قربانی کا حکم ایام قربانی کے ساتھ خاص ہے، ایام قربانی گزرجانے کے بعد اس کی قضا نہ درمیانِ سال ہے نہ آئندہ سال۔
EPAPER
Updated: June 20, 2025, 4:51 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai
قربانی کا حکم ایام قربانی کے ساتھ خاص ہے، ایام قربانی گزرجانے کے بعد اس کی قضا نہ درمیانِ سال ہے نہ آئندہ سال۔
(۱) ایک شخص جو صاحب نصاب ہے اور ہر سال اپنے نام سے قربانی کے علاوہ والدین کے نام سے بھی قربانی کرانے کا اس کا معمول ہے، اس سال بیمار ہونے کی وجہ سے والدین کی طرف سے قربانی کے لئے جانور ہی نہیں خرید سکا البتہ اپنی قربانی کے بکرے کا انتظام وہ پہلے ہی کرچکا تھا وہ بچوں نے کرادی۔ سوال یہ ہے کہ اب جبکہ وہ صحتمند ہے ماں باپ کی قربانی کے سلسلے میں کیا کرے؟ کیا ان کی طرف سے قربانی کی نیت سے قیمت کا صدقہ ضروری ہوگا یا اس کی دوسری کوئی صورت ہوگی؟ عبد الولی، جے پور
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: ہرشخص پر صرف اپنی طرف سے قربانی واجب ہوتی ہے، بیوی بچوں یا والدین وغیرہ کی طرف قربانی اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ بچے صاحب ِنصاب اور عاقل بالغ ہیں تو قربانی خود ان کی اپنی ذمے داری ہے، یہ الگ بات کہ باپ اپنے ساتھ ان کیلئے بھی قربانی کرا دیتا ہے۔ بچے نابالغ مگر مالدار ہوں تو باپ ان کے مال سے ان کی طرف سے قربانی نہیں کرسکتا البتہ چاہے تو اپنے مال سے ان کی طرف سے قربانی کرادے۔ یہی حکم والدین کا بھی ہے۔ وہ مرحوم ہوچکے ہوں تویہ ان کی طرف سے نفلی قربانی کرسکتا ہے لیکن نہ کرسکا تو اتنی قیمت کا صدقہ اس پر واجب نہیں۔ والدین حیات ہیں مگر صاحب نصاب نہیں ہیں اس صورت میں بھی قربانی نہ کرنے پر قیمت کا صدقہ واجب نہیں، ہاں زندہ اورصاحب نصاب ہوں تو یہ ان کی ذمے داری ہے کہ اپنے مال سے ایک متوسط بکری کی قیمت غرباء ومساکین کو دیں ۔ البتہ بیٹا جس کا معمول ان کی طرف سے قربانی کا تھا وہ بھی ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
(۲) زید پر قربانی واجب ہے اور وہ ہرسال پابندی سے قربانی کرتا بھی رہا ہے مگر اس سال کسی مجبوری کی وجہ سے بر وقت قربانی نہیں کرسکا اور قربانی کے ایام ختم ہوگئے تو اب اس کے لئے کیا حکم ہے؟ کیا ایام قربانی کے بعد جانور خرید کر اس کی قربانی کرنے سے قربانی کا فرض پورا ہو جائے گا یا پھر اگلے سال اس کی قضا کرے؟ حسن حسین، پٹنہ
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق:قربانی کا جو حکم ہے وہ ایام قربانی کے ساتھ خاص ہے۔ قربانی کے مخصوص ایام گزرجانے کے بعد اس کی قضا نہ درمیانِ سال ہے نہ آئندہ سال۔ اسے سمجھنے کیلئے ان روایات کے الفاط پر غور کرلینا کافی ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ قربانی کے دنوں میں اللہ کے نزدیک کوئی عمل قربانی سے زیادہ محبوب نہیں ہے لہٰذا جو شخص کسی مجبوری کی وجہ سے وقت پر قربانی نہیں کرسکا اسکے لئے حکم یہ ہے کہ ایک متوسط بکرے یا بکری کی قیمت غریبوں کو دے دے، یہی اس کی قضا ہے۔ و اللہ اعلم وعلمہ اتم
(۳)ایک شخص نے قربانی کا جانور خریدا اور کچھ رقم اپنے ذمے ادھار رکھی اور مالک جانور راضی تھا۔ کیا یہ قربانی ہوگئی؟ الف۔ ر، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق:جو شخص مالک نصاب ہو شرعاً قربانی اسی پر واجب ہوگی، جو مالک نصاب نہ ہو تونہ اس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے نہ قربانی لہٰذا جو شخص مالک نصاب نہیں اسے ادھار جانور خرید کر قربانی کرنے کی ضرورت ہی نہیں لیکن مالدار جس پر قربانی فرض ہے اسے بہر صورت قربانی کرنا ضروری ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ نقد خریداری کرے تاہم اگر سردست کسی وجہ سے رقم کا انتظام نہ ہو سکے تو ادھار بھی خرید سکتا ہے (علماء نے اس موقع پر یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ واقعی نقد رقم پاس نہ ہو، ادھار خریدتے وقت یہ نیت ہو کہ پہلی فرصت میں ادائیگی کردےگا اور جانور کا مالک بطیب خاطر ادھار دینے پر رضامند ہو) ادھار خریداری کی صورت میں بھی خریدنے والا جانور کا مالک بن جائے گا اس لئے قربانی درست ہوگی بلکہ اگر غیر مالک نصاب بھی ادھار خرید کر قربانی کردے تو اس کی طرف سے بھی قربانی معتبرہوگی مگر اس کے لئے یہ صورت بہتر نہیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
وقت سے پہلے اذان
آج کل کا عشاء کی اذان کا اول وقت نو بجکر دو منٹ پر جنتری میں دیا ہوا ہے، اب اگر کوئی آدمی اس وقت تک اذان مکمل کردے تو کیا اذان ہوجائے گی اور نماز کا کیا ہوگا؟ نماز ہوگی یا نہیں جبکہ صحیح نو بجکر پانچ یا چھ منٹ پر اذان ہونی چاہئے۔ یہ وقت سے پہلے اذان پڑھی گئی تو اس میں اذان اور نماز کا کیا حکم ہے؟ محمد فرمان، کانسے پوری
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: جہاں تک صورت مسئولہ میں نماز کے صحیح ہونے نہ ہونے کا سوال ہے تو اگر اذان کسی نے وقت سے پہلے دے دی نماز اس صورت میں بھی ہو جائیگی حتیٰ کہ اگر کسی سبب کبھی اذان ہی نہ ہوسکے نماز تب بھی ہو جائیگی۔ رہا اذان کا مسئلہ تو اذان بھی وقت پر دی جانی چاہئے لیکن اوقات نماز کے بیان میں تفصیل اور اسی وجہ سے توسع بھی ہے۔ حضرت جبریل نے دو الگ الگ دنوں میں قدرے تقدیم و تاخیر کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ احناف و شوافع کے یہاں جو تفاوت نظر آتا ہے اس کی بنیاد یہی روایت ہے لیکن اس باب میں توسع کی بناء پر پہلے اذان ہوجائے لیکن شوافع کا وقت داخل ہوچکا ہو تو گنجائش ہے کہ اسکے بعد نماز ادا کرلی جائے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
زکوٰۃ کا مسئلہ
ایک شخص کے پاس ۸۴۲؍گرام چاندی ہے، اس کے ذمے زکوٰۃ کتنی ہوگی؟ قطب عالم، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: جو شخص چھ سو ساڑھے بارہ گرام چاندی یا (حوائج اصلیہ سے زائد) قیمت کا مالک یا قرض سے پاک ہو، اس کے پاس بقدر نصاب مال تجارت ہو تو شرعاً وہ صاحب نصاب کہلاتا ہے نیز حوائج اصلیہ سے زائد ہو اور قرض بھی نہ ہو تو اس مال پر سال گزرجانے کے ساتھ ہی اس پر زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہوجاتی ہے جو کہ چالیسوااں حصہ ہے لہٰذا صورت مسئولہ کے مطابق جس کے پاس ۸۴۲؍گرام چاندی ہو وہ اس کا چالیسواں حصہ خود چاندی یا اس کی قیمت بطور زکوٰۃ مستحقین کو دے گا۔ ۸۴۰؍گرام کا چالیسواں حصہ ۲۱؍گرام ہوتا ہے، دوگرام کا چالیسواں حصہ بھی شامل کرلیں یہ اس کی زکوٰۃ ہوگی، واللہ اعلم وعلمہ اتم