Inquilab Logo Happiest Places to Work

کبھی جگری دوست کہلانے والے آج ایک دوسرے کے مخالف کیوں ہو گئے؟

Updated: August 07, 2025, 1:18 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

وزیراعظم مودی نے کبھی ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا ، مگر دوسری بار اقتدار میں آنے کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ کا رویہ بالکل دشمنوں جیسا ہو گیا جس پر ہر کوئی حیران ہے۔

It`s hard to believe that Modi and Trump are now opponents of each other. Photo: INN
یقین نہیں آتا کہ مودی اور ٹرمپ اب ایک دوسرے کے مخالفین ہیں۔ تصویر: آئی این این

۲۰۲۰ء  میں امریکہ کے صدارتی انتخابات  کے دوران  وزیر اعظم مودی نے امریکہ جا کر ڈونالڈ ٹرمپ  کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا ۔ ان کا یہ نعرہ بہت مشہور ہوا تھا ’’ اب کی بار ٹرمپ سرکاری‘‘ ، اس سے قبل جب ٹرمپ ہندوستان آئے تھے تو گجرات کے سردار ولبھ بھائی پٹیل اسٹیڈیم میں  نریندر مودی نے ’مائی ڈیئر فرینڈ ‘ کہہ کر ٹرمپ کو خطاب کیلئے مدعو کیا تھا۔ ٹرمپ نے اس وقت مودی سے لے کر سچن تنڈولکر تک  ہندوستان کی کئی اہم شخصیات کی تعریف کی تھی۔ 
  جب ۲۰۲۴ء میں ڈونالڈ ٹرمپ الیکشن جیت گئے  تو ہر کوئی یہی سمجھ رہا تھا کہ اب عالمی سطح پر نریندر مودی کی اہمیت بڑھ جائے گی لیکن ۲۰۲۵ء کی شروعات میں جب ڈونالڈ ٹرمپ نے باقاعدہ عہدہ سنبھالا تو انہوں نے ایک کے بعد ایک  ہندوستان کے خلاف فیصلے شروع کئے۔ سب سے پہلے انہوں نے  ہندوستانی طلبہ کو زنجیروں میں جکڑ کر طیارے میں سوار کروایا اور ہندوستان روانہ کیا، اس کے بعد نریندر مودی کی موجودگی میں یہ کہا کہ ہندوستان بہت زیادہ ٹیریف لگاتا ہے ۔  وہاں کاروبار کرنا بہت مشکل ہے۔ اس لئے ہم  ہندوستان پر ٹیریف لگائیں گے۔  نریندر مودی سنتے رہے اور ہنستے رہے۔ اس کے بعد ٹرمپ نے کئی ایسے فیصلے کئے جن سے یوں لگنے لگا جیسے وہ ہندوستان کے ساتھ دشمنی پر اتر آئے ہیں۔ بات یہاں تک پہنچی کہ انہوں نے ہندوستانی مصنوعات پر امریکہ میں ۲۵؍ فیصد ٹریف لگانے کا اعلان کر دیا۔  یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن پاکستان کے ساتھ موازنہ میں ٹرمپ نے یہ کہہ کر انتہا کر دی کہ وہ پاکستانی کی مدد کریں گے۔ ایک وقت وہ آئے گا جب  ہندوستان خود پاکستان سے تیل خریدے گا۔  یہ ایک ایسی صورتحال ہے جب برے سے برے وقت میں بھی ہندوستان پر نہیں آئی تھی۔ 
  سوال یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کا رویہ اچانک مودی کے تئیں اس قدر تبدیل کیوں ہو گیا؟ کہا جا رہا ہے کہ ایسا اس لئے ہوا کہ جب یوکرین جنگ شروع ہوئی اور یورپ نے روس کا معاشی بائیکاٹ کر دیا تو روس نے ایشیائی ممالک کو سستا تیل فراہم کرنے کی پیش کش کی اور ہندوستان نے فوری طور پر   اس پیش کش کو قبول کر لیا۔  اس وقت امریکہ میں جو بائیڈن کی حکومت تھی۔   حکومت ہند کا رویہ کافی سخت تھا۔ جب  ۲۰۲۴ء میں امریکہ میں پھر الیکشن ہوئے تو مودی نے ٹرمپ سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ الیکشن بعد بھی دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ اطلاع کے مطابق مودی کے مشیروں نے انہیں ڈونالڈ ٹرمپ سے گفتگو نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ ٹرمپ الیکشن ہار جائیں گے، مگر ٹرمپ الیکشن جیت گئے اور اسی وقت سے ٹرمپ نے اپنا رخ تبدیل کر لیا۔  انہوں نے سب سے پہلے غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے ملک روانہ کرنا شروع کیا۔ اس میں بلاشبہ سب سے   شرمناک رویہ ہندوستانی طلبہ کے ساتھ اختیار کیا گیا۔ مگر مودی اس پر خاموش رہے اور یہ کہہ دیا کہ اگر کسی ملک کے قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو سزا تو ملے گی۔ 
  ان کے اس رویہ نے ٹرمپ کو مزید شے دی۔ اسی دوران ٹرمپ نے مودی کے سامنے میڈیا سے کہا کہ امریکہ ہندوستان کو ایف ۳۵؍ طیارہ فروخت کرے گا۔ مودی اس وقت تو خاموش رہے مگر بعد میں ایف ۳۵؍ خریدنے سے معذرت کرلی۔ دراصل فوج نے واضح کر دیا تھا کہ ایف ۳۵؍ جغرافیائی اعتبار سے ہندوستان کیلئے کارگر نہیں ہے جبکہ یہ کافی مہنگا بھی ہے۔  ماہرین کے مطابق اس بات نے بھی ٹرمپ کو ناراض کر دیا۔  حالانکہ یہ وہ باتیں ہیں جو سامنے نظر  آ رہی ہیں۔ جبکہ کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو پردے کے پیچھے ہیں۔ جیسے اڈانی کے اوپر مقدمہ جو ا مریکہ میں جاری ہے۔ اس نے نریندر مودی کے ہاتھ پیر باندھ رکھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ  ڈونالڈ ٹرمپ کی ہر بات پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان کے مقابلے میں  ملنے والی مسلسل ہزیمت پر بھی وہ جواب دینے سے قاصر ہیں۔ اپوزیشن کے علاوہ ماہرین بھی اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
   دوسری طرف پاکستان نے ڈونالڈ ٹرمپ کے مزاج کو پوری طرح سمجھ لیا ہے۔  اس نے ٹرمپ کے  ہر رویہ  یا اقدام پر مثبت پیش قدمی کی ہے جس کی وجہ سے ٹرمپ پاکستان سے خوش نظر آ رہے ہیں۔ یہ جو بار بار وہ ہند۔ پاک جنگ بند کروانے کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اس کا مقصد پاکستان کو خوش کرنا بھی ہے۔ ستمبر میں ڈونالڈ ٹرمپ کو ایک کانفرنس میں شرکت کیلئے ہندوستان بھی آنا ہے۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ ہندوستان آئیں۔   ان کے آنے نہ آنے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ موجودہ صورتحال سے نپٹنے کیلئے مودی حکومت کے پاس کون سا ہتھیار موجود ہے؟ کیونکہ روس سے تیل کی خریداری فوراً بند نہیں کی جا سکتی۔ ٹیریف کے سبب ہونے والے نقصان کو روکنے کیلئے کیا اقدامات کئے جا سکتے ہیں؟ اور خدانخواستہ اگر ہند پاک تنازع معاملے میں امریکہ پاکستان کے ساتھ نظر آیا تو اس سے کیسے نپٹا جائے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت مودی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK