Inquilab Logo Happiest Places to Work

غیر مسلموں کے ساتھ حضور ﷺکاحسن سلوک

Updated: December 10, 2019, 1:07 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

اخلاقی نقطۂ نظر سے جو احکام آپؐ نے دیئے ہیں وہ عام ہیں اور سب کیلئے ہیں

دعوت دینا اور قبول کرنا اچھے اخلاق کو ظاہر کرتا ہے۔
دعوت دینا اور قبول کرنا اچھے اخلاق کو ظاہر کرتا ہے۔

خوشی و غم میں شرکت 
ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار تعلق کا تقاضا ہے کہ خوشی و غم میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوں ، رسول اللہ ﷺاس کا بھی خیال رکھتے تھے ، اگر کوئی غیر مسلم بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کیا کرتے تھے۔ ایک یہودی نوجوان جو آپ کے ساتھ آمد و رفت رکھتا تھا اور محبت کے ساتھ آپ کی خدمت بھی کیا کرتا تھا ، بیمار پڑ گیا تو آپ نے اس کی عیادت فرمائی (بخاری، حدیث نمبر: ۵۶۵۷) غیر مسلم اہل تعلق کی آخری رسومات میں بھی آپ نے شرکت فرمائی ہے۔ آپؐ کی ان ہی تعلیمات کا اثر تھا کہ آپؐ کے رفقاء بھی اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کے جلوس جنازہ میں شریک ہوا کرتے تھے ۔
تعزیت کے معنی پرسہ دینے کے ہیں ، اس کی بھی اجازت ہے ، اگرچہ آپ ﷺکا صریح عمل اس سلسلہ میں منقول نہیں ہے ؛ لیکن آپ نے عمومی طورپر غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ جس حسن سلوک کی تعلیم دی ہے ، اس کی روشنی میں شریعت اسلامی کے شارحین نے غیر مسلم بھائیوں کی تعزیت کرنے کی تلقین ہے ۔رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ مریضوں کی عیادت کیا کرو ، جو مریض کی عیادت کرتا ہے ، وہ گویا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں رہتا ہے (مسلم، حدیث نمبر: ۲۵۶۸) اس ہدایت میں آپ نے مسلمان اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں کیا ، عیادت کا یہ حکم تمام مریضوں کے لئے ہے ، اسی طرح آپ ﷺنے مصیبت زدہ لوگوں کی دلداری اور ان کی خبر گیری کی تلقین فرمائی۔(ترمذی، حدیث نمبر: ۱۰۷۳) یہاں بھی آپؐ نے پرسہ دینے اور تعزیت کرنے میں مسلمان اور غیر مسلم کا فرق نہیں رکھا ؛ اس لئے یہ احکام تمام لوگوں کے لئے ہیں ، خواہ وہ مسلمان ہو ںیاغیر مسلم ۔
ایفاء عہد
اخلاقی نقطۂ نظر سے جو احکام آپ ﷺنے دیئے ہیں ، وہ عام ہیں اور اس میں مسلمان وغیر مسلم دونوں شامل ہیں ، مثلاً شریعت کا ایک اہم حکم ہے : وعدہ کو پورا کرنا ، تو جیسے مسلمانوں سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنا ضروری ہے اور وعدہ خلافی گناہ ہے ، اسی طرح غیر مسلموں کے ساتھ بھی وعدہ خلافی گناہ ہے اور وعدہ کو پورا کرنا واجب ہے ، رسول اللہ ﷺکی مبارک زندگی میں اس کے واضح نمونے ملتے ہیں ، آپؐ نے ایسے موقع پر بھی ایفاء عہد کا خیال رکھا ہے ، جب کہ عام طورپر نہیں رکھا جاتا اورایسے حالات میں بھی رکھا ، جن میں وعدہ کو پورا کرنا مسلمانوں کے لئے نقصان کا سبب بن سکتا تھا۔اس کی دو مثالیں ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے: غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی تعداد صرف تین سو تیرہ تھی ، مکہ کے مشرکین جو حملہ آور تھے ، وہ تقریباً ایک ہزار تھے ، ان حالات میں مسلمانوں کے لئے ایک ایک فرد کی اہمیت تھی ، جنگ شروع ہونے سے پہلے حضرت حذیفہ بن یمانؓ اور ان کے والد حضرت حُسَیْل دشمنوں کی فوج کے پیچھے کی طرف سے آرہے تھے ؛ تاکہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہوں ، اہل مکہ کو اس کا اندازہ ہوگیا ، انھوں نے ان دونوں کو پکڑ لیا اور اس شرط پر چھوڑا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک نہیں ہوں گے ، وہ حضورؐ کی خدمت میں آئے اور ان کی خواہش تھی کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوجائیں ؛ لیکن آپؐ نے فرمایا کہ چاہے جو بھی ہو ، معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے ؛ چنانچہ آپؐ نے ان کو جہاد میں شریک نہیں فرمایا ۔(مسلم، حدیث نمبر: ۱۷۸۷)
اس کی دوسری مثال صلح حدیبیہ ہے جس میں یہ بات طے پائی تھی کہ مکہ سے جو لوگ مسلمان ہوکر مدینہ جائیں گے ، مسلمان انھیں واپس کردیں گے ، ابھی یہ معاہدہ طے ہی پارہا تھا کہ حضرت ابو جندلؓ پابہ زنجیر رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ ان کو اپنے ساتھ لے چلیں ، مسلمان بھی ان کی حالت دیکھ کر اور فریاد سن کر بے چین ہوگئے ۔ آپؐ نے اپنے ذاتی تعلق کا حوالہ دے کر سہیل بن عمرو کو راضی کرنے کی پوری کوشش کی ؛ لیکن وہ تیار نہیں ہوا ؛ چنانچہ سرکار دو عالم ؐنے ان کو واپس کردیا اور فرمایا کہ اللہ ہی ان کے لئے کوئی راستہ نکالیں گے ۔ 
(البدیہ والنہایہ:۳؍۴۰)
دعوت دینا اور قبول کرنا 
سماجی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق کا ایک مظہر دعوت دینا اور دعوت قبول کرنا ہے ؛ چنانچہ رسولؐ اللہ غیر مسلم حضرات کو مدعو کیا کرتے تھے ، جب آپؐ اللہ کے نبی بنائے گئے تو آپؐ نے بنو ہاشم کو کھانے پر مدعو کیا اور تمام لوگوں کو جمع فرمایا ، ان کی تعداد تیس نقل کی گئی ہے ، کھانا کھلانے کےبعد آپ ﷺنے ان کے سامنے اسلام کا تعارف پیش فرمایا۔ (البدایہ والنہایہ:۳؍۴۰)
اسی طرح آپ ﷺنے مہمان نوازی کی ترغیب دی ہے اور مہمانوں کا اکرام کرنے کی فضیلت بیان فرمائی ہے ، اس میں مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے ۔ آپؐ کے پاس مختلف قبائل کے سردار اور وفود آیا کرتے تھے اور آپؐ ان کی ضیافت فرمایا کرتے تھے ، بدر کی لڑائی میں جو لوگ قید کئے گئے ؛ حالاںکہ وہ حملہ آور تھے ؛ لیکن آپؐ نے اپنے رفقاء کو ترغیب دی کہ ان کے کھانے پینے کا بہتر انتظام کریں ؛ اسی لئے بہت سے صحابہ خود معمولی کھانا کھا کر ان کو بہتر کھانا کھلایا کرتے تھے۔
(مجمع الزوائد:۶؍۱۱۵، حدیث نمبر: ۱۰۰۰۷)
آپ ﷺغیر مسلم بھائیوں کی دعوت قبول بھی فرمایا کرتے تھے۔ اسی طرح کے ایک واقعہ میں ایک یہودی خاتون نے آپ ﷺکو مدعو کیا ، اور بکرے کے دست کے حصہ، جس کا گوشت آپ ﷺکو مرغوب تھا، میں زہر ملا دیا ، جس کی تکلیف کا اثر آپؐ کو مرض وفات تک رہا۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث نمبر: ۴۵۲)
سلام
رسول اللہ ﷺنے ایک دوسرے سے ملاقات کے لئے جو جملہ مقرر کیا ہے ، وہ ہے : ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ (تم پر سلامتی ہو یعنی تم محفوظ رہو ، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں) سلامتی کے معنی ہیں محفوظ رہنا ، اس میں ہر طرح کی سلامتی شامل ہے ، گناہوں سے ، بیماریوں سے اور اللہ کی نافرمانیوں سے ، رحمت میں اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتیں شامل ہیں ، مال واولاد ، اور آخرت کی نجات ، برکت سے مراد یہ ہے کہ جو نعمتیں حاصل ہیں ، وہ زیادہ سے زیادہ حاصل ہوں اور زیادہ دنوں تک باقی رہیں ، غرض کہ یہ ایک دُعا ہے اور دُعا مسلمان کے لئے بھی جائز ہے اور غیر مسلم کے لئے بھی ؛ اس لئے غیر مسلم کو بھی سلام کرنا جائز ہے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد مسلمان نہیں تھے ؛ لیکن حضرت ابراہیمؑ نے ان کو سلام کیا ، خود قرآن مجید میں اس کا ذکر موجود ہے : (مریم: ۴۷) رسول اللہ ﷺ نے ایسے مجمع کو سلام فرمایا ہے ، جس میں مسلمان بھی تھے ، مشرکین بھی اور یہودی بھی (صحیح بخاری، باب التسلیم فی مجلس فیہ، حدیث نمبر: ۵۸۹۹) اور جب کسی مجمع کو سلام کیا جاتا ہے ، اور سلام کرنے والے نے کسی کی تخصیص نہیں کی ہو تو سبھی حضرات مخاطب ہوتے ہیں ۔
مدینہ کے یہودی جب رسول اللہ ﷺ سے یا مسلمانوں سے ملتے تو زبان دباکر ’السام علیکم ‘ کہتے ، یعنی سننے والے کو تو محسوس ہوتا کہ وہ سلام کررہے ہیں ؛ لیکن حقیقت میں وہ اس کی بجائے ’ السام علیکم ‘ کہا کرتے تھے ، جس کے معنی ہیں : ’’ تم پر موت آجائے‘‘ ان کی اس شرارت کی وجہ سے آپ ﷺنے فرمایا کہ تم ان کو سلام نہ کیا کرو اور اگر وہ ’ السام علیکم‘ کہیں تو صرف ’ وعلیکم‘ کہہ دو ، یعنی تمہارے ہی ساتھ ایسا ہو ، (بخاری، باب کیف الرد علی اہل الذمہ بالسلام، حدیث نمبر: ۵۹۰۲) یہ ممانعت خاص طورپر ان یہودیوں کے لئے تھی ، جو ’السام علیکم ‘ کے لفظ کا غلط استعمال کیا کرتے تھے ، عام غیر مسلم حضرات کو سلام کرنے کی یا ان کے سلام کا جواب دینے کی ممانعت نہیں ۔
تحفہ کا لین دین 
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ ایک دوسرے کو تحفہ دیا کرو کہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور کدورتیں دُور ہوتی ہیں ، (معجم کبیر للطبرانی:۲۵؍ ۱۶۲، حدیث نمبر: ۳۱۳، عن اُم حکیم) اس میں آپ ﷺنے مسلمانوں اور غیر مسلموں میں کوئی فرق نہیں کیا ہے ؛ بلکہ عمومی طورپر ہدیہ دینے کی ترغیب دی ہے ۔
اہل مکہ نے مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ؛ لیکن جب مکہ میں قحط پڑا ، یہاں تک کہ لوگ مردار کھانے پر مجبور ہوگئے تو آپؐ نے مکہ کے قحط زدہ غیر مسلموں کے لئے پانچ سو دینار بھیجے ؛ حالاںکہ اس وقت مدینہ کے مسلمان خود سخت مالی مشکلات سے دوچار تھے ، پانچ سو دینار کی قدر کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ بیس دینار ساڑھے ستاسی گرام سونے کے برابر ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ پانچ سو دینار بہت بڑی رقم ہوئی اور یہ رقم آپ نے سردارانِ قریش ابوسفیان اور صفوان ابن اُمیہ کو بھیجی کہ وہ اسے تقسیم کردیں ، جو اس وقت اہل مکہ کے قائدین تھے اور مسلمانوں کی مخالفت میں پیش پیش تھے ۔ (ردالمحتار: ۳؍۳۰۲، باب المصرف)
آپ ﷺنے رحم اور حسن سلوک کی عمومی تعلیم دی ہے ، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : تم ان لوگوں پر رحم کرو ، جو زمین میں ہیں تو تم پر وہ ذات رحم کرے گی ، جو آسمان میں ہے ، (ترمذی، حدیث نمبر: ۱۹۲۴) ظاہر ہے کہ اس میں مسلمان اور غیر مسلم یہاں تک کہ جانور بھی شامل ہیں ، ایک موقع پر آپ ﷺنے فرمایا ہر جاندار کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کی خدمت کرنے میں اجر ہے ، (بخاری، حدیث نمبر: ۶۰۰۹) نیز ارشاد ہے : مسلمان درخت لگائے اور اس میں سے کوئی انسان یا جانور کھائے تو اس کو صدقہ کاثواب ملے گا :(مسلم، کتاب الادب، باب رحمۃ الناس والبھائم، حدیث نمبر: ۵۶۶۶) اور اس کے مقابلہ میں ارشاد فرمایا کہ جو شخص انسان پر مہر بانی نہیں کرتا ، اللہ تعالیٰ بھی اس پر مہر بانی نہیں فرمائیں گے :(بخاری، کتاب التوحید، حدیث نمبر: ۶۹۴۱)
جیسے آپ ﷺنے غیر مسلم حضرات کو تحفے عنایت فرمایا کرتے تھے ، اسی طرح ان کے تحفے قبول بھی کیا کرتےتھے ؛ چنانچہ روم کے بادشاہ ہرقل نے آپ کو تحفے بھیجے ، جس میں نفیس کپڑا بھی تھا ، (ابو داؤد، کتاب اللباس، حدیث نمبر: ۴۰۳۹) اور سونٹھ بھی تھی ، (لابن أبی حاتم، حدیث نمبر: ۹۰۶) آپ نے ان تحائف کو قبول فرمایا اور اپنے رفقاء کو بھی اس میں سے عنایت فرمایا ، ایک اور سردار اُکَیْدِرْدُوْمَہْ نے بعض تحائف بھیجے ، جنہیں آپؐ نے قبول کیا اور اپنے رفقاء کو بھی اس میں سے عنایت فرمایا ، (مسند احمد، عن انس: ۴۶-۱۲۲۴۵) حضرت علیؓ کی روایت میں شاہ ایران کے بھی تحفہ بھیجنے اور آپؐ کے قبول کرنے کا ذکر آیا ہے ۔ (ترمذی، باب ما جاء قبول ہدایا المشرکین، حدیث نمبر: ۱۵۷۶)
جان و مال کا احترام
غیر مسلموں کے جان و مال کے احترام کو آپ ﷺنے وہی درجہ دیا ، جو مسلمانوں کی جان و مال کا ہے ، آپ نے اس سلسلہ میں اُصول بیان فرمادیا کہ ان کے خون ہمارے خون کی طرح ہیں اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح۔(نصب الرایہ: ۳؍۳۸۱) ایک موقع پر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : جس نے کسی معاہد ( وہ غیر مسلم جس سے پر اُمن زندگی گزارنے کا معاہدہ ہو ) کو قتل کیا ، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا ؛ حالاںکہ اس کی بُو چالیس سال کے فاصلہ سے محسوس کی جاسکتی ہے ۔
آپ جنگ کے موقع پر بھی اس کا لحاظ رکھتے تھے کہ جب دشمن ہتھیار ڈال دیں یاصلح پر راضی ہوجائیں تو ان کی املاک کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے ، فتح خیبر کے موقع سے بعض مسلمان فوجیوں نے یہودیوں کے جانور ذبح کردیئے اور کچھ پھل کھا لئے ، رسول اللہ ﷺکو اطلاع ہوئی تو آپ ﷺنے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اس عمل پر ناگواری ظاہر کی اورفرمایا کہ یہ تمہارے لئے حلال نہیں ہے ، (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۳۰۵۰)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK