دنیا میں ایسے بہت سے علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا، بام عروج تک پہنچا اور پھر مائل بہ انحطاط ہوکر ڈوب گیا۔
EPAPER
Updated: June 20, 2025, 5:17 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
دنیا میں ایسے بہت سے علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا، بام عروج تک پہنچا اور پھر مائل بہ انحطاط ہوکر ڈوب گیا۔
دنیا میں ایسے بہت سے علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا، بام عروج تک پہنچا اور پھر مائل بہ انحطاط ہوکر ڈوب گیا۔ ایشیاء اور یورپ میں متعدد ممالک ہیں جہاں یہ کیفیت پیش آئی او راس میں شبہ نہیں کہ یہ ہماری شامت ِ اعمال اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ عام طورپر جن ملکوں میں مسلمان ان حالات سے دوچار ہوئے، وہاں اسلامی تہذیب کا چراغ یا تو ہمیشہ کے لئے بجھ گیا، یا اس کی لو ایسی مدھم ہوئی کہ وہ نہ ہونے کے درجہ میں ہے، وہاں لوگ اسلامی تعلیمات اور اپنے مذہبی تشخصات سے ایسے محروم ہوئے کہ ان کے دلوں سے احساس زیاں بھی جاتا رہا۔ انہوں نے کلی طورپر مادیت کے سامنے اپنی پیشانی خم کردی۔ اسپین، مغربی اور مشرقی یورپ کے بعض علاقے اور روس یا چین کے مسلم اکثریتی صوبے اس کی واضح مثال ہیں۔ اسپین تو اس کی بدترین مثال ہے، جو کسی زمانہ میں علم و فن اور تہذیب و تمدن کا دارالخلافہ تھا اور عالم اسلام میں اس کی حیثیت کسی تاجِ گہر بار سے کم نہیں تھی؛ لیکن جب مسلمانوں کا تخت اقتدار پاش پاش ہوا تو اسلامی ثقافت کے تمام ہی نقوش نے وہاں سے رخت ِسفر باندھا اور چند بے جان و بے روح عمارتوں کے سوا، جو قصۂ ماضی پر نوحہ کناں تھیں ، ان کی کوئی اور شناخت وہاں باقی نہیں رہی۔
ہندوستان کا معاملہ یقیناً اس سے مختلف ہے، یہاں یوں تو اسلام ابتدائی عہد میں ہی آچکا تھا اور تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے دور میں ہی ہند وستان کے ساحلی علاقوں تک اسلام کی روشنی پہنچ چکی تھی؛ لیکن اگر مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کی تاریخ بھی دیکھی جائے تو انہوں نے کم و بیش آٹھ سو سال حکومت کی، اس عہد کو سماجی ارتقاء اور فلاحی اعتبار سے ہندوستان کا ’’ عہد ِ زریں ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ اتنی طویل دَور میں مسلمانوں نے سیاسی اور عسکری مہم جوئی پر جتنی توجہ کی، اسلام کی دعوت و تبلیغ پر اس کا عشر عشیر بھی توجہ نہیں کی۔ یہ اُس وقت کے مقتدر مسلمانوں کی ایسی کوتاہی ہے کہ شاید ہی اس کا کوئی کفارہ ہوسکے۔
تاہم یہ ضرور ہے کہ مسلمانوں نے تخت و تاج سے محروم ہونے کے باوجود اس ملک میں اپنی شناخت کو باقی رکھا ؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں اپنے مذہب سے جس درجہ کی وابستگی ہے، مشکل سے کوئی قوم ایسی ہے جو اپنے مذہب سے اس درجہ وابستہ ہو۔ اس گئی گزری حالت میں بھی مسجد کی آبادی اور رمضان المبارک کے اہتمام کو دیکھئے، زکوٰۃ و انفاق اور کثیر صرفہ کے باوجود حج و عمرہ کی ادائیگی کو سامنے رکھئے اور نکاح و طلاق وغیرہ کے مسائل میں قانون شریعت کے احترام پر نظر کیجئے تو بمقابلہ مسلمانوں کے دوسری اقوام میں ایک فیصد بھی اس درجہ کا اہتمام نہیں ملے گا۔ کسی اور قوم میں افتاء اور قضاء کے ادارے نہیں ہیں، جہاں لوگ اپنے معاملات، کاروبار اور نجی زندگی کی بابت بھی درست و نادرست اور حلال و حرام کی بابت استفسار کرتے ہوں، یہ بہرحال ہندوستان کے مسلمانوں کی اہم خصوصیت ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو اسلام سے مربوط رکھا ہے۔
ہندوستان اور دوسرے ممالک کے تئیں یہ فرق کیوں ہے؟ گزشتہ ایک صدی میں جو اسلامی تحریکات اُٹھی ہیں اور تحریکی شخصیتوں نے جنم لیا ہے، زیادہ تر ان کا منبع و سرچشمہ ہندوستان ہی ہے؛ اس لئے یہ اہم سوال ہے جو سوچنے والوں کو متوجہ کرتا ہے۔ اگر غور کیا جائے اور حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھا جائے تو اس کا جواب ایک ہی ہے اور وہ ہے دینی مدارس کا نظام! ہندوستان پر جوں ہی انگریزوں کو غلبہ حاصل ہوا اور اسلام کے خلاف سیاسی اورتبلیغی کوششیں شروع ہوئیں، تخت و تاج سے بے نیاز اور حکومت و اقتدار کی حرص سے آزاد دردمند اور بلند نگاہ علماء کے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ صرف منفی کوششوں سے اس طوفان کا مقابلہ ممکن نہیں، اب اسلام کی حفاظت و بقاء کیلئے مثبت تدبیر مطلوب ہے اور اس تدبیر کو انہوں نے سرکاری مداخلت سے آزاد ایسے دینی تعلیم کے نظام کی صورت میں دریافت کیا جو غریب سے غریب مسلمانوں کے گھر میں بھی علم کی شمع جلاسکے اورہر کچے گھر میں دینی تعلیم کی شعاعیں پہنچ سکیں ۔
ہمارے بزرگوں نے مدارس کے اس نظام کو نہایت ہی معمولی اور سادہ حالت میں رکھا، معمولی عمارتیں جو نگاہوں میں چبھتی نہیں ہیں، کم تنخواہ پانے والے مدرسین و خدام جو سیدھی سادی زندگی بسر کرتے ہیں، فقیرانہ لباس میں ملبوس طلبہ جن کا سراپا ان کی سادگی اور درویشی پر گواہ ہے، یہ دانش کدے اور ادارے مستقل اور قابل بھروسہ مالی وسائل سے محروم عام مسلمانوں سے دو دو چار چار پیسے کی مدد ہی ان کا توشۂ سفر، مدارس کی یہ سادگی ایسی تھی کہ لوگ اس کی طرف مڑ کر دیکھتے بھی نہیں تھے اور سوچتے تھے کہ خس پوش جھونپڑیوں میں رہنے والے بوریہ نشیں اور دنیا کی لذتوں سے محروم اور نابلد لوگ کرہی کیا سکتے ہیں ؟ شعراء اور نئی روشنی کے لوگ تو ان کی تحقیر سے بھی نہیں چوکتے تھے اور ان کو ’’ تنگ نظر ملا ‘‘ اور ’’دو رکعت کا امام ‘‘ جیسے الفاظ سے یاد کرتے تھے۔
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان ہی درویش مزاج ملاؤں نے اس ملک میں اسلام کے پودے کی حفاظت کی ہے، انہوں نے عہد بہار سے کوئی صلہ نہیں کمایا لیکن عہد خزاں میں اپنے خونِ جگر سے سینچ کر اسلام کے شجر طوبیٰ کو بچایا، اسلامی تہذیب و ثقافت کا تحفظ کیا اور مسلمانوں کا اپنے دین اور مذہب سے نہ صرف رشتہ باقی رکھا؛ بلکہ اس رشتہ کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان میں اسلام سے وابستگی کی جڑیں جتنی گہری ہیں اور لوگوں کے مزاج میں جتنی زیادہ مذہبیت ہے، عالم اسلام میں بھی کم ہی اس کی مثالیں مل سکیں گی۔ اس عجمی نژاد ملک میں علوم اسلامی کی جو خدمت ہوئی ہے، اس کی مثال بہت سے عرب اور مسلم ممالک میں بھی نہیں مل پائے گی۔ حکومت ختم ہونے کے باوجود لوگوں کے دینی رجحان میں جو اضافہ ہوا، اس میں بنیادی کردار مدارس ہی کا ہے۔ گزشتہ تقریباً ڈیڑھ صدی میں جو بھی تحریک یا جماعت اُٹھی ہے اور اسلام کی حفاظت یا اشاعت کا جو کچھ بھی کام ہواہے، اس میں ان مدارس اور مدارس سے پیدا ہونے والی شخصیتوں کا بڑا حصہ ہے۔ مدارس کی یہ اہمیت جو اس کی ظاہری خستہ سامانی اور سادگی کی وجہ سے محسوس نہیں کی جاتی تھی، اب دوست اور دشمن سب اس کو محسوس کرنے لگے ہیں ۔
ہندوستان میں گزشتہ پچاس سال سے فرقہ پرستوں کی کوشش ہے کہ مسلمان فکری اورتہذیبی اعتبار سے اکثریت کے ساتھ ضم ہوجائیں، جس چیز کو آج ’’ ہندو توا ‘‘ کہا جاتا ہے، اسی مقصد کے لئے ایک زمانہ میں ایسی سیاسی جماعتیں جو اپنے آپ کو سیکولر کہا کرتی تھیں، بار بار مسلمانوں کو قومی دھارے میں شامل ہوجانے کی تلقین کیا کرتی تھیں اور بھارتیہ کرن کا نعرہ لگاتی تھیں۔ اس دعوت کا مقصد بھی اصل میں یہی تھا کہ اب مسلمان اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت سے آزاد ہوجائیں اور دوسری قوموں کی طرح زیادہ سے زیادہ چند مذہبی رسوم کی ادائیگی پر اکتفاء کرلیں۔ ان نامسعود کوششوں کی ناکامی کا سہرا دینی مدارس کے سر جاتا ہے۔ اس حقیقت کو اربابِ اقتدار نے بھی محسوس کرلیا ہے اسلئے دینی مدارس فرقہ پرست طاقتوں کا نشانہ ہیں ۔ کبھی ان مدارس کو آئی ایس آئی کا مرکز قرار دیا جاتا ہے، کبھی ان پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے اور کبھی افغانستان کے طالبان سے ان کا رشتہ جوڑا جاتا ہے۔ یہ محض اپنے اندرونی عناد کو چھپانے کیلئے ایک بہانہ ہے، حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔
کسی طبقہ میں دہشت گردی پیدا ہونے کے عام طورپر تین اسباب ہوتے ہیں، ایک یہ کہ ان کو ایسی تعلیم دی جائے جو دوسروں سے نفرت پر اُبھارتی ہو، دوسرے تعلیمی نصاب میں ایسی باتیں شامل نہ ہوں لیکن تربیت ان ہی خطوط پر کی جاتی ہو، تیسرے تعلیم و تربیت کے نظام میں تو ایسے محرکات نہ ہوں ؛ لیکن آدمی جس ماحول میں رہتا ہو ان میں جرائم اور دہشت گردی کا ماحول پایا جاتا ہو۔ دینی مدارس کا معاملہ بالکل مختلف ہے، یہاں جو مضامین پڑھائے جاتے ہیں وہ شروع سے اخیر تک انسانیت اور انسانی محبت پر مبنی ہیں، ان کا چوبیس گھنٹے کا تربیتی نظام ایثار اور تواضع کی عملی تصویر ہے، ان کے ماحول میں جرائم پیشہ عناصر کا گزر نہیں ؛ اس لئے مدارس پر عمومی انداز سے دہشت گردی کا الزام لگانا سفید جھوٹ سے کم نہیں ۔
ہندوستان میں دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات پیش آچکے ہیں، گاندھی جی کا قتل ناحق ہوچکا ہے، پھر اندراگاندھی کا قتل ہوا، راجیوگاندھی قتل کئے گئے، بابری مسجد کی شہادت کا اندوہ ناک واقعہ پیش آیا جس کو سابق صدر آر کے نارائنن نے گاندھی جی کے قتل کے بعد سب سے تکلیف دہ واقعہ قرار دیا تھا، میرٹھ، بھاگلپور اور مختلف علاقوں میں خود محافظ دستہ کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کے واقعات پیش آئے، ۱۹۸۴ء میں علانیہ سکھوں کا قتل عام ہوا، یہی تو دہشت گردی کے واقعات ہیں ، یہ واقعات کن لوگوں کے ہاتھوں پیش آئے؟ کیا دینی مدارس کے اساتذہ اور طلباء کے ہاتھوں ؟ یا عام مسلمانوں کے ہاتھوں …؟
یہ محض مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے، دینی مدارس کے تئیں غلط فہمیاں پھیلانے کا ایک حربہ اور بالواسطہ طریقہ پر مسلمانوں کو ان کی شناخت سے محروم کرنے کے طویل المدت پروگرام کا ایک حصہ ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلمان غور و فکر کریں، حال کو حال کی نظر سے اور پھر حال کو ماضی کے حقائق کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کریں، پورے شعور کے ساتھ مدارس کے خلاف جاری پروپیگنڈہ کا مقابلہ کریں اور ازخود اس نتیجے تک پہنچیں کہ وطن عزیز میں ملت اسلامیہ کو اپنے دینی عقائد کو جاننے اور اُن پر قائم رہنے، اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کروانے اور دینی جوابدہی کی فکر کے ساتھ زندگی گزارنے کا احساس اُن کے اندر کس نے پیدا کیا۔ کیا یہ دینی مدارس کا کارنامہ نہیں ہے جو آج بھی جاری و ساری ہیں مگر وقت کے ساتھ اُن کے محدود وسائل محدود تر ہوتے جارہے ہیں ؟ لازم ہے کہ مسلمان اپنے ان دینی قلعوں کا تحفظ پہلے سے بڑھ کر کریں۔