نماز اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جو مقررہ رکعات و طریقے سے ہر مومن پر شب و روز میں پانچ بار وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہے۔
EPAPER
Updated: June 20, 2025, 4:47 PM IST | Dr. Muhammad Wasay Zafar | Mumbai
نماز اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جو مقررہ رکعات و طریقے سے ہر مومن پر شب و روز میں پانچ بار وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہے۔
نماز اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جو مقررہ رکعات و طریقے سے ہر مومن پر شب و روز میں پانچ بار وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہے۔ اس کی صحت و قبولیت کے لئے اس کی ظاہری و باطنی کیفیت میں توازن، خشوع و خضوع اور ادائیگی کے طریقے کا صحیح ہونا ضروری ہے۔ ان میں سے ہی ایک اہم جزو تعدیل ارکان ہے۔ لفظ ’’تعدیل‘‘ عربی میں ’’عدل‘‘ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں برابر اور درست کرنا، سیدھا کرنا، اعتدال و توازن قائم کرنا، معتدل بنانا، متوسط حد میں لانا وغیرہ۔ ’’ارکان‘‘ جمع ہے ’’رُکن‘‘ کی جس کے معنی ہیں کسی چیز، معاملہ یا تنظیم وغیرہ کا جزو لازم یا اہم حصہ، لہٰذا جب یہ لفظ نماز کے لئے بولا جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے نماز کے وہ بنیادی اجزاء جو اس کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں جیسے قیام، رکوع، سجود، قعود وغیرہ۔ اس طرح تعدیل ارکان کا مطلب ہے نماز کے ارکان کو درست و مسنون طریقے سے سکون و اطمینان کے ساتھ ادا کرنا، ساتھ ہی ہر رکن کے درمیان اعتدال اور ترتیب کو قائم رکھنا۔ تاہم فقہاء کی اصطلاح میں تعدیل ارکان کا اطلاق بالخصوص رکوع، قومہ یعنی رکوع سے واپس کھڑے ہونے کی حالت، سجدہ، اور جلسہ ٔ استراحت یعنی دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی حالت میں اطمینان اور سکون کو ملحوظ رکھنے پر کیا جاتا ہے جس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ان سب مواقع کی تسبیحات و مسنون دعائیں مکمل طور پر پڑھی جائیں۔
جب ارکان اس طرح سکون و اطمینان اور اذکار و مسنون دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ ادا کئے جائیں تو نماز کے اندر حسن اور خشوع پیدا ہوتا ہے، نماز قبولیت کے قریب پہنچ جاتی ہے اور اللہ سے بندے کے تعلق کو مضبوط کرتی ہے۔ اس کے برعکس اگر نماز تعدیل ارکان کے اہتمام کے بغیر عجلت کے ساتھ پڑھی جائے، جیسا کہ آج کل مسلمانوں کی اکثریت کا رویہ ہے، تو نماز مکمل نہیں ہوتی اور قابل قبول بھی نہیں رہتی بلکہ واجب الاعادہ ہوجاتی ہے۔ ایسے میں نماز کے جو دنیوی اور اخروی ثمرات ہیں، انسان ان سے بھی یقینی طور پر محروم ہوجاتا ہے اور اسے جسمانی ورزش اور اٹھک بیٹھک کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتاحالاں کہ وہ خود کو پابند نمازی سمجھ رہا ہوتا ہے۔ یہاں یہ سمجھنا چاہئے کہ شریعت میں صرف نماز کی فرضیت پر زور نہیں دیا گیا بلکہ اسے قائم کرنے اور اسکے ظاہری و باطنی آداب کی رعایت کرنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ کو ٹھہر ٹھہرکر اور اطمینان کے ساتھ نماز ادا کرنے کی تلقین کی۔ ایک صحابی کو آپؐ نے جلدی جلدی نماز پڑھتے دیکھا تو انہیں دوبارہ بلکہ سہ بارہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک دفعہ مسجد میں تشریف لے گئے تو ایک اور شخص بھی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز ادا کی، پھر اس نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا۔ آپؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: ’’ واپس جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ ‘‘ چنانچہ اس نے دوبارہ نماز پڑھی اور واپس آکر پھر آپؐ کو سلام کیا۔ آپؐ نے پھر یہی فرمایا: ’’واپس جا کر پھر سے نماز پڑھو کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ ‘‘ تین بار اسی طرح ہوا۔ بالآخر اس شخص نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، میں تو اس سے بہتر نماز نہیں پڑھ سکتا، اس لئے آپؐ مجھے اس کی تعلیم دیجئے۔ تب آپؐ نے فرمایا: ’’ جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو (پہلے) تکبیر (یعنی اللہ اکبر) کہو پھر قرآن مجید سے جو کچھ تمہیں میسر ہوسکے پڑھو، اس کے بعد رکوع کرو یہاں تک کہ رکوع میں خوب اطمینان حاصل کرلو، پھر سر اٹھا کر سیدھے کھڑے ہوجاؤ، اس کے بعد سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدے میں خوب اطمینان حاصل کرلو، پھر سر اٹھاکر اطمینان سے بیٹھ جاؤ، اس کے بعد (دوسرا) سجدہ کرو تا آنکہ سجدے میں تمہیں اطمینان نصیب ہوجائے، پھر اسی طرح اپنی ساری نماز میں کرو۔ ‘‘ (صحیح بخاری)
محدثین نے اس حدیث کو ’’حدیث مُسِییِٔ الصَّلَاۃ‘‘ کا نام دیا ہے یعنی وہ حدیث جس میں نماز میں کوتاہی کرنے والے کا ذکر ہے اور وہ صحابی جن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا، خلاد بن رافعؓ تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو بار بار نماز پڑھنے کا حکم اس لئے دیا کیوں کہ وہ رکوع و سجود، قومہ اور جلسہ وغیرہ ٹھیک طور پر ادا نہیں کررہے تھے۔ اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ جو نماز ایسی عجلت کے ساتھ پڑھی جائے وہ قابل اعادہ ہوتی ہے یعنی اسے دوبارہ، سہ بارہ پڑھا جائے۔
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اچھی طرح وضو نہیں کرتااور رکوع، سجود اور قرأت کو مکمل نہیں کرتا تو وہ نماز آسمان پر جانے سے روک دی جاتی ہے اور پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر اس نمازی کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد للہیثمیؒ) دوسری روایت میں ہے کہ رکوع و سجود مکمل ادا نہیں کرنے والے کو آپؐ نے بدترین چور قرار دیا ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ـ ’’لوگوں میں سب سے برا چور وہ ہے جو اپنی نمازسے چوری کرتا ہے۔ ‘‘ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ وہ اپنی نماز سے چوری کیسے کرتا ہے؟ اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’وہ اس کے رکوع اور اس کے سجود کو مکمل ادا نہیں کرتا۔ ‘‘ (صحیح ابن حبان ) رکوع و سجود کے مکمل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ان میں کم از کم تین بار تسبیحات اطمینان سے پڑھی جائیں۔