فوجی کارروائی کی جانکاری دینے کیلئے خارجہ سیکریٹری کی قیادت میں جس طرح کرنل صوفیہ قریشی اور وِنگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کو سامنے لایا گیا، وہ قابل تعریف ہے ۔
EPAPER
Updated: May 12, 2025, 1:29 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
فوجی کارروائی کی جانکاری دینے کیلئے خارجہ سیکریٹری کی قیادت میں جس طرح کرنل صوفیہ قریشی اور وِنگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کو سامنے لایا گیا، وہ قابل تعریف ہے ۔
۲۲؍ اپریل کو دہشت گردوں نے پہلگام میں سیاحوں پر جس طرح حملہ کیا تھا اور اس کے ذریعہ وہ جو مقصد حاصل کرچاہتے تھے، ہندوستانی فوج نے ایک پیغام کے ذریعہ اس کوشش کو بری طرح ناکام کردیا۔ دہشت گردوں نے پہلگام میں جو حرکت کی تھی، اس کا مقصد ہندوستانی مسلمانوں سے اظہار ہمدردی تھی، نہ ہی ہندوستان کی اکثریتی برادری سے کوئی انتقام لینا تھا بلکہ اس سازش کے ذریعہ وہ کشمیریوں کو معاشی اور سیاسی محاذ پریکہ و تنہا کرنا چاہتے تھے اور ملک بھر میں فرقہ وارانہ فساد چاہتے تھے۔ اس سے قبل کہ وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوپاتے، ہندوستانی عوام کی ایک بڑی تعداد نے اس سازش کو بھانپ لیا۔ یہاں تک کہ اس حملے کے متاثرین نے بھی اس کو محسوس کر لیا تھا۔ اس حملے میں شہید ہونے والےنیوی افسر وِنے نروال کی بیوہ ہمانشی نروال کا کھل کراس کی مخالفت کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے۔
رہی سہی کسر ہندوستانی فوج نے پوری کردی۔ ۶؍ اور ۷؍ مئی کی درمیانی رات میں ہونے والی فوجی کارروائی کی جانکاری دینے کیلئے خارجہ سیکریٹری وِکرم مصری کی قیادت میں کرنل صوفیہ قریشی اوروِنگ کمانڈر یومیکا سنگھ میڈیا کے سامنے آئیں تو ایک جھٹکے کے ساتھ دہشت گردوں کے غبارے کی ہوا نکل گئی۔ اس موقع پر وکرم مصری نے نہایت بے باکی سے اپنی باتیں رکھیں اور اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’پہلگام حملہ بزدلانہ تھا۔ اس میں لوگوں کو ان کے گھر والوں کے سامنے قتل کیا گیا، ان کے سروں میں گولیاں ماری گئیں۔ زندہ بچ جانے والوں سے کہا گیا کہ وہ اس حملے کا پیغام عام کریں۔ خیال رہے کہ گزشتہ سال سوا دو کروڑ سے زیادہ سیاح کشمیر آئے تھے۔ اس حملے کا مقصد کشمیر کی ترقی اور اس کی پیش رفت کو نقصان پہنچانا اوروہاں کے عوام کو پسماندہ رکھنا تھا۔ حملے کے اس طریقے سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ دہشت گردوں کی جموں کشمیر کے ساتھ ہی پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے کی ایک منظم کوشش تھی۔ ‘‘
ملک کے عوام کی ایک بڑی تعداد نےاگر وقت رہتے اس بات کو محسوس نہ کرلیا ہوتا تو کوئی بعید نہیں کہ دہشت گرد اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوجاتے۔ ملک کا ایک چھوٹا سا طبقہ ہی سہی، دہشت گردوں کے پیغام کو عام کرنے میں پہلے ہی دن سےجٹ گیا تھا۔ ۲۲؍ اپریل کو یعنی حملے کے دن ہی سوشل میڈیا پر نفرت کا بازار گرم کرنے کی کوشش شروع کردی گئی تھی۔ چھتیس گڑھ بی جے پی کی جانب سے اس حملے میں ہلاک ہونےوالےنیوی افسر وِنے نروال اور ان کی اہلیہ ہمانشی نروال کی ایک علامتی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ ’’دھرم پوچھا گیا ہے، ذات نہیں۔ ‘‘ مطلب اور مقصد صاف تھا جسے خود ہمانشی نروال نے بھی محسوس کرلیا، اسلئے انہوں نے کھل کر اس کی مخالفت کی۔
اُسی وقت عوام میں یہ بحث چھڑ گئی تھی کہ دہشت گردوں کا مقصد ملک میں فرقہ وارانہ منافرت قائم کرنا تھا، اسلئے اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا ہے۔ موقع آیا تو فوج نے اس پیغام کو مزید شدت اور وضاحت کے ساتھ پیش کیا جس کی بازگشت دنیا کے کونے کونے تک سنائی دی اور محسوس کی گئی۔ کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ جب میڈیا کے روبرو آئیں تو دہشت گردوں کے ساتھ ہی ان کے آقاؤں کے قدموں تلے سے زمین کھسک گئی کہ یہ کیا ہوگیا؟ وہ کیا چاہتے تھے اور کیا نتیجہ نکل رہا ہے؟ ہندوستان نے نہایت موثر انداز میں پیغام دیا کہ دشمن کے خلاف نہ صرف ملک پوری طرح سے متحد ہے بلکہ ملک کے مسلمانوں کیلئے’خاک وطن کا ہر ذرہ ان کیلئے دیوتا ہے‘۔
ملک کا دشمن کوئی بھی ہو، خواہ وہ پاکستان ہو، چین ہو، امریکہ یا پھر اندرون ملک کی وہ فسطائی تنظیمیں ہوں جو وطن عزیز کی سالمیت کو نقصان پہنچاتی ہیں، مسلمان ہمیشہ ان کیخلاف ڈٹ کر کھڑے رہے ہیں۔ مسلمانوں نے اس کا ثبوت ماضی میں بھی دیا ہے اور ضرورت پڑنے پر مستقبل میں بھی دیں گے۔ خوش آئند ہے کہ کرنل صوفیہ کو سامنے لاکر ملک نے بھی اس بات کا واضح انداز میں اعتراف کیا ہے۔
پاکستان کے وہ۹؍ ٹھکانے جو پہلے دن فوج نے تباہ کئے
ہندوستانی فوج نے ’آپریشن سندور‘ کے نام سے پاکستان کے خلاف جو کارروائی کی ہے، اس میں ۷؍ شہروں کے ۹؍ مراکز کو تباہ کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ حملے کے بعد فوج اور فوجی ذرائع نے جو اطلاعات فراہم کی ہیں، وہ کچھ اس طرح ہیں۔
۱۔ مرکز سبحان اللہ، بہاولپور( جیش کا ہیڈکوارٹرز)
مرکز سبحان اللہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بہاولپور شہر کے مضافات میں واقع ہے۔ یہاں نوجوانوں کو دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ تقریباً۱۵؍ ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۴؍ فروری کو۲۰۱۹ء کے پلوامہ دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی یہیں کی گئی تھی۔
۲۔ مرکز طیبہ، مریدکے پنجاب( لشکر کا کیمپ)
اسےپاکستان میں لشکر کا سب سے اہم تربیتی مرکز بتایا جاتا ہے جو ۸۲؍ ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کا قیام ۲۰۰۰ء میں ہوا تھا۔ اس کے تعلق سے کہاجاتا ہے کہ اسامہ بن لادن نے اس کیلئے ایک کروڑ روپے کی فنڈنگ کی تھی۔ اجمل قصاب اور دیگر کوممبئی حملے کیلئے یہاں تربیت دی گئی تھی۔
۳۔ سرجال، تہرا کلاں ( جیش کی اہم لانچنگ سائٹ)
اس جگہ سے ہند پاک سرحد کے نیچے سرنگیں کھودی جاتی ہیں جنہیں دہشت گرد دراندازی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ مرکز ہندوستانی سرحد (سامبا سیکٹر، جموں ) سے صرف۶؍ کلومیٹر دور ہے۔ یہاں سے ڈرون کے ذریعے اسلحہ، گولہ بارود اور منشیات ہندوستان میں گرائی جاتی ہیں۔
۴۔ محمونہ زویا، سیالکوٹ ( حزب المجاہدین کا تربیتی کیمپ)
یہ کوٹلی بھٹہ پنجاب (پاکستان) میں سرکاری اسپتال کے قریب واقع ہے۔ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد سے قائم کیا گیا ہے۔ یہاں پردہشت گردوں کو ہندوستان میں دراندازی اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ کی تربیت دی جاتی ہے۔
۵۔ مرکز اہل حدیث، برنالہ، پی او کے( لشکر کا بڑا اڈہ)
اس کا استعمال پونچھ، راجوری اور ریاسی سیکٹروں میں دہشت گردوں اور ہتھیاروں کی دراندازی کیلئے کیا جاتا ہے۔ دہشت گردوں کو ہندوستان میں گھسنے سے پہلے یہاں لاکر رکھا جاتا ہے۔ اس مرکز میں ۱۰۰؍ سے ۱۵۰؍ افرادکی رہائش کا انتظام ہے۔
۶۔ مرکز عباس، کوٹلی( جیش کا مرکزی سینٹر)
یہ فوجی کیمپ سے۲؍ کلومیٹر دور واقع ہے۔ اس عمارت میں ۱۰۰؍ سے۱۲۵؍افراد کے رہنے کی گنجائش ہے۔
۷۔ مرکز راحیل شاہد، کوٹلی، پی او کے( حزب کا تربیتی مرکز)
یہ ایک ویران اور پہاڑی علاقے میں واقع ہے جہاں تک صرف کچی سڑک کے ذریعے ہی پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں دہشت گردوں کو ہتھیار چلانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہاں پر۱۵۰؍ سے ۲۰۰؍ افراد کے رہنے کا انتظام ہے۔
۸۔ شوائی نالہ کیمپ، مظفرآباد( لشکر طیبہ کیمپ)
یہ کیمپ چیلا بانڈی پل، مظفرآباد میں نیلم روڈ ’پی او کے‘ کے قریب واقع ہے۔ اسے حذیفہ بن یمن کیمپ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کیمپ میں فائرنگ رینج، تربیتی میدان، لشکرکا مدرسہ اور تقریباً۴۰؍ کمرے ہیں۔
۹۔ سیدنا بلال کیمپ، مظفرآباد( جیش کا کیمپ)
یہ حکمت عملی کے لحاظ سے کافی اہم بتایا جاتا ہے کیونکہ یہ ایل او سی کے بہت قریب ہے۔ یہ کیمپ ٹرانزٹ کی سہولت کے طور پر کام کرتا ہے۔ یعنی یہاں سے دہشت گردوں کو جموں کشمیر میں دراندازی کیلئے بھیجا جاتا ہے۔ اسے ہندوستان آنے سے پہلے آخری اسٹاپ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
’آپریشن سندور‘ کی اسکرپٹ لکھنے والے تینوں افواج کے سربراہان ’نیشنل ڈیفنس اکیڈمی‘ کے بیچ میٹ ہیں
’آپریشن سندور‘ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی حکمت عملی ہندوستان کی تینوں افواج یعنی بری، بحری اور فضائیہ نے مل کر ترتیب دی ہے اور اس سے بھی خاص بات یہ ہے کہ تینوں فوجی سربراہ ۱۹۸۴ء میں ’نیشنل ڈیفنس اکیڈمی‘ کے بیچ میٹ ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل اوپیندر دویدی (برّی فوجی سربراہ)
آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل اوپیندر دویدی کی قیادت میں ’آپریشن سندور‘ انجام دیا گیا۔ مدھیہ پردیش کے ’ریوا‘ میں پیدا ہوئے جنرل دویدی نے سینک اسکول ریوا اور پھر این ڈی اے ’کھڑک واسلا‘ میں تعلیم حاصل کی۔ انہیں این ڈی اے میں ’بلیو ایوارڈ‘ اور آئی ایم اے دہرادون میں گولڈ میڈل ملا۔ ۱۹۸۴ء میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد، انہوں نے جموں کشمیر، ایل اے سی اور شمال مشرق میں انسداد دہشت گردی آپریشنز میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں ۳۰؍ جون۲۰۲۴ء کو آرمی چیف مقرر کیا گیا۔
ایئر مارشل امر پریت سنگھ (فضائیہ سربراہ)
۳۰؍ ستمبر۲۰۲۴ء کو، ایئر مارشل امر پریت سنگھ نے فضائیہ کے چیف آف ایئر اسٹاف (سی اے ایس) کا عہدہ سنبھالا۔ ۲۷؍ اکتوبر۱۹۶۴ء کو پیدا ہوئے امر پریت سنگھ نے نیشنل ڈیفنس اکیڈمی (این ڈی اے) کھڑک واسلا سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ امرپریت سنگھ ایک تجربہ کار لڑاکو پائلٹ ہیں جنہوں نے مگ۔ ۲۱، مگ ۲۹؍ اور سکھوئی جیسے لڑاکا طیارے اڑائے ہیں۔ وہ فلائنگ انسٹرکٹر اور ٹیسٹ پائلٹ بھی رہے ہیں۔
ایڈمرل دنیش کمار ترپاٹھی (نیوی سربراہ)
ایڈمرل دنیش کمار ترپاٹھی نے۳۰؍ مئی۲۰۲۴ء کو بحریہ کے سربراہ (سی این ایس) کا عہدہ سنبھالا۔ ۱۵؍ مئی۱۹۶۴ء کو اتر پردیش کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے، ترپاٹھی نے گاؤں کے سرکاری اسکول میں ۵؍ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی، پھر۱۹۷۳ء میں سینک اسکول ریوا میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد انہوں نے نیشنل ڈیفنس اکیڈمی (این ڈی اے) پونے اور انڈین نیول اکیڈمی، ایزیمالا سے فوجی تربیت حاصل کی۔ انہوں نے مغربی نیول کمانڈ کے کمانڈر اور بحریہ کے ڈپٹی چیف کی حیثیت سے پالیسی اور آپریشنز میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ آج وہ ہندوستانی بحریہ کی قیادت کر رہے ہیں۔
’آپریشن سندور‘ سے متعلق چند اہم شخصیات کے تاثرات
جنگ کو پاکستان کی سرزمین تک لے جانا چاہئے
اب ہمیں بیانیہ کا ماسٹر بننا ہوگا۔ ہر ’سیز فائر‘ کی خلاف ورزی (۲۰۲۰ء میں پاکستان کی طرف سے تقریباً۵؍ ہزار مرتبہ ایسا کیا گیا) کا دگنی تعداد کے ساتھ جواب دیا جانا چاہئے۔ پی او کے میں دراندازی سے بھی کوتاہی نہیں برتی جانی چاہئے۔ مزید یہ کہ ہمیں جنگ کو پاکستان کی سرزمین تک لے جانا چاہئے۔ ایسا کرنے کیلئے ہمارے پاس ۲؍ طاقتور ہتھیار ہیں۔ ان میں سے پہلا قدم یہ ہے کہ۱۹۶۰ء کے سندھ پانی معاہدے کو معطل کیا جائے، تاکہ ہم پاکستان میں دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے بہاؤ کو کنٹرول کر سکیں۔ اس سے سرحد پار خوف و ہراس پھیل سکتا ہے کیونکہ پاکستان کی جی ڈی پی کا۲۵؍ فیصد زراعت پر منحصر ہے۔ یہاں تک کہ دریا کے بہاؤ کے بارے میں ’ریئل ٹائم ڈیٹا‘ کا اشتراک نہ کرنا بھی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کو پروان چڑھا کر ہندوستان میں پاکستان کی دہشت گردی کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ پاکستان میں فوج اور آئی ایس آئی کا اتحاد کمزور ہوا ہے۔ ہمارے تمام اقدامات کا مشترکہ اثر پاکستانی عوام کو اس اتحاد کے خلاف متحرک کرنے پر مرکوز ہونا چاہئے۔ جب تک پاکستان کی’ڈیپ اسٹیٹ‘ کو کمزور یا ختم نہیں کیا جاتا تب تک دیرپا امن نہیں ہو سکتا۔
پون کے ورما ( سابق سفارت کار اور رکن پارلیمان)
ہندوستان کو چین سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت
ہندوستان کو خطرہ صرف پاکستان سے نہیں ہے۔ چین نے ہندوستان کے دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے پڑوسی کو مسلسل سفارتی اور اسٹریٹجک کور فراہم کیا ہے۔ مثال کے طور پر، چینی حکومت نے بار بارپاکستانی دہشت گردوں کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کو روکا ہے۔ پہلگام حملے کے بعد بھی، چین نے پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کی تعریف کی اور اسے اپنا سدا بہار اسٹریٹجک پارٹنر قرار دیا۔ ظاہر ہے کہ چین اپنے دشمن کے دشمن کو دوست ہی سمجھے گا لیکن اس سے ہندوستان کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
دونوں ہی ہندوستانی علاقے کے ایک بڑے حصے پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔ حالیہ بحرانوں یعنی پاکستان سے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں سے لے کر ڈوکلام اور لداخ میں چین کی جانب سے ہماری زمینوں پر ڈھٹائی سے قبضے تک نے، اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ چین پاکستان گٹھ جوڑ ہندوستان کیلئے کتنا سنگین خطرہ ہے۔ ہندوستان کے لداخ کے سرحدی علاقوں پر چینی تجاوزات کی وجہ سے۲۰۲۰ء میں شروع ہونے والا فوجی تعطل ابھی تک مکمل طور پر حل نہیں ہوا ہے۔ لیکن اس بار وزیراعظم مودی نے متوازن اور متاثر کن جواب دیا ہے۔
برہما چیلانی ( پالیسی فار اسٹیٹ ریسرچ کے پروفیسر ایمریٹس)
کسی ڈرامائی مفاہمت کے آثار نظر نہیں آتے
اس جنگ کو ایک مثال سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ جیسے یہ کہ اسٹاک مارکیٹ تیزی سے گرتی جا رہی ہو، پھر بھی کچھ سرمایہ کا سرمایہ کاری کرتے رہتے ہیں، لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے یا پھراس میں رک جانے کی عقل مندی جاگ جاتی ہے، مطلب یہ کہ’ ریمپ‘ سے اترجایا جاتا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے معاملے میں ریمپ سے اُترنے کی کارروائی یا تو غیر ملکی ثالثی کے ذریعے ہو تی ہے (جیسے کارگل میں مہینوں کی لڑائی کے بعد یا آپریشن کی تیاریوں کے دوران دونوں فوجوں کی آمنے سامنےکی تعیناتی کے بعد ہوا تھا) یا جب ایسی صورتحال پیدا ہوجائے جس میں دونوں فریق فتح کا دعویٰ کر سکیں۔ پلوامہ کو یاد رکھیں۔ جب ہندوستان پہلی بار پاکستان میں داخل ہوا اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا تو پاکستان نے ایک ہندوستانی پائلٹ کو جنگی قیدی بنا لیا۔ اس کے بعد ہندوستانی دباؤ میں اس پائلٹ کی واپسی ان دونوں کیلئے ریمپ سے اترنے کا بہانہ بن گئی۔ اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس سے کسی ڈرامائی مفاہمت کے آثار نظر نہیں آتے بلکہ ہر رات جنگ کو تیز کرنےوالی سیڑھی کے اگلے حصے کی طرف ایک قدم اٹھایا جا رہا ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے میں یہی کہوں گا کہ یہ ایک ایسا سفر ہے جہاں آپ کوہمیشہ اپنی’ سیٹ بیلٹ‘ باندھے رکھنا ہوگا۔
شیکھر گپتا ( سینئر صحافی اور مصنف)