو تی اگروال، ریاض توحیدی، شفیع ایوب، رمیشا قمر، احمد صغیر، مشتاق احمد وانی وغیرہ اُفق اُردو اَور مطلع ادب پر چھائے رہے۔
تنقید میں نئے رجحان کی تلاش کو ایک سمت حاصل ہوئی۔ بہت سے ناقدین نے یہ تسلیم کیا کہ اب نئی صدی آگئی ہے اور نئے نئے موضوعات و مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ایسے میں ادب میں کسی نئے رجحان کی ضرورت ہے۔ وہ رجحان نئی ترقی پسندی بھی ہو سکتا ہے اور جدید ترقی پسندی بھی۔ اس تعلق سے راقم کی ایک کتاب ’’ نیا رجحان: جدید ترقی پسندی ‘‘ بھی آئی۔ چھ ماہ کے اندر اس کے تین ایڈیشن آگئے۔ ادب کے گلیاروں میں نئے رجحان کو لے کر بحث تیز ہو ئی۔ اردو دنیا نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ پروفیسر قدوس جاوید نے اپنے ایک مضمون میں ما بعد جدیدیت کے خاتمے کا اعلان اور اردو میں نئی ترقی پسندی کی حمایت کی۔ اقبال جیسے شاعر کا متن خرد برد کا شکار ہوا۔ ماہر ِ اقبال، پروفیسر عبد الحق نے اپنے مضمون میں، جو ایوان اردو میں شائع ہوا، اس پرسخت اعتراضات بھی کئے۔
قومی اردو کونسل برائے فروغ ِ اردو زبان اپنی سرگرمیوں سے سرخی میں رہی۔ کونسل کے نئے چیئرمین (اب پرانے ہو گئے) نے قومی کونسل کی بند پڑی اسکیموں کو دوبارہ شروع کیا۔ اردو کے پرستار جھوم اُٹھے۔ جب کونسل کا اشتہار آیا تو اُردو والے شہد کی مکھیوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر اسکیم میں تین چار گنا زیادہ درخواستیں آئیں۔ مسودات ہوں، بَلک پرچیز کیلئے کتابیں ہوں یا سیمیناروں کیلئے درخواستیں ہوں۔ ۲۰۲۲ء میں جن لوگوں نے بلک پر چیز اسکیم کے تحت اپلائی کیا تھا انہیں بھی دوبارہ موقع فراہم کیا گیا۔ بہت سے لوگوں نے اپنی جمع شدہ کتاب کی دو کاپی پھر جمع کرادی جو مسترد کردی گئی۔ کتاب اور مسودات لینے میں سختی برتتے ہوئے مرتب کردہ کتابوں یا مسودات کو بھی نامنظور کر دیا گیا۔ کو نسل نے سیمینار بھی خود کرانے کا بیڑا اٹھایا۔ کئی شہروں میں کونسل کی طرف سے سیمینار کرائے گئے۔ کئی بالکل نئے موضوعات پر سیمینار ہوئے۔ کونسل نے کئی بڑے کتب میلے بھی منعقد کئے۔ کشمیر میں منعقدہ چنار کتاب میلے پر جموں کے کچھ لوگوں نے سخت اعتراض کیا۔ علی گڑھ میں کتا ب میلے کا شاندار اہتمام کیا گیا۔ یہ میلہ دس دن تک چلا۔ اس دوران تقریباً ۷۰؍ لاکھ کی کتابیں فروخت ہوئیں جو کشمیر میلے سے دس لاکھ زیادہ رقم کی تھیں۔
اسی طرح پٹنہ، اورنگ آباد اور پونے میں بھی کتاب میلہ ہوا۔ جشن کی صورت ریختہ اور جشن ِ ادب نے بھی ایسے ہی میلوں کا دہلی میں شاندار اہتمام کیا اور اردو کی قوتِ خرید کو ایک بار پھر ثابت کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ریختہ اورجشن ِ ادب کے زیادہ تر بینر اور ہورڈنگس ہندی رسم الخط میں تھے۔ اردو تھی بھی تو بہت چھوٹے سائز میں تھی جس کا شکوہ بے جا نہیں۔
غالب انسٹی ٹیوٹ نے اس سال بھی متعدد پروگرام منعقد کئے۔ یک روزہ سیمینار، عالمی سیمینار، قومی سیمینار، مشاعرے، شام ِ غزل، خطبے، اجرا کی محفلیں، ریسرچ اسکالر سیمینار، ڈرامہ فیسٹیول، اردو کلاسز، اشاعتی پروگرام وغیرہ۔ غرض ایوانِ غالب نے سال بھر اردو کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس سال بین الاقوامی غالب سیمینار پریم چند پر منعقد ہو نے جا رہا ہے۔ اس میں عالمی مشاعرہ، ہم سب ڈرامہ گروپ کا ڈرامہ ’’غالب کی واپسی‘‘، شام ِ غزل اور بین الاقوامی سیمینار شامل ہیں۔
اردو اکادمی دہلی نے بھی سال بھر اردو کی محفلیں برپا کیں۔ خاص پروگرام ۲۶ ؍تا ۲۹؍ ستمبر، چہار روزہ ’’نئے پرانے چراغ ‘‘ تھا جس میں روزانہ سیکڑوں ادباء، شعراء اور ناقدین نے حصہ لیا۔ یوم جمہوریہ، یوم ِ آزادی اوریوم ِ اساتذہ پرمشاعرے، شام ِ غزل، اردو ڈرامہ فیسٹیول، ادب ِ اطفال پر انوکھا سیمینار، مو سم ِ گرما کی تعطیلات میں بچوں کے ’’ سمر کیمپ‘‘ داستان گوئی ورکشاپ اور اس کے مظاہرے، وراثت میلہ، رنگ ِ سخن، خطبے، اردو زبان کے کورس۔ اس سال دہلی اردو اکادمی نے چیئرمین نہ رہتے ہوئے بھی اپنی سرگرمیوں کی رفتار کم نہیں ہونے دی۔ اسی طرح مدھیہ پر دیش اردو اکیڈمی بھی فعال رہی اور اردو کے کئی یاد گار پروگرام کرائے۔ ساہتیہ اکادمی نے انعامات کے علاوہ ’ساہتیہ اتسو ‘( دنیا کا سب سے بڑا میلہ ) کتب میلہ، سیمینار، سمپوزیم، افسانہ خوانی، انفرادی شعر خوانی، خطبات وغیرہ پورے ملک میں منعقد کئے۔ ساہتیہ اکادمی نے دوسرے اداروں کے اشتراک سے بھی بہت سی محفلیں برپا کیں۔
ادھر مغربی بنگال اردو اکیڈمی بھی سر خیوں میں رہی۔ سیمینار کے علاوہ بک فیئر، ریاستی اداروں کو سیمینار کیلئے تعاون، مونو گراف وغیرہ شائع کئے۔ مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے ساتواں قومی اردو ڈرامہ فیسٹیول، ستیہ جیت رے آڈیٹوریم میں ۲۲؍ اور ۲۳؍ دسمبر کو منعقد کیا جس میں مغل ِ اعظم: ایک تمثیل، غروب طلوع، بیگم جانی کی حویلی، تاج و تخت جیسے عمدہ ڈرامے اسٹیج کئے گئے۔ روح ِ ادب کا فلموں پر ایک خاص نمبر شائع ہوا۔ مہاراشٹر اردو اکیڈمی نے اپنا پچاس سالہ جشن منایا۔ تلنگانہ اور اڈیشہ اردو اکیڈمیز نے بھی اردو کے دامن میں بیل بوٹے ٹانکے۔ ان تمام سرگرمیوں پر اظہار مسرت کے ساتھ یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ بہار، اتر پر دیش اور پنجاب اردو اکیڈمیاں حسب سابق خاموش رہیں۔
ممبئی میں اردو کارواں نے سالہائے گزشتہ کی طرح اس سال بھی ’عشرۂ اردو‘ منایا۔ افتتاحی جلسہ، مختلف موضوعات پر بحث و مباحثہ، اجراءِ کتب، بیت بازی، مشاعرہ، ایجو کیشن ایکسپو اور دیگر تقریبات کی دھوم رہی۔ اس میں بہت سے اردو کالجز کے طلبہ نے حصہ لیا۔ اردو چینل نے شعبۂ اردو، ممبئی یونیورسٹی کے اشتراک سے کئی اچھے پرو گراموں کا انعقاد کیا۔ سہ روزہ ’جشن ِ اردو ‘ منایا گیا۔ اس شاندار جشن میں اردو نواز دوستوں اور طالب علموں نے پُرجوش شرکت کی۔ اس میں مشاعرہ، افسانہ خوانی، موسیقی، خطاطی کی نمائش، ڈرامے، بیت بازی، مذاکرہ، داستان گوئی، آرٹ گیلری اور ورکشاپ، پر فارمنگ کلاسز اور کتاب میلہ کا اہتمام کیا گیا۔ ادارہ گل بوٹے بھی سرگرم رہا۔ اس کے کئی پروگراموں میں ’’جشن بچپن‘ سب سے انوکھا تھا۔ بچوں کا ادب لکھنے والوں نے اپنے تجربات بیان کئے۔ گُل بوٹے کے تحت فاروق سید نے بہت سی کہانیوں اور مجاہدین ِ آزادی کی سوانح کو آڈیو اور ویڈیو کے ذریعہ طا لب علموں تک پہنچایا۔ وہ ’’ آج کی بڑی خبریں ‘‘ کے نام سےخبروں کا ایک چینل بھی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔
ادب ِ اطفال پر ایک اور تقریب آل انڈیا ادبِ اطفال سوسائٹی، نئی دہلی اور حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے اشتراک سے سہ روزہ سیمینار ’’ اردو اور دیگر زبانوں میں ادبِ اطفال‘‘۱۱ ؍تا ۱۳؍ نومبر منعقد ہوا۔ مانو (حیدرآباد) کے شعبہ ٔ اردو نے بھی کئی اہم خطبے، سیمینار اور پروگرام کئے۔ ممبئی میں کئی یاد گار اردو ڈرامے اسٹیج ہو ئے۔ محمد اسلم پرویز اور اقبال نیازی نے کئی یاد گار ڈرامے پیش کئے۔ دہلی میں ادارۂ ادب اسلامی ہند اور اس کی بہت سی شاخوں نے ملک بھر میں کئی با مقصد سیمینار، مذاکرے، مشاعرے، نعتیہ مشاعرے اور کتابوں کی اجرائی نشستیں منعقد کیں۔ اردو ڈائریکٹریٹ، پٹنہ نے سال بھر بہار کے ادباء و شعراء پر نہ صرف مونو گراف شائع کئے اوررسالہ نکالا بلکہ یک روزہ سیمینار بھی منعقد کئے۔
(سالِ رفتہ کی ادبی صورتحال کا مزید جائزہ آئندہ ہفے ملاحظہ فرمائیں )