Inquilab Logo Happiest Places to Work

۵۰؍ فیصد ٹیرف یعنی حد سے زیادہ دھاندلی

Updated: August 07, 2025, 3:37 PM IST | Mumbai

گر ٹرمپ انتظامیہ دھاندلی پر تُلا ہوا ہی تھا تو کیوں ہم نے اُن کی ہر بات کا ترکی بہ ترکی جواب نہیں دیا جس طرح چین نے دیا، روس نے دیا اور چند دوسرے ملکوں نے دیا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ہندوستانی عوام کے حافظے سے ’’ہاؤڈی مودی‘‘ اور ’’نمستے ٹرمپ‘‘ کے نعرے محو نہیں ہوئے ہیں اسی لئے وہ محو حیرت ہیں کہ اتنا اچھا دوست، جس کی قسم کھائی جاسکتی تھی، اس قدر بے وفا کیوں نکلا۔ کہا جاتا ہے کہ بے وفائی کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں مگر شاید وہ آداب صدرِ امریکہ نے نہیں سیکھے اور کوئی سکھائے تو وہ سیکھنا بھی نہیں چاہیں گے۔ اسی جذبۂ بے وفائی کے سبب وہ پے در پے دھمکیاں دیتے رہے اور پھر اُن دھمکیوں کو عمل میں لانے کے اپنے عزم کا مظاہرہ کرتے رہے۔ ابتداء میں محسوس ہورہا تھا کہ دھمکیاں، دھمکیاں ہی رہیں گی اور ٹرمپ ایسا نہیں کرینگے کیونکہ اگر دوستی کا خیال نہیں رکھ سکتے تو دوستی کا بھرم تو اُنہیں رکھنا ہی پڑے گا مگر اب جبکہ اُنہوں نے دھمکیوں کو دھماکے میں بدل کر اعلان کرہی دیا ہے تو سوچنا پڑتا ہے کہ ہم کہاں چو‘کے؟ کیا ہماری جانب سے کوئی کمی رہ گئی تھی یا ہم امریکی افسران کو اعتماد میں نہیں لے سکے۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ دھاندلی پر تُلا ہوا ہی تھا تو کیوں ہم نے اُن کی ہر بات کا ترکی بہ ترکی جواب نہیں دیا جس طرح چین نے دیا، روس نے دیا اور چند دوسرے ملکوں نے دیا۔ اتنا تو کہا ہی جاسکتا تھا کہ ہم روس سے تیل لیں یا ایران سے یا کسی اور ملک سے، یہ کسی خودمختار ملک کی اپنی صوابدید پر ہے، آپ کے کہنے سے ہم اپنی تجارتی ترجیحات طے نہیں کرسکتے۔ یہ بھی تو کہا ہی جاسکتا تھا کہ ہندوستان کی پہچان زرعی ملک کی ہے اور زراعت پر ملک کی آبادی کا بڑا حصہ آج بھی انحصار کرتا ہے اس لئے زرعی شعبے کے ساتھ سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، اسی طرح ڈیری پروڈکٹس کو بھی درمیان میں نہیں لایا جاسکتا۔ جہاں تک ہماری ناقص معلومات کا سوال ہے، کئی ملکوں نے واشنگٹن سے اپنی شرطیں منوائی ہیں۔ ہم بھی ایسا کرسکتے تھے۔ کیا نہیں کرسکتے تھے؟
کیا یہ ہماری ضرورت سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی کا نتیجہ ہے؟ ممکن ہے ہمارے نمائندوں نے جو امریکی نمائندوں سے گفتگو کررہے تھے، یہ سمجھا ہو کہ ٹرمپ آخر کار مان جائینگے اس لئے گفتگو میں سخت رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوا ہے تو یہ ہمارے اندازے کی سنگین غلطی ہے۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ کے اندازوں کی بات کی جائے تو ممکن ہے وہاں کے افسران نے سوچا ہو کہ نئی دہلی ہر شرط مان جائیگا کیونکہ اس کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے کبھی بھی کسی سخت ردعمل کا اظہار نہیں کیا جاتا یہاں تک کہ جب ہم نے غیر ملکی تارکین وطن کو ہتھکڑی لگا کر اور اُن کے پیروں میں بیڑیاں ڈال کر اُنہیں وطن واپس کیا تھا تب بھی نئی دہلی نے ایک لفظ نہیں کہا۔ ممکن ہے اُنہوں نے یہ بھی سوچا ہو کہ ہند امریکہ تجارتی تعلقات میں کوئی پیچ پڑا تو اس کا زیادہ نقصان نئی دہلی کو ہوگا نہ کہ واشنگٹن کو۔ اور یہ حقیقت بھی ہے۔ اگر ۲۵+۲۵؍ فیصد ٹیرف لگا دیا گیا تو ہندوستانی برآمدات میں بڑی تخفیف کا اندیشہ ہے جس سے ہمارے لئے سخت مسائل پیدا ہوں گے۔ 
سوال یہ ہے کہ ہندوستان سے اتنی قربت کے بعد ایسی کیا بات ہوئی، اور اسے ہر خاص و عام محسوس کررہا ہے، کہ ٹرمپ ہندوستان کے بدترین مخالف کی طرح اقدامات کررہے ہیں۔ کیا یہ عمل دُنیا کی سب سے بڑی معیشت کو زیب دیتا ہے؟ مگر چونکہ امریکی معیشت کو ٹرمپ کے ٹیرف اقدامات کا فائدہ پہنچ رہا ہے اس لئے ان کے عوام اُن کے ساتھ ہیں اور یہ حمایت اُنہیں مزید بے خوف بنارہی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK