کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ اگر ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان بے لگام اینکروں کی زبان بند کر سکیں تو ہم اس پوزیشن میں تو ضرور ہیں کہ خود کو ان سے دور رکھیں۔
EPAPER
Updated: September 21, 2023, 6:41 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai
کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ اگر ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان بے لگام اینکروں کی زبان بند کر سکیں تو ہم اس پوزیشن میں تو ضرور ہیں کہ خود کو ان سے دور رکھیں۔
حال ہی میں اپوزیشن اتحاد’’انڈیا‘‘ کے ذریعہ ملک کے چودہ برقی میڈیا اینکروں کے پروگراموں میں اتحاد کے نمائندوں کو شامل نہیں ہونے کا اعلامیہ جاری کیا گیاہے اور اس کی وجہ بھی بتائی گئی ہے کہ ان اینکروں کے ذریعہ ملک کی قومی آہنگی کو خسارۂ پہنچایا جا رہا ہے ساتھ ہی ساتھ جمہوری اقدار اور صحافتی دیانتداری سے چشم پوشی کرتے ہوئے فرقہ واریت ونفرت انگیز ی کو فروغ دیا جا رہاہے۔جس دن سے یہ اعلامیہ جاری ہوا ہے اسی دن سے نہ صرف ملک میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر اس بائیکاٹ پر بحث ومباحثہ شروع ہے۔ایک طبقہ اپوزیشن کے اس فیصلے کو آزادیٔ اظہارِ رائے پر قدغن لگانے کی بات کہہ رہاہے تو دوسرا طبقہ اپوزیشن کے ذریعہ تاخیر سے لیا گیا درست فیصلہ قرار دے رہا ہے۔ظاہر ہے کہ ایک جمہوری ملک میں صحافت کو چوتھا ستون قرار دیا جا تا ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہماری صحافت کی ایک مثالی تاریخ ہے کہ صحافیوں نے ملک وقوم کیلئے اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی اور دورِ غلامی میں نہ جانے کتنے صحافی انگریزی حکومت کے عتاب کو سہتے ہوئے اذیت ناک صعوبتوں کو جھیلتے رہے اور سلاخوں کے پیچھے تاریک کوٹھریوں میں زندگی بسر کرتے رہے مگر صحافتی اصولوں کو پامال نہیں ہونے دیا۔ مگر افسوس صد افسوس کہ حالیہ دو دہائیوں میں ہماری مثالی صحافتی تاریخ کے اوراق داغدار ہوتے جا رہے ہیں۔ آج عالمی میڈیا رینکنگ میں ۱۸۰؍ ممالک کی فہرست میں وطن عزیز ہندوستان کی میڈیا ۱۶۱؍ویں پائیدان پہ ہے اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی نگاہوں میں ہمارے ملک کی میڈیا کا اعتبار ووقار کیا ہے۔بالخصوص حالیہ دہائی میں ہماری قومی میڈیا جس پستی کا شکار ہوئی ہے وہ جگ ظاہر ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اپوزیشن اتحاد نے جن چودہ اینکروں کی فہرست جاری کی ہے اس کے علاوہ دیگر اینکروں کے ذریعہ صحافتی تقاضوں کو پورا کیا جا رہا ہے۔ تلخ سچائی تو یہ ہے کہ برقی چینلوں میں محض چند ایسے صحافی ہیں جو صحافتی اصول وضوابط کے پابند نظر آتے ہیں اور ایسے بیشترصحافیوں نے چینلوں کو مجبوراً خیر باد بھی کہہ دیا ہے۔ دراصل جن اینکروں کی فہرست جاری کی گئی ہے ان میں بیشتر ایک خاص نظریے کے مبلغ ہیں اور انہیں چینلوں کے مالکان کے ذریعہ بھی یہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ خاص نظریے کو فروغ دیں ورنہ ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچانے والے ان اینکر وں کی یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ ملک کے آئین کی دھجیاں اڑائیں۔چونکہ ان کے سر پر ایک بڑا ہاتھ ہے اور پھر انہیں یہی سب کرنے کی ہدایت ہے تو پھر وہ کریں بھی تو کیا کریں۔ان اینکروں پر مبینہ طورپر ضمیر فروشی کے الزامات لگتے رہے ہیں لیکن اس کی انہیں کوئی پروا نہیں ہے کہ یہ سب تو طے شدہ ایجنڈوں پر کام کر رہے ہیں۔یہاں اس حقیقت کا اعتراف کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے کہ ملک کی میڈیا میں یہ پستی یکایک آئی ہے، اس کا آغاز نوے کی دہائی میں ہی ہو گیا تھا مگر اس وقت برقی میڈیا اتنی با اثر نہیں تھی اور پرنٹ میڈیا میں شاذ ونادر ایسے صحافی تھے جو حکمراں جماعت سے اپنی قربت کو مالی منفعت کا ذریعہ سمجھتے تھے اور وہ حکمراں جماعت کی ناکامیوں کو عوام کے سامنے پیش کرنے سے گریز کرتے تھے اور اس کی ایک بڑی مثال مراد آباد کا فرقہ وارانہ فساد ہے کہ جب اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ وی پی سنگھ تھے عید کے دن مراد آباد میں ایک سازش کے تحت فساد ہوا تھا لیکن اس وقت کے اخباروں میں اس کیلئے مسلم فرقے کو ہی قصوروار ٹھہرایا گیا تھا اور وہاں کی حقیقت کو بلیک آئوٹ کیا گیا تھا۔بہار میں بھی جب نکسلی قہر برپا کرتے تھے اور دلتوں کی بستی ویران ہو جاتی تھی تو اس وقت بھی اخباروں میں حقیقت چھپانے کی کوشش ہوتی تھی۔ مگر اس وقت چونکہ ضمیر فروش صحافیوں کی تعداد محض انگلیوں پر گنی جانے والی تھی اس لئے لاکھ کوششوں کے بعد بھی صحافتی معیار ووقار بچا ہوا تھا۔ لیکن آج اس کے بر عکس ضمیر فروش صحافیوں کی اکثریت ہے اس لئے ہماری صحافت روز بروز پستی کی شکار ہوتی جا رہی ہے۔اس لئے دو دہائی قبل بھی بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے اپنے عوامی جلسوں میں یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ ہمارے جو حمایتی ہیں وہ اخبار پڑھنا اور ٹیلی ویژن دیکھنا چھوڑ دیں۔ظاہر ہے کہ لالو پرساد اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ میڈیا پرکون طبقہ قابض ہے اور کس طرح کی گمرہی پھیلا رہا ہے اور اس وقت لالو یادوکے حامیوں کے ذریعہ مہم بھی چلائی گئی تھی جس کا خاطر خواہ فائدہ بھی ان کی پارٹی کو ملا تھا۔
بہر کیف! اب جب کہ اپوزیشن اتحاد نے مبینہ نفرت پھیلانے والے اینکروں سے خود کو دور رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تو حکمراں جماعت کی جانب سے بھی طرح طرح کے تبصرے ہو رہے ہیں۔ کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے تو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ہمارا یہ فیصلہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کے ترکِ موالات کے اصول کی پابندی ہے کہ اگر ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان اینکروں کی زبان بند کرسکیں تو ہم اس پوزیشن میں تو ضرور ہیں کہ خود کو ان سے دور رکھیں۔بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بھی اپوزیشن اتحاد کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنا موقف ظاہر کیا ہے کہ یہ اینکر اس وقت غلام ہیں اور جب یہ آزاد ہوں گے تو پھر یہ سب صحافتی تقاضوں کو شاید پورا کرسکیں گے۔نتیش کمار کا یہ طنزیہ اشارہ کس کی طرف ہے یہ اظہر من الشمس ہے۔ میرے خیال میں اپوزیشن اتحاد کو لالو پرساد یادو کی طرح اپنے حامیوں کے درمیان ایک مہم کے تحت اپنی بات پہنچانی چاہئے۔ آج قومی میڈیا ملک کے بڑے بڑے صنعتی گھرانوں کے ہاتھوں کی کٹھ پُتلی بن گیا ہے اور وہ اپنے ٹی آر پی میں اضافہ کرنے اور حکمراں جماعت سے مالی منفعت حاصل کرنے کیلئے اپنے چینلوں پر گمراہ کن او رشر انگیز پروگراموں کے ذریعے ملک کے جمہوری اقدار کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں اس لئے ان چینلوں سے دور رہنے کی ضرورت ہے اگر یہ مہم کامیاب ہوتی ہے تو اس کا اثر شاید اس فیصلے سے کہیں زیادہ ہوگا کہ صرف چودہ اینکروں سے پرہیز کرنے کی بات کی گئی ہے کیونکہ آج بھی ملک میں تقریباً ۶۳؍فیصد رائے دہندگان موجودہ حکومت کے خلاف ہیں۔ گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں اس جماعت کو ۳۷؍ فیصد ووٹ ہی حاصل ہوئے ہیں اس لئے اگر اپوزیشن اتحاد کے ۶۳؍فیصد ووٹرس ان چینلوں سے خود کو الگ کرلیں تو پھر خود بخود ان چینلوں کے انتظامیہ کے ساتھ ساتھ اینکروں کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے کہ سب کھیل ٹی آر پی بڑھانے کا ہے اور ایک خاص ایجنڈے کو فروغ دینے کا ہے۔اس لئے اپوزیشن اتحاد کو اپنے فیصلے پر قائم رہتے ہوئے عوام میں بیداری مہم چلانے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کی سالمیت کیلئے ایسا کیا جانا ہی ضروری ہے۔