Inquilab Logo Happiest Places to Work

آگے آگے ایک ہیولا پیچھے پیچھے دُنیا ہے!

Updated: August 02, 2025, 1:26 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

اس وقت ’’ٹیرف‘‘ سکہ ٔ رائج الوقت ہے۔ ٹیرف کیا ہے؟’’دوبارہ عظیم‘‘ بننے کی کنجی۔ دوبارہ عظیم بننے کا معنی؟ عالمی وسائل پر اپنا براہ راست یا بالواسطہ قبضہ۔ سرمایہ داری کا یہ مزاج ہر دَور میں رہا اور کبھی نہیں بدلا۔ طریقہ و انداز بھلے ہی بدلتا ہو۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

اختر الایمان بہت اچھے فلم نویس اور مکالمہ نگار تھے مگر اُن کا اصل میدان شاعری اور شاعری میں  بھی نظم گوئی تھا۔ اُنہی کی ایک نظم ہے: 
’’اس بھرے شہر میں  کوئی ایسا نہیں / جو مجھے راہ چلتے کو پہچان لے / اور آواز دے او بے، او سرپھرے / دونوں  اک دوسرے سے لپٹ کر وہیں  /  گرد و پیش اور ماحول کو بھول کر / گالیاں  دیں ، ہنسیں ، ہاتھاپائی کریں / پاس کے پیڑ کی چھاؤں  میں  بیٹھ کر/ گھنٹوں  اک دوسرے کی سنیں  اور کہیں /  اور اس نیک روحوں  کے بازار میں / میری یہ قیمتی، بے بہا زندگی / ایک دن کے لئے اپنا رخ موڑ لے!‘‘
  یہ نظم ’’ تبدیلی‘‘ شاعر کی اِس کڑھن کا اظہار ہے کہ وہ اپنے ہی شہر میں  جہاں  ظاہر ہے کئی رشتہ دار، پڑوسی اور شناسا ہوں  گے، وہ خود کو تنہا محسوس کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ’’نیک روحوں  کے بازار‘‘ میں  کوئی ایسا بھی ملے جس سے بے تکلفی ہو، جو برسوں  کا ساتھی ہو اور جس کے ساتھ پیڑ کی چھاؤں  میں  بیٹھ کر خوش گپیاں  کی جاسکیں ، پرانے دور کو یاد کیا جاسکے اور اس طرح تنہائی کا غم غلط کرنے کا نسخہ آزمایا جائے۔ اس میں  ’’نیک روحوں  کا بازار‘‘ کا اس لئے جواب نہیں  کہ اس کے ذریعہ شاعر نے اپنا درد بیان کیا ہے کہ بظاہر سب ٹھیک ہے مگر بباطن کچھ بھی ٹھیک نہیں  ہے، بظاہر سب اپنے ہیں  مگر بباطن کوئی بھی اپنا نہیں  ہے، بظاہر سب سے رشتہ ہے مگر بباطن کسی سے رشتہ نہیں  ہے یا برائے نام ہے کیونکہ چہار جانب بھلے ہی نیک روحیں  چلتی پھرتی نظر آ رہی ہیں  مگر بازار پھر بازار ہے جو ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، دھوکہ،  فریب، حرص و ہوس اور عیاری و مکاری کی آماجگاہ ہے۔ بازار ایسی جگہ ہے جہاں  نیک روحیں  بھی اپنی قدر کھو دیتی ہیں ۔ اسی لئے ادب و تہذیب کے قدرداں  بازار کو ناپسندیدہ قرار دیتے آئے ہیں ۔ 
 میرا اندازہ ہے کہ یہ نظم اب سے چار پانچ دہائی قبل کہی گئی ہوگی۔ اس کے بعد سے زمانہ برق رفتار تغیرات کی زد پر ہے اور دُنیا  آن بدل رہی ہے۔ ماضی میں  یہ بھلے ہی بازار کہلانے جیسی ہوگئی تھی پھر بھی اس میں  نیک روحیں  تھیں ۔ اب نہیں  ہیں  یا بہت کم ہیں ۔  بازار بھی جو ناپسندیدہ تھا، مزید انحطاط کی جانب گامزن ہے۔ سابقہ اور موجودہ دَور میں  ایک بڑا فرق یہ بھی ہے کہ اول الذکر میں  اپنے ضیاع اور زیاں  کا احساس تھا، اب یہ احساس بھی مشکل سے ملتا ہے۔ شاید دُنیا کی سب سے چھوٹی اقلیت کے طور پر چند احساس مند لوگ رہ گئے ہیں ۔ کہا نہیں  جاسکتا کہ آئندہ کیا ہوگا۔ اُمید کا دامن چھوڑنا دُنیا کے امکانات سے منہ موڑنا ہے اس لئے موجودہ دور کے احساس مند لوگوں  کو اُمید برقرارر کھتے ہوئے یہ جدوجہد کرنی ہوگی کہ اِس بازار  میں  نیک روحوں  کی نئی کھیپ آئے، نئی نسل کچھ سیکھ لے، کچھ جان لے اور اخلاقی و تہذیبی قدروں  کے احیاء کو اس طرح یقینی بنائے کہ افراد سے بھری ہوئی دُنیا انسان سے خالی نہ ہوجائے۔ اہمیت افراد کی نہیں  ہے، انسان کی ہے۔
 اقبال نے کہا تھا: ’’آہ بے چاروں  کے اعصاب پہ عورت ہے سوار‘‘ مگر اب صورت حال بدل گئی ہے۔ اب تمام بڑی حکومتوں ، کمپنیوں ، کارپوریشنوں  اور ان سے فیضیاب ہونے والے ثروت مندوں  کے اعصاب پر دولت سوار ہے۔ ’’دُنیا کا سب سے امیر آدمی‘‘بننے کی خبر کو پوری دُنیا کا میڈیا اولیت دیتا ہے۔ یہ بھی بتاتا ہے کہ ارب پتیوں  کی فہرست میں  کون کون ہے؟ سر فہرست کون ہے؟ دوسرے اور تیسرے مقام پر کون ہے؟ چاہے کسی ارب پتی کے اپنے شہر اور ملک میں  ہزاروں  افراد زندگی کی جنگ میں  شکست کو گلے لگانے کے قریب پہنچ چکے ہوں ۔ چاہے ہزاروں  خاندان اپنے بچوں  کی بنیادی تعلیم کیلئے فکرمند ہوں ۔ چاہے ہزاروں  مریض محض اس لئے زندگی کو مشکل اور موت کو آسان سمجھنے لگے ہوں  کہ وہ یا اُن کے اہل خانہ اُن کے طبی اخراجات پورا کرنے سے قاصر ہوں ۔ ۲۰؍ جنوری (۲۰۲۵ء) کے بعد سے تو ایسی جنگ چل رہی ہے کہ اس میں  اسلحہ کے بغیر معاشی تباہی و تاراجی کے فیصلے کئے جارہے ہیں  کہ کون رہے گا اور کون نہیں  رہے گا، کس کو بازار ملے گا کس کو نہیں  ملے گا، کس کو بیوپار کا حق ہوگا اور کس کو نہیں  ہوگا۔ اِس کا سبب دولت اور وسائل کا ارتکاز اور اس پر دسترس کو اپنا حق سمجھنے کا احساسِ برتری ہے۔ بیوپار، کاروبار اور بازار کو ضرورت سمجھنا الگ بات ہے مگر اسے زندگی کا مدار سمجھنا الگ۔ ضرورت سمجھنے میں  بُرائی نہیں  مگر اسے زندگی کا مدار سمجھنے میں  سراسر بُرائی ہے۔ اب مذاکرات پر مذاکرات ہورہے ہیں  کیونکہ کسی کو عظیم بننا ہے۔ عظیم بننے میں  بھی بُرائی نہیں  مگر عظمت کو بازار اور بیوپار میں  تلاش کرنا بُرائی ہے۔ دُنیا کے ہر ملک کو یکساں  وسائل حاصل نہیں ۔ یکساں  مواقع بھی حاصل نہیں ۔ ایسے میں  وہ ملک یا چنندہ ملکوں  کا اتحاد جس کے پاس زیادہ وسائل ہیں ، کم وسائل کے ملکوں  کے تئیں  اُس کی ذمہ داری ہے مگر وہ اُس ذمہ داری کی جزوی ادائیگی کے عوض سب پر بالواسطہ تسلط چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی مرضی سے نہ جئیں ، صاحب بہادر کی اجازت سے جئیں ۔معلوم ہوا کہ عظیم بننے کے تقاضے کچھ اور تھے، کچھ اور ہوگئے ہیں ۔ صاحب بہادر میں  اتنی طاقت ہے کہ وہ چاہے تو ایک دن میں  جنگیں  اور ہلاکتیں  رُک جائیں ۔ ایک دن میں  ماحولیاتی مسائل کے حل پر سنجیدہ اقدامات کا عزم کرلیا جائے۔ ایک دن میں  دولت کی منصفانہ تقسیم کی راہ ہموار ہوجائے۔ مگر صاحب بہادر چونکہ بازار میں  پلے بڑھے ہیں  اس لئے اُنہیں  فکر ہے تو بازار  کی، بیوپار کی۔ بازار  کل بھی تھا مگر آج کا بازار  اپنی تھوڑی بہت آبرو بھی بچانے کے قابل نہیں  رہ گیا ہے۔
 رہا انسان جو ہر دور میں  زینت ِ بازار بنتا آیا ہے، آج کے دور میں  وہ بھی کسی نہ کسی سطح پر عظمت کی نئی تعریف کو قبول کرکے عظیم بننے کیلئے بیقرار ہے۔ یہ ایک قسم کی وباء ہے جو چاروں  طرف پھیلی ہوئی ہے۔ ہر شخص اس کا مارا ہوا ہے۔ ہر شخص عجلت میں  ہے۔ مذکورہ نظم میں  شاعر نے یہ آرزو کی تھی کہ کبھی وہ دن آئے جب گرد و پیش کے ماحول کو بھول کر ایک دوسرے کے ساتھ ہنسیں ، بولیں ، حتیٰ کہ ہاتھاپائی کریں  مگر اب یہ آرزو بھی کس کو ہے۔ آرزو ہے تو صرف ایک، وہ ہے عظمت کی نئی تعریف کے مطابق عظیم بننا۔ اسی تگ و دو میں  کسی کو فرصت نہیں  کہ ہنسے، بولے، باتیں  کرے اور باتوں  باتوں  میں  زمانے کی بے آبروئی پر اور بازار کے آزار پر آنسو بہائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK