Inquilab Logo Happiest Places to Work

یہ کھیل کب تک؟

Updated: June 28, 2024, 1:47 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

دورِ حاضر میں حقوق انسانی پر ہر سطح کی بحث کے باوجود عالم یہ ہے کہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی ہر جگہ ہورہی ہے، کہیں کم کہیں زیادہ، کہیں خلاف ورزی سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب کیا جارہا ہے اور کہیں اسے خلاف ورزی ماننے ہی سے انکار کردیا جاتا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

دورِ حاضر میں  حقوق انسانی پر ہر سطح کی بحث کے باوجود عالم یہ ہے کہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی ہر جگہ ہورہی ہے، کہیں  کم کہیں  زیادہ، کہیں  خلاف ورزی سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب کیا جارہا ہے اور کہیں  اسے خلاف ورزی ماننے ہی سے انکار کردیا جاتا ہے۔ دور نہ جاتے ہوئے وطن عزیز میں ، اپنے ہی آس پاس کی دُنیا کا جائزہ لے لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ وہ شخص یا خاندان جو سڑک کے کنارے چار کھمبے اور اُن پر پلاسٹک کی چادر تان کر اپنے اور بال بچوں  کی رہائش کا انتظام کرتا ہے اُس کے بارے میں  ہم کبھی نہیں  سوچتے کہ قاعدہ کا مسکن اُس کا حق ہے جو اُسے نہیں  مل رہا ہے۔ ایسے شخص یا خاندان کے قریب سے لوگ گزر جاتے ہیں ، اس پر حقوق کی خلاف ورزی کے نقطۂ نظر سے غور نہیں  کرتے۔ 
 اکثر شہروں  میں  بالخصوص بارش کے موسم سے پہلے اور بارش کے دِنوں  میں  بھی  جھگی جھوپڑیوں  کو مسمار کیا جاتاہے۔ کہیں  درجنوں ، کہیں  سیکڑوں  اور کہیں  ہزاروں  جھگی جھوپڑیوں  کو زمیں  بوس کردینا معمول ہے۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے (جو کچھ غلط بھی نہیں  ) کہ ان کی وجہ سے برساتی پانی کی نکاسی میں  خلل پڑتا ہے جس کے نتیجے میں  سڑکیں  جل تھل ہوجاتی ہیں ، موٹر گاڑیوں  اور راہ گیروں  کی آمدورفت متاثر ہوتی ہے، آس پاس کی کالونیوں  اور بستیوں  میں  سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہےاور شہری سرگرمیوں  کے ٹھپ پڑ جانے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔بلاشبہ ، آمد و رفت کے مسائل پیدا کرنے والی کسی بھی شے سے نمٹنا ازحد ضروری اور شہری حکام کی ذمہ داری ہے مگر جہاں  تک جھگی جھوپڑیو ں کا تعلق ہے، اس سلسلے میں  دو باتوں  پر غور کیا جانا چاہئے۔ (۱) کیا اُن میں  رہنے والے اپنے پختہ مکانوں  کو چھوڑ کر محض سڑ ک کے کنارے آباد ہونے کے شوق میں  وہاں  پہنچے اور جھوپڑی بنالی یا اُنہیں  رہائش کا حق نہیں  ملا اسلئے وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوئے؟ (۲) جب وہ وہاں  بسنے کی تیاری کررہے تھے تب اُنہیں  کیوں  نہیں  روکا گیا اور شہری انتظامیہ تب کیا کررہا تھا؟ 
 اِن دو سوالوں  کے جوابات سے کوئی بھی لاعلم نہیں  ہے۔ جس کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں  ہوتی وہی جھوپڑی بساتا اور اس میں  سر چھپاتا ہے۔ دوسرے سوال کا جواب بھی بہت آسان ہے کہ جب جھوپڑیاں  بسنے جارہی ہوتی ہیں  تب شہری انتظامیہ آنکھیں  بند کئے رہتا ہے۔ وہ ایسا کیوں  کرتا ہے اس کی وجہ بھی ہر خاص و عام پر واضح ہے۔ ہر سال موسم باراں  سے پہلے یا اس کے دوران انہدامی کارروائیوں  کا ’’فرض‘‘ ادا کرنے والوں  کو ان دو سوالوں  کا جواب دینا چاہئے۔ 
 جہاں  تک سر چھپانے کی جگہ کے انسانی حق کا سوال ہے، حکومت کی ’’آواس یوجناؤں ‘‘ کے دھوم سے جاری رہنے کے باوجود اگر ملک کے لاکھوں  غریب شہری  قاعدہ کی ایک چھت سے محروم رہتے ہیں  تو اس کا مطلب یہ کہ حکومت اتنے مکانات نہیں  بناتی جتنے کہ درکار ہوتے ہیں ۔ یہ پالیسی کا نقص ہے اور جب تک بے داغ پالیسیاں  نہیں  بنائی جائینگی، یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں  ہے۔ جہاں  تک جھوپڑی بنتے وقت روکنے کی بات ہے، یہ بدعنوانی کا ایسا موضوع ہے جس میں  کافی مسالہ موجود ہے۔ اس پردۂ زنگاری میں  کون کون ہے یہ جاننا لطف سے خالی نہیں  ہوگا مگر سوال اُن بے چاروں  کا ہے جو مٹھیاں  گرم کرکے اپنے لئے رہائش کا انتظام کرتے ہیں ، اُنہیں  ’’آشواسن‘‘ بھی دیا جاتا ہے مگر جب ’’اوپر سے آرڈر‘‘ آجاتا ہے تو اُن کی ایک نہیں  سنی جاتی۔ یہ کھیل برسوں  سے جاری ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK