واٹر ٹیکس اور نکاسیٔ آب کے نئے ٹیکس نافذ، انتظامیہ کو کروڑوں روپے کی آمدنی متوقع۔
EPAPER
Updated: May 19, 2025, 11:58 AM IST | Khan Abdul Qayyum Ansari | Bhiwandi
واٹر ٹیکس اور نکاسیٔ آب کے نئے ٹیکس نافذ، انتظامیہ کو کروڑوں روپے کی آمدنی متوقع۔
میونسپل کارپوریشن نے شہریوں پر معاشی دباؤ بڑھاتے ہوئے موجودہ مالی سال کے آغاز میں پراپرٹی ٹیکس میں نمایاں اضافہ کردیا ہے۔ کارپوریشن نے رہائشی اور غیر رہائشی جائیدادوں پر ’جل لابھ کر‘ (پانی سے متعلق ٹیکس) اور `مل لابھ کر‘ (نکاسیٔ آب سے متعلق ٹیکس) کے نفاذ کے ساتھ ٹیکس شرح میں ۱۸؍تا ۲۳؍ فیصد تک کا بھاری اضافہ کیا ہے۔اس اضافہ سے شہریوں کی جانب سے شدید ناراضی اور احتجاج سامنے آ رہا ہے۔ میونسپل ذرائع کے مطابق رہائشی مکانات پر ۱؍ فیصد’ جل لابھ کر‘ اور ۸؍ فیصد ’مل لابھ کر‘ نافذ کیا گیا ہے، جبکہ غیر رہائشی املاک پر یہ شرح بالترتیب ۱۵؍اور ۸؍ فیصد ہے، یعنی کُل ۲۳؍ فیصد اضافہ۔ یہ اضافہ پانی کی فراہمی اور سیوریج نظام کو بہتر بنانے کے نام پر کیا گیا ہے، تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔
شہری حلقوں میں اس فیصلے کے خلاف شدید ردعمل پایا جا رہا ہے۔ اشوک نگر کی پربھوکُنج سوسائٹی کے رہائشی بھاسکر پاٹل نے بتایا کہ ان کی بلڈنگ میں صرف آدھے گھنٹے کے لئے کم دباؤ سے پانی آتا ہے، جس کے باعث مکینوں کو مہنگے داموں پرائیویٹ ٹینکروں سے پانی خریدنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا’’جب پانی کی بنیادی سہولت ہی دستیاب نہیں ہے تو اس پر ٹیکس کس بات کا؟ یہ شہریوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔‘‘
سماجی کارکن جینتی پالریچا نے بھی ٹیکس میں اچانک اضافے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ان کے فلیٹس پر ٹیکس تقریباً ۳۰؍فیصد بڑھا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا’’جب نہ پانی ہے، نہ صفائی، نہ سڑکیںتو پھر یہ ٹیکس کس خدمت کا ہے؟ یہ عوام کا معاشی استحصال ہے اور ہم اس فیصلے کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔"
معاملے پر سیاسی سطح پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ مشرقی حلقہ کے رکن اسمبلی رئیس شیخ نے کہا کہ ’’کارپوریشن نے اتنا بڑا فیصلہ لیتے وقت نہ تو مقامی ممبران اسمبلی کو اعتماد میں لیا اور نہ ہی رکن پارلیمان کو۔ یہ سراسر جمہوری روایات کے خلاف ہے اور عوام کے ساتھ ناانصافی ہے۔‘‘ سابق کارپوریٹر شاف الطاف مومن کا کہنا ہے کہ جب تک بنیادی سہولیات صاف پانی، نکاسیٔ آب اور سڑکوں کی مرمت جیسے مسائل حل نہیں ہو رہے، ایسے میں ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانا ظالمانہ اقدام ہے۔
سابق کارپوریٹر اور کارپوریشن میں کانگریس کے سابق گروپ لیڈر شکیل انصاری(پاپا) ،پرویز مومن، داؤد ابراہیم انصاری وعوامی حلقوں نے میونسپل کمشنر انمول ساگر سے مطالبہ کیا ہے کہ اس فیصلے کو فوری طور پر واپس لیا جائے، ورنہ بڑے پیمانے پر احتجاج کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔