Inquilab Logo Happiest Places to Work

مومنین کے ۸؍اوصاف جن میں سے ہر درجہ پچھلے سے اعلیٰ و اکمل ہے

Updated: December 30, 2022, 11:07 AM IST | Maulana Abul Kalam Azad | Mumbai

وہ جو توبہ کرنے والے ہیں، اللہ کے عبادت گزار ہیں، اس کی حمد و ثنا ہمیشہ وردِ زباں رکھتے ہیں، اس کی راہ میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر سفر کرتے ہیں

By bowing, the person bends his soul and heart completely
رکوع کے ذریعے بندہ اپنے روح و دل کو یکسر جھکا دیتا ہے

وہ جو توبہ کرنے والے ہیں، اللہ کے عبادت گزار ہیں، اس کی حمد و ثنا ہمیشہ وردِ زباں رکھتے ہیں، اس کی راہ میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر سفر کرتے ہیں، اس کے آگے رکوع و سجود میں مشغول رہتے ہیں، نیک کاموں کا حکم دیتے ہیں،  برائیوں سے روکنے والے ہیں، اور سب سے آخر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو حدود قائم کردی ہیں ان سب کے محافظ ہیں ،تو  ایسے مومنوں کو دین و دنیا کی فتح یابیوں کی خوشخبری سنا دو۔‘‘
 (سورہ التوبہ: ۱۱۲)
 اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ۸؍ اوصاف کو بیان کیا ہے جو مومنوں میں ہونے چاہئیں یا آٹھ قسم کے درجوں کو بیان کیا ہے جن میں سے ہر درجہ پچھلے سے اعلیٰ و اکمل ہے اور یہی اس جماعت کا دستورالعمل اور طریق کار ہوگا۔
۱) التائبون: اصلاح و تزکیہ ٔ نفس کا اولین مرتبہ توبہ و انابت ہے، یعنی بندے کا اپنے اعتقاد و اعمال کی تمام گمراہیوں اور غفلتوں سے کنارہ کشی کرنا اور اللہ کے حضور عہد واثق کرنا کہ وہ آئندہ اس کی مرضیات کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائے گا۔ 
۲) العابدون: وہ جو مقام ِانابت کے بعدمقام عبادت تک مرتفع ہوئے (العابدون وہی لوگ ہیں)۔ مقام توبہ و انابت (اُن کا) گزشتہ کا ترک تھا، عبادت حال و مستقبل کا عمل ہے۔
۳) الحامدون: وہ لوگ جو دنیا میں انسانی اعمال کی مدح و ثناء اور اغراض و مقاصد ِ نفسانیہ کے غلغلے کی جگہ خدائے قدس کی حمد و ثنا کی پکار بلند کریں اور جو توفیق الٰہی سے اس انقلاب کا وسیلہ بنیں کہ دنیا مادہ پرستی کے شور سے نجات پا کر حمد الٰہی کے ترانوں سے معمور ہوجائے۔
۴) السائحون: یعنی وہ لوگ جو حق اور صداقت کی راہ میں اپنے گھر اور وطن کے قیام کو ترک کرکے ، فرزند و عیال اور دوست و احباب کی الفت سے بے پروا ہوں اور سفر کی تمام تکلیفوں اور مصیبتوں کو خوشی خوشی جھیل کر نکلیں، اور خدا اور اس کی صداقت کے عشق میں شہر بہ شہر، کوچہ بہ کوچہ گشت لگائیں، خدا کی دعوت کی صدا ان کی زبانوں پر ہو اور ہدایت ِ الٰہی کی امانت دلوں میں،  وہ ان دیوانوں کی طرح جو فراق ِ محبوب میں جنگلوں کی خاک چھانتے اور آبادیوں اور ان کی سڑکوں پر مارا مارا پھرتے ہیں، ہر جگہ پھریں ، اور اس فقیر کی طرح جو ایک ایک دروازے پر صدا لگاتا اور ہر شخص کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے، دنیا کے ہر گوشے میں پہنچیں، کہیں ہدایت کی صدا لگائیں تو کہیں سچے دلوں کا سوال کریں۔ جس شخص کی جیب کو وزنی اور دل کو فیاض پائیں اس کے دروازے کا پتھر بن کر جم جائیں، اگر وہ دُعاؤں سے خوش ہو تود عائیں  دیں، اگر دل کا نرم ہو تو فقیرانہ صدائیں سنائیں، اگر دردمند ہو تو عاجزی کی صورت بنا کر منتیں کریں، غرض کہ جب تک اپنے شکار کو قابو میں نہ کرلیں اس کے دروازے سے نہ ٹلیں۔
 پھر سفر کی مختلف صورتیں اور مختلف مراتب ہیں اور لسان الٰہی نے ’’سائح‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا کہ سب پر حاوی ہے، میں کہتا ہوں کہ نیک نیتی کے ساتھ جو تاجر غیرممالک کا سفر تجارت کیلئے کرے، جس کو قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جابجا تعمیر کیا ہے یا علوم مفیدہ و فنون نافعہ کی تحصیل کے لئے اپنا گھر چھوڑ دے، جس کو خدا نے خیرکثیر بتلایا ہے یا اسی طرح کوئی دوسرا مقصد ان اغراض میں سے ہو جن کو دوسری قومیں سیاست و تمدن وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتی ہیں، تو وہ تمام صورتیں بھی اس وصف ایمان و اسلام میں داخل ہیں اور اس طرح کا سفر کرنے والا بھی مرتبہ ٔ ’’سائحون‘‘ سے فائز نیز اس کی تمام برکات سے بہرہ اندوز ہے۔ 
۵) الراکعون: بظاہر ’’الراکعون‘‘ اور اس کے بعد جو  وصف آرہا ہے وہ  ’’الساجدون‘‘ ہے یہ ایک ہی چیز یعنی نماز کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں پہلے رکوع ہے اور پھر سجود، لیکن دراصل یہ دو علاحدہ وصف یا دو علاحدہ علاحدہ مرتبوں کی جماعت کا بیان ہے ، جن میں پہلا وصف مرتبہ رکوع ہے ، دوسرا سجود۔
 مقصود دونوں سے وہ مقام ہے جبکہ انسان اپنی روح و دل اور اپنی تمام قوتوں اور اپنے تمام جذبات اور تمام خواہشوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جاتا ہے اور وہ سر جسے اس نے بلند کیا ہے، اس کی ہر مخلوق کے آگے بلند ہوکر بالآخر اس کے آگے جھک جاتا ہے ۔ فی الحقیقت لفظ  ’’اسلام‘‘ کی حقیقت اور مقام ’’تسلیم‘‘ کا مقصود اصلی بھی یہی مقام ہے۔
  لیکن اس حالت کےدو درجے ہیں، ایک مرتبہ رکوع ہے اور ایک مرتبہ سجود۔ نماز میں مصلی پہلے رکوع میں جاتا ہے، اس کے بعد سجدہ میں گرتا ہے ، پس ’’الراکعون‘‘ سے مقصود وہ لوگ ہیں جو اس حالت کے پہلے درجے تک پہنچ گئے ہیں اور اس بے نیاز و کبریاء کے سامنے انہوں نے اپنی روح و دل کو یکسرجھکا دیا ہے۔
۶) الساجدون:  یہ دوسرا مرتبہ ہے، رکوع صرف جھکنا تھا مگر سجود جھکے جھکتے اس قدر جھک جانا ہے کہ بے اختیار و مضطر ہوکر زمین پر گر پڑنا اور پیشانی کو گرد و خاک و ذلت سے آمادہ کردینا، یہ انکسار عبودیت کا انتہائی مرتبہ ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ بندہ اپنے سر کو نہ صرف اللہ کے آگے جھکا ہی دے بلکہ دائمی طور پر اس کے سامنے زمین پر رکھ  دے اور اسے سپرد کردے۔ سیدالطائفہ بغدادیؒ سے کسی نے پوچھا : نماز میں سجدے کی شرائط کیا ہیں؟ فرمایا کہ ’’تمہارے لئے تو یہ کہ پیشانی اور ناک زمین سے مس ہو ں، اور ہمارے لئے یہ کہ جب ایک بارسجدے میں سر گر جائے تو پھر دوبارہ زمین سے نہ اٹھے۔‘‘

الآمرون بالمعروف والناھون عن المنکر:اللہ اکبر! امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ترجمہ عالیہ کہ ان تمام اوصاف عظیمہ کے بعد اس کا ذکر کیا گیا اور فرمایا کہ وہ لوگ جو حق کا اعلان کرتے، صداقت کا حکم دیتے اور راست بازی و عدالت کی طرف بلاتے ہیں ، اور چونکہ نیکی کی دعوت بدی کی ممانعت کے بغیر ممکن نہیں، اس لئے ساتھ ہی اس کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ نیز وہ فرزندان حق جو برائیوں سے روکتے اور خدا کی زمین کو نفس و شیطان کی پھیلائی ہوئی ضلالت سے بچاتے ہیں۔ 
 فی الحقیقت یہ مرتبہ اسلام و ایمان کا اعلیٰ ترین درجہ اختصاص اور مخصوص ترین اعمالِ نبوت و صدیقیت میں سے ہے، اس سے بڑھ کر کوئی وصف نہیں جو اسلام کی پوری حقیقت اپنے اندر رکھتا ہو۔ یہی وہ عمل ِ الٰہی ہے جس کا انجام دینے والا زمینوں اور آسمانوں میں خدا کا دوست پکارا جاتا ہے اور اس کے اعمال کے اندر نبیوں اور رسولوں کی نسبت متحقق ہوجاتی ہے۔ جو گروہ یا جو فرد آمربالمعروف و ناہی عن المنکر ہوگا وہ گویا آدم و نوح و ابراہیم و موسیٰ (علیٰ نبیینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام) کا دنیا میں جانشین ہوگا۔
۸) والحافظون لحدود اللہ : یہ ان اوصاف ِ الٰہیہ کا آخری مرتبہ اور اس زنجیر صفات ایمانیہ کی آخری کڑی ہے ۔ یہ انتہائی وصف  ہے جو ان صفات سبعہ ربانیہ کے بعد مومنوں کو حاصل ہوتا ہے، یا مومنین و مخلصین کی وہ منتہا درجہ رفیع و جلیل جماعت ہے جو ارتقاء ایمانی کی آخری منزل تک پہنچ جاتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سچ مچ اس دنیا میں اسے اپنا قائم مقام اور خلیفہ بنادیتا ہے۔ 
 ’’حافظین لحدوداللہ‘‘ سے مقصود وہ جماعت ہے جو دنیا میں شرعیہ حقہ الٰہیہ کے قیام اور عدل و امنیت کے نظام کی ذمہ دار ہوتی ہے اور جو حدود قوانین اللہ تعالیٰ نے اقوام عالم، امن انسانیت ، نظم مدنیۃ صالحہ و حفظ حقوق اقوام و ملل کے لئے قائم کردیئے ہیں، ایک بااختیار سلطان اور ایک مسؤل والی ٔ ملک کی طرح  ان کی محافظت کرتی  ہے۔
  یہی حدوداللہ فی الحقیقت تمام شرائع الٰہیہ کا مقصود حقیقی اور تمام مامورین و مرسلین اور مصلحین و متبعین کی دعوت کا ماحصل ہیں اور یہی حدود ہیں جن کو لسان اللہ نے کہیں دین قیم، کہیں دین حنیف، کہیں صراط مستقیم، کہیں فطرۃ اللہ، کہیں سنۃ اللہ اور کہیں ’’اسلام‘‘ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس خدمت کے لئے اپنی جماعتوں کو منتخب کرتا اور انہیں اپنا خلیفہ بناتا ہے۔ بس وہ دنیا کو صفات ِ الٰہی کی تجلی گاہ بناتا چاہتے ہیں، نہ کہ تخت ابلیس کے احکام خبیثہ کا جہنم کدہ۔ وہ  ہر اس چیز سے خوش ہوتے ہیں جن سے رب العالمین خوش ہے اور ہر اس درخت کی جڑ کاٹنا چاہتے ہیں جو صفات ِ شیطانیہ کے بیج کا پھل ہے۔ پھر وہ اپنی تمام قوتوں کو ’’حدوداللہ‘‘ کی حفاظت کی راہ میں وقف کردیتے ہیں اور دُنیا کی جو جو قوتیں ان حدود کو توڑنے والی اور انسانیت کو اس کے فطری حقوق سے محروم کرنے  والی ہیں، ان سب کے تسلط سے عالم کو نجات دلاتے ہیں۔ یہ گویا قوت ِ الٰہی اور قوائے شیطانیہ کی ایک جنگ ہوتی ہے ، پر جیسا کہ  اللہ نے ہمیشہ کیا ہے، وہ اپنی جنود قاہرہ کو فتح دلاتا اور ابلیس کے لشکر کو نامراد و خاسر کرتا ہے
 ’’اور بے شک ہمارا فرمان ہمارے بھیجے ہوئے بندوں (یعنی رسولوں) کے حق میں پہلے صادر ہوچکا ہے، کہ بے شک وہی مدد یافتہ لوگ ہیں، اور بے شک ہمارا لشکر ہی غالب ہونے والا ہے۔‘‘ (الصافات:  ۱۷۱؍تا۱۷۳)
 یہ درجہ آخری درجہ ہے اور اس لئے حزب اللہ کا مقصد حقیقی ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے حزب اللہ یعنی اپنی جماعت کو جابجا حزب الشیطان‘‘ یعنی شیطان کی جماعتوں کے مقابلے میں فرمایا ہے۔ سورۂ مجادلہ میں جہاں منافقین اور کفر پرست لوگوں کا تذکرہ کیا وہاں پہلے ’حزب الشیطان‘ کی طرف اشارہ کیا
 ’’اُن پر شیطان نے غلبہ پا لیا ہے سو اُس نے انہیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے، یہی لوگ شیطان کا لشکر ہیں۔ جان لو کہ بیشک شیطانی گروہ کے لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘ (المجادلہ:۱۹)
 پھر اس آیت  کے بعد سچے اور راست باز مومنوں کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی علامت یہ ہونی چاہئے کہ اللہ اور اس کی صداقت و عدالت کے آگے دنیا کی تمام قوتوںاور بندشوں کو ہیچ سمجھیں
 ’’آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے۔‘‘ (المجادلہ:۲۲)
 حاصل سخن یہ کہ ’’حافظین لحدوداللہ‘‘ کا مقام جماعت حزب اللہ کا مرتبۂ آخری ہے اور ان مراتب ثمانیہ کے طے کرنے کے بعد اس جماعت کا فرض ختم ہوجاتا ہے ۔ پس یہی ہیں کہ فرمایا ’’وبشرالمومنین‘‘ کہ ان کو فلاح دارین کی بشارت پہنچا دی جائے، اور یہی قرآن حکیم کے مقررکردہ مراتب عمل ہیں جن کو حلقۂ حزب اللہ اختیار کرے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK