Inquilab Logo

غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ حکومت کا سوتیلا سلوک

Updated: July 18, 2021, 1:14 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

حکومت ’’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘‘ پر یقین رکھتی ہے مگر اس نے این جی اوز کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کر رکھا ہے وہ پریشان کن ہے۔ ملک کو اس کا نقصان بھی ہوا۔

Due to government conditions Many donors could not donate oxygen plants and concentrators They were for rural areas.Picture:Inquilab
حکومت کی شرطوں کے سبب بہت سے عطیہ دہندگان وہ آکسیجن پلانٹ اور کانسنٹریٹر عطیہ نہیں کر سکے جو دیہی علاقوں کیلئے تھے تصویر انقلاب ۔

کم ہی لوگ سمجھ سکے ہوں گے کہ نیتی آیوگ کیا ہے اور یہ کیا کرتا ہے مگر اس کے سربراہ امیتابھ کانت نے بہت واضح لفظوں میں کہا ہے کہ کاروبار اور تجارت میں آسانی (ایز آف ڈوئنگ بزنس) کو کس طرح بڑھایا جاسکتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایک ہی جگہ پر تمام اجازت ناموں کا حصول، اس حصولیابی میں تعجیل اور اگر زمین اکوائر کرنی ہوتو اس میں سہولت ہی وہ نسخہ ہے جس سے کاروبار اور تجارت میں سہولت اور آسانی پیدا ہوسکتی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سماجی شعبہ جات بالخصوص شعبہ ٔ صحت میں سرکاری اور عوامی شراکت بھی کارآمد ہوسکتی ہے جس سے سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہوں گے۔
 اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کو ان تجاویز اور مشوروں پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ ہندوستان میں روزگار پانے والے لوگوں کی تعداد پچھلے پانچ سال میں کافی کم ہوئی ہے جبکہ آبادی بڑھ گئی ہے۔ اس پس منظر میں، مَیں چاہوں گا کہ ایک زمرے کا جائزہ لیا جائے جس کی تفصیلی معلومات میرے سامنے ہے:
 امریکہ میں غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) سے روزگار پانے والوں کی تعداد کسی زمرے میں ملازمت پانے والوں کی تیسری بڑی تعداد ہے۔ ریٹیل اور مینوفیکچرنگ کمپنی میں کسی این جی او سے زیادہ لوگ روزگار پاتے ہیں مگر امریکہ کی ۵۰؍ میں سے ۲۴؍ غیر سرکاری تنظیموں میں تمام مینوفیکچرنگ کمپنیوں کے ملازمین سے زیادہ لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ یورپ میں روزگار کے مجموعی مواقع کا ۱۳؍ فیصد غیر سرکاری تنظیمیں فراہم کرتی ہیں۔ اسے صرف ۱۳؍ فیصد سمجھنا کافی نہیں بلکہ ملازمتوں کی مجموعی تعداد کو دیکھنا چاہئے جو کہ ۲ء۸؍ کروڑ ہے۔ اسے دوسرے طریقے سے اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں منظم زمرہ ۱۰؍ فیصد سے کم روزگار فراہم کرتا ہے۔ 
 اب آپ یہ دیکھئے کہ ہندوستان میں ہماری حکومت نے اس نجی زمرے میں تجارتی و کاروباری سہولت اور آسانی پیدا کرنے کیلئے کیا کیا ہے۔ ۲۰۲۰ء میں مودی حکومت نے این جی اوز کی سرگرمیوں میں تبدیلیوں کا حکم جاری کیا۔ پہلی تبدیلی یہ تھی کہ وہ ۲۳؍ ہزار غیر سرکاری تنظیمیں جنہیں غیر ملکی عطیات ملتے ہیں اُن کے عطیات اسٹیٹ بینک کی صرف ایک برانچ واقع سنسد مارگ میں موصول ہوں۔ دہلی میں رجسٹر شدہ غیر سرکاری تنظیموں کی تعداد صرف ۱۴۸۸؍ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بقیہ تمام کو اگر غیر ملکی عطیہ وصول کرنا ہو تو وہ دہلی آئیں اور اسٹیٹ بینک کی سنسد مارگ برانچ میں کھاتہ کھولیں۔ آپ ہی سوچئے کیا یہ ایز آف ڈوئنگ بزنس ہے؟  یہ سوتیلا سلوک نجی سیکٹر کے کسی بھی دوسرے شعبے کے ساتھ نہیں اپنایا گیا۔ اُن کارپوریٹ کمپنیوں پر بھی یہ شرط نہیں لگائی گئی جو ملک کے کسی بھی حصے میں غیر ملکی عطیات قبول کرسکتی ہیں۔ 
 ۱۹۔۲۰۱۸ء میں ۴۶؍ فیصد سے زیادہ این جی اوز کو بالکل بھی غیر ملکی عطیات نہیں ملے جبکہ ان کے پاس ایسے عطیات قبول کرنے کا اجازت نامہ (ایف سی آر اے لائسنس) ہے۔ ۴۱؍ فیصد این جی اوز کو جو رقم ملی وہ ایک کروڑ روپے سے کم تھی۔ 
 مودی حکومت نے جو دوسری شرط عائد کی وہ یہ تھی کہ این جی اوز اپنی آمدنی کا صرف ۲۰؍ فیصد ’’انتظامی اُمور‘‘ پر خرچ کریں۔ اگر آپ جاننا چاہیں کہ انتظامی اُمور میں کیا کیا شامل ہے تو معلوم ہو کہ  اس میں تنخواہیں، سفری اخراجات، افراد کی تقرری کا خرچ، بجلی اور پانی کا بل، اسٹیشنری اور طباعت کے اخراجات، ڈاک و تار اور کوریئر کا خرچ، اگر گاڑیاں ہیں تو آمدورفت کے اخراجات، ٹیلی فون چارجیز، قانونی اور پیشہ جاتی اخراجات اور کرایہ وغیرہ کو شامل کیا گیا۔ ان تمام اخراجات کے سامنے یہ شرط اور قید کہ مجموعی آمدنی کا صرف ۲۰؍ فیصد ان پر خرچ کیا جائے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں یہ کتنا مشکل ہے مگر مَیں ان مشکلات کا ذکر کئے بغیر یہ کہنا چاہوں گا کہ نجی زمرہ کے کسی اور شعبے پر یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اپنے ہی پیسے سے کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں۔
 تیسری شرط یہ لگائی گئی کہ کوئی بھی این جی او، دیگر چھوٹی این جی اوز کو عطیہ نہیں دے سکتی خواہ وہ چھوٹے پیمانے پر کتنا ہی اچھا کام کررہی ہو اور بڑے عطیات تک اس کی رسائی نہ ہو۔ اس سے این جی اوز کی سرگرمیوں پر کافی اثر پڑے گا کیونکہ بڑی این جی اوز، کئی چھوٹی چھوٹی این جی اوز سے تعاون حاصل کرتی ہیں۔ اشوکا یونیورسٹی نے اپنے ایک مطالعے میں بتایا ہے کہ ۱۹۔۲۰۱۸ء میں ۴۱۰۷؍ چھوٹی این جی اوز کی نصف تعداد کو بڑی این جی اوز کے ساتھ تعاون کے صلے میں جو رقم ملی وہ صرف ۷ء۶؍ لاکھ روپے یا اس سے بھی کم تھی۔ اب اُنہیں اتنا بھی ملنے کی اُمید نہیں رہ جائیگی۔
 اس کے علاوہ بھی مودی حکومت نے کئی شرطیں عائد کی ہیں مگر ان کی تفصیل میں نہ جاتے ہوئے اب مَیں، این جی اوز کے ساتھ اس سلوک کے اثرات پر روشنی ڈالوں گا۔ جب کووڈ کی دوسری لہر نے سب کچھ تہ و بالا کردیا تو مودی حکومت انہی این جی اوز سے تعاون کی طلبگار ہوئی۔ بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ کے لئے ۱۰؍ این جی اوز سے بات چیت کی تو کھلا کہ وہ لوگوں کی مدد سے عاجز ہیں کیونکہ مودی حکومت کی شرائط کے سبب اُن کے ہاتھ بندھ گئے ہیں۔ انہی شرطوں کی وجہ سے وطن عزیز کے اسپتالوں کو کووڈ سے متعلق وہ سازو سامان نہیں مل سکا جو بیرونی ملکوں کے عطیہ دہندگان نے بھجوایا تھا۔ انہی شرطوں کی وجہ سے بہت سے عطیہ دہندگان وہ آکسیجن پلانٹ اور کانسنٹریٹرعطیہ نہیں کر سکے جو دیہی علاقوں کیلئے تھے۔ ایک اسپتال جہاں آکسیجن کی کمی کے سبب دو درجن سے زائد مریض فوت ہوچکے تھے، عطیہ دہندگان اُس اسپتال کو آکسیجن کے حصول میں مدد نہیں دے سکے کیونکہ مذکورہ شرطیں حائل تھیں۔ کسی تنظیم کو یہ استحقاق نہیں تھا کہ فارین کانٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ (ایف سی آر اے) کے تحت خود کو رجسٹر کرائے بغیر طبی تعاون تعاون حاصل کرے۔ 
 اگر حکومت، ایز آف ڈوئنگ بزنس کے تعلق سے واقعی سنجیدہ ہے تو ملک میں این جی او سیکٹر کے ساتھ وہ جو کچھ بھی کررہی ہے، اُسے اُس سے اجتناب برتتے ہوئے اس سیکٹر کو اُتنی ہی آزادی دینی چاہئے جتنی نجی زمرے کے دیگر اداروں کو حاصل ہے۔ اسے یورپ، امریکہ اور برطانیہ کے این جی اوز کا جائزہ لینا چاہئے کہ وہاں یہ سیکٹر کتنا فعال ہے اور کس طرح معیشت اور روزگار کے مواقع پر مثبت اور بیش قیمت اثرات مرتب کرتا ہے۔ n 

oxygen Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK