Inquilab Logo

شرح اموات چھپانا کسی بھی اعتبار سے ٹھیک نہیں

Updated: May 16, 2021, 9:14 AM IST | Mumbai

حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ کورونا سے فوت ہونے والوں کی تعداد نہ بتا کر وہ کسی طرح کا اعتماد عوام میں برقرار رکھ سکتی ہے تو اس کا یہ خیال درست نہیں ہے۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہورہا ہے۔

The cause of death is lack of oxygen.Picture:Inquilab
اموات کا تعلقجہ آکسیجن کی کمی ہے تصویر انقلاب

نیا اِس وقت ’وشو گرو‘ کی طرف دیکھ رہی ہے اور اس کی کوئی مثبت وجہ نہیں ہے۔ ہم نے کورونا کے خلا ف ایسی بد انتظامی کا مظاہرہ کیا ہے کہ ہمارے ملک کے حالات عالمی خبروں کا درجہ پارہے ہیں۔  امریکہ کے آزاد اور غیر وابستہ تحقیقی مرکز ’’انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایوالیوشن‘‘ کا اندازہ ہے کہ ستمبر تک یعنی آئندہ چار مہینوں میں مزید ۱۰؍ لاکھ ہندوستانی (خدانخواستہ) فوت ہوسکتے ہیں۔ یہ اندازہ اُن سرکاری اعدادوشمار پر مبنی ہے جن پر بھروسہ کرنا مشکل ہے بالخصوص اس صورت میں جبکہ ہم آخری رسومات کی ادائیگی کے مقامات کی تصویریں دیکھ چکے ہیں اور اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے حقیقی اعدادوشمار کا احساس کرچکے ہیں۔ ۶؍ مئی کو گجرات کے ایک اخبار نے لکھا کہ ریاست کے ۷؍ بڑے شہروں (احمد آباد، گاندھی نگر، بروڈہ، سورت، راجکوٹ، جام نگر اور بھاؤ نگر) میں پچھلے ایک ماہ میں اموات کی مجموعی تعداد ۱۷؍ ہزار ۸؍ سو ۲۲؍ درج کی گئی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی آخری رسومات کووڈ پروٹوکول کے مطابق انجام دی گئیں جبکہ حکومت نے کووڈ سے فوت ہونے والوں کی تعداد ۱۷۴۵؍ بتائی یعنی صرف ۱۰؍ فیصد کا اعتراف کیا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ مذکورہ شہروں میں ریاست کی مجموعی آبادی کا صرف ایک تہائی حصہ ہے۔ دیہاتوں اور قصبات میں کووڈ کیلئے لوگوں کی جانچ اور علاج کا امکان کم سے کم ہے۔ یہ صورتحال صرف گجرات تک محدود نہیں ہے۔ ۳؍ مئی کو ایک اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومت مدھیہ پردیش نے کووڈ سے فوت ہونے والوں کی تعداد ۱۰۴؍ بتائی ہے جبکہ آخری رسومات کی ادائیگی کے مقامات کے عملے سے حاصل شدہ تفصیل پتہ چلا کہ مہلوکین کی مجموعی تعداد ۳۸۱۱؍ ہوچکی ہے۔ان میں سے کووڈ کے سبب فوت ہونے والوں کی تعداد ۲۵۵۷؍ ہے۔ 
 اس سے اندازہ کیجئے کہ سرکاری اور نجی اعدادوشمار میں کتنا فرق ہے۔ یہ ۲۵:۱؍ کا تناسب ہے۔ ہریانہ سے جاری ہونے والی ۴؍مئی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ سرکاری اور نجی اعدادوشمار کا تناسب ۲:۱؍ ہے۔ اعدادوشمار کا ایسا ہی فرق بنگلور میں گزشتہ ماہ دیکھا گیا تھا (سرکاری = ۱۴۲۲؍ جبکہنجی ذرائع سے ۳۱۰۴؍ افراد کی اطلاع ملتی ہے جنہیں کووڈ پروٹوکول کے ساتھ الوداع کہا گیا)۔ اُترپردیش میں میرٹھ سے جاری ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا کہ سرکاری اور غیر سرکاری اعدادوشمار کا فرق ۷:۱؍ ہے۔ 
 اگر ہم مذکورہ فرق پر بھروسہ نہ کرنا چاہیں تب بھی اموات کی خبروں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کووڈ سے فوت ہونے والوں کی تعداد سرکاری تعداد سے دو یا تین گنا تو یقیناً زیادہ ہوگی۔ اس اندازہ سے ملک بھر میں کووڈ سے ہلاک ہونے والوں کی سرکاری تعداد ۲ء۳؍ لاکھ ہے، جو کہ دُنیا میں تیسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ حقیقتاً یہ تعداد ۵ء۶؍ لاکھ یا ۷؍ لاکھ ہوگی جو کہ دُنیا کی سب سے بڑی تعداد قرار پائے گی۔ مختلف شہروں سے موصول ہونے والی خبروں اور تصویروں کو دیکھ کر جو خوفناک صورتحال اُبھرتی ہے اُس سے ہم لاعلم نہیں ہیں اس لئے مذکورہ غیر سرکاری اعدادوشمار ہی حقیقت کے قریب معلوم ہوتے ہیں۔ موت اتنی ارزاں پہلے کبھی نہیں تھی۔
 یہاں مَیں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ اعدادوشمار کی گڑبڑ صرف اور صرف سرکاری فریب کا نتیجہ نہیں ہے۔ اصل میں بہت سے لوگ، طبی سہولت نہ ملنے کے سبب یا طبی اخراجات کی استطاعت نہ رکھنے کے سبب اپنی رہائش گاہ پر فوت ہوئے اور کووڈ کیلئے ان کی جانچ نہیں  ہوئی۔ اتنا ہی نہیں، یہ بھی دیکھا جانا چاہئے کہ سرکاری ریکارڈمیں موت کا سبب کیا لکھا گیا۔ کوئی شخص کووڈ سے متاثر تھا مگر اسے دیگر عوارض بھی لاحق تھے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا چیز اس کی موت کا سبب بنی۔ حکومت متوفین کی تعداد کم ہی بتاتی ہے کیونکہ اصل تعداد بتانا یہ ماننے کے مترادف ہے کہ یہ اس کی نااہلی کی وجہ سے ہوا۔ مگر، حقیقی تعداد نہ بتانا اور یہ تاثر دینا کہ بہت کچھ قابو میں ہے، ایک خطرناک کھیل ہے۔
 حکومت کو حقیقت بیانی سے کام لیتے ہوئے دوٹوک انداز میں مہلوکین کی اصل تعداد ظاہر کرنا چاہئے۔ اس کے ذریعہ شفا یاب ہونے والوں کا فیصد (ریکوری ریٹ) ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ ایک بے معنی اعلان ہے کیونکہ یہ ایسی بیماری ہے جس کا علاج تو دریافت نہیں ہوسکا ہے پھر شفایاب ہونے والوں کی تعداد بتانے کاکیا مقصد ہے؟ اگر ایسے ہی بے معنی اعلان ہوتے رہے تو لوگ خبردار نہیں رہیں گے اور کووڈ سے بچنے کی ضروری احتیاط کو عمل میں نہیں لائینگے۔ 
 اموات میں بے تحاشا اضافے کا جہاں تک تعلق ہے، اس کی ایک وجہ آکسیجن کی کمی ہے۔ دہلی کے بعد اب بی جے پی حکومت والی دو ریاستوں، گجرات اور کرناٹک،نے بھی کہہ دیا ہے کہ اُنہیں مودی حکومت کی جانب سے خاطر خواہ آکسیجن سپلائی نہیں ہورہی ہے۔ گجرات کا کہنا ہے کہ اسےیومیہ ۱۴۰۰؍ ٹن آکسیجن درکار ہے اور ۱۵؍ مئی سے ۱۶۰۰؍ ٹن درکار ہوگی۔ اسے فی الحال ۷۹۵؍ ٹن کی سپلائی ہورہی ہے۔ کرناٹک کا کہنا ہے کہ اسے ۱۲۰۰؍ ٹن آکسیجن کی ضرورت ہے جبکہ مرکز کی جانب سے اسے صرف ۹۶۲؍ ٹن سپلائی کی جارہی ہے۔ مرکزی حکومت نے بار بار دعویٰ کیا ہے کہ اس کے پاس آکسیجن کا کافی ذخیرہ موجود ہے مگر یہ سچ نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنا ذخیرہ نہیں ہے جتنا کہ اِس وقت ضروری ہے۔ سچ کو چھپا کر یعنی آکسیجن کی مقدار ناکافی ہونے کا اعتراف نہ کرکے ہم حالات کو زیادہ خراب کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کررہے ہیں۔
 اب اس صورتحال کے نتائج کو بھی سمجھ لیجئے۔ مسئلہ صرف یہ نہیں کہ عالمی سطح پر ہماری شبیہ اور ساکھ خراب ہوئی ہے بلکہ اس سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ دُنیا ہمارے سرکاری اعدداوشمار کو پیش کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ یہ تعداد درست نہیں ہوسکتی۔ شبیہ اور ساکھ کا جو نقصان ہوسکتا تھا وہ ہوا۔ اب خدانخواستہ یہ ہوسکتا ہے کہ مزید ملک ہندوستانی شہریوں کی آمد پر پابندی لگائیں۔ اب تک جن ملکوں نے پابندی عائد کی ہے اُن کی تعداد کم نہیںہے۔ کووڈ کی دوسری لہر آج نہیں تو کل ختم ہوجائیگی مگر کوئی تیسری لہر بھی آئی تب اگر انہوں نے موجودہ حالات کو سامنے رکھ کر سوچا کہ ہمارے اعدادوشمار میں گڑبڑ ہوتی ہے تو یہ ممالک ہمارے اعدادوشمار میں اپنے اندازے سے اضافہ کریں گے ۔ اس سے بیرونی ملکوں میں بغرض روزگار جانے والوں کا مفاد بُری طرح متاثر ہوگا۔ ورک ویزا حاصل کرنا مشکل ہوجائیگا اور ہندوستانی تجارت کو نقصان اُٹھانا پڑسکتا ہے۔ 
 اس لئے متوفین کی حقیقی تعداد کا پتہ چلانا اور اس کا اعتراف کرنا کووڈ کے خلاف سنجیدہ اقدامات میں ہمارا پہلاقدم ہونا چاہئے ۔n

oxygen Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK