Inquilab Logo Happiest Places to Work

زندگی پُرتعیش مگر دل پُر سکون نہیں، ایسا کیوں ہے؟

Updated: December 08, 2023, 2:58 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai

اسلام نے انسان کیلئے سکون حاصل کرنے کا سب سے آسان نسخہ بتلایا ہے: اللہ کا ذکر، لیکن کیا ہم صحیح معنوں میں اللہ کو یاد کرتے ہیں؟

One should understand the fact that even if the wealth of the world is at your feet, but the heart can find comfort and peace only when the heart is filled with the remembrance of Allah. Photo: INN
اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہئے کہ خواہ دنیا کی دولت آپ کے قدموں میں ہو، لیکن دل کو راحت و سکون اسی وقت مل سکتا ہے جب دل ذکر الٰہی سے لبریز ہو۔ تصویر : آئی این این

آج کے دور میں انسان کو جو سہولیات میسر ہیں ، جو آسانیاں اس کو حاصل ہوگئی ہیں ، انسانیت کی پوری تاریخ میں شاید ہی کبھی اتنا تن آسانی کا دور آیا ہو۔ شاید ہی کبھی انسان کیلئے سفر کرنا، کسی کو پیغام بھیجنا، تعمیرات کرنا، کتاب یا مضمون وغیرہ تحریر کرنا اور دیگر بہت سارے کام کرنا اس قدر سہل ہوگیا ہو کہ خود حضرت انسان بھی اس پر یقین نہیں کر پارہے ہیں ۔ اتنی ساری سہولیات حاصل ہونے کے بعد اب فطری بات تھی کہ انسان کے دل کو ابدی سکون حاصل ہوجاتا، اس کی زندگی میں ایک ٹھہراؤ آجاتا، اس کےذہن و دماغ میں ایک قرار برپا ہوتا جوا س کی روح تک سرایت کرجاتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ آج کے دور کے انسان کو سکون میسر آتا، وہ اور بھی زیادہ بے چین ہو اٹھا ہے۔ اس کو ایک تاریخی المیہ ہی کہئے کہ قرار کا دور ہی بیقراری کا دور بن گیا ہے چنانچہ آج کا انسان جتنا مضطر اور پریشان ہے ،انسانی تاریخ میں شاید ہی پہلے کبھی رہا ہو۔
 اس کی وجہ ہے۔ وہ ہے اپنے خالق و مالک سے اور اس کی یاد سے دوری اختیار کرنا۔ اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں نہایت واضح انداز میں انسانی دل کا سکون حاصل کرنے کا نسخہ بیان فرمادیا تھا۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور جن کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ۔ یادرکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ ‘‘ (الرعد:۲۸)یعنی اللہ عزوجل نے اس بات کا اعلان فرمادیا کہ صرف اس کی یاد ہی وہ واحد شے ہے جو انسانی دل کو سکون سے آراستہ و پیراستہ کرسکتی ہے، اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ نہ صرف یہ کہ وقت کا ضیاع ہے بلکہ ایسی کوششیں کرنے والے عقلی دیوالیہ پن کا شکار ہیں اور امن و سکون کے نسخے کو سمجھنے سے عاری ہیں ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان بھلا کیسے بے چین ہوسکتا ہے جبکہ ہر طرف اللہ کی عبادت، اللہ کا ذکر ہو رہا ہے۔ آج ہماری مساجد آباد ہیں ، حج اور عمرے کو جانے والوں کی تعداد ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ رہی ہے، ذکر الٰہی کا بہترین ذریعہ یعنی قرآن مجید کی تلاوت کیلئے شاید ہی قرآن مجید کے اتنے نسخوں کی طباعت کبھی ہوئی ہو۔اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود دِلی اطمینان سے محرومی کیو ں ہے؟
 شاید اس سوال کے جواب کیلئے علامہ اقبالؒ کی شاعری کی جانب رجوع کرنا ہوگا کہ ایک شعر کے ذریعہ انہوں نے یہ سارے شکوک وشبہات دور کردئیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں :
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں ، تُو باقی نہیں ہے
آج لاکھوں مسلمان نمازوں کے معاملے میں اتنے لاپروا ہیں کہ مساجد میں صرف جمعہ کو ہی نظر آتے ہیں ۔ امت کا ایک بڑا طبقہ ’جب وقت اور سہولت ملے‘تب ہی نماز کیلئے مساجد میں جاتا ہے۔ اسی لئے فجر کی نماز میں مساجد میں اکثر اکا دکا ہی صفیں بنتی ہیں ۔ حج و عمرہ کو جانے والوں میں سے بعض نے تو حرمین کو ایک ٹورسٹ مقام بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے زکوٰۃ ، صدقات ودیگر امدادی کام سیلفی کے ذریعہ خود نمائی کا حربہ بن گئے ہیں ، ہماری تلاوت کے متعلق اگر بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے کہ گویا قرآن کی تلاوت کو اکثر لوگوں نے صرف اور صرف رمضان سے جوڑ رکھا ہے۔ یہ تو تلاوت کا حال ہے، اس کوسمجھ کر، اس پر عمل کرکے دوسروں تک اس کا پیغام پہنچانے کا مرحلہ کب آئے گا؟ ہر کوئی اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ 
ان سب بے اعمالیوں او ربد اعمالیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے دلوں سےاطمینان مکمل طور پر غائب ہوچکا ہے۔ آج ہمارے گھر گویا بے برکتی اور بے چینی کی جیتی جاگتی مثال بن چکے ہیں ۔ والدین کو شکایت ہے کہ اولاد ان کی نافرمان ہوچکی ہے اور ان کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہے، اولاد کو شکایت ہےکہ والدین ان کے ساتھ انصاف سے کام لیتے ہیں نہ ہی ان کے جذبات و خیالات کو سمجھتے ہیں ۔ رشتے داریوں میں دراڑیں پڑچکی ہیں ،پڑوسیوں میں کوئی ایک دوسرے کا پرسان حال نہیں ہے، ہمارے کاروبار برکت سے خالی ہیں ، جن کو نوکریاں نہیں ہیں وہ نوکریوں کیلئے پریشان ہیں ، جن کو نوکریاں میسر ہیں وہ کام کے بوجھ سے پریشان ہیں ۔ ہمارے خرچ آمدنی سے زیادہ ہیں ، ہماری آمدنی ضروریات سے کم ہے۔ القصہ مختصر یہ کہ مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ ایک ایسے بھنور میں گرفتار ہے کہ جہاں سکون و اطمینان نام کا کنارہ دور دور تک نظر نہیں آتا۔ اور اس سب کی وجہ یہ ہے کہ ہماری زندگیاں ذکر الٰہی سے خالی ہوچکی ہیں ۔ ہم انسانی دلوں کے سکون کا یہ اصول یکسر بھلاچکے ہیں کہ:
نہ دنیا سے نہ دولت سے نہ گھر آباد کرنے سے
تسلی دل کو ملتی ہے خدا کو یاد کرنے سے
اور ہم اس تسلی سے اس لئے محروم ہیں کہ ہم نے اپنی زندگی شیطان کے حوالے کررکھی ہے۔ ہر لمحہ، ہرگھڑی شیطان کی چالبازی ہمیں الجھا کر ذکر الٰہی سے دور کرتی رہتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہماری دنیا ہی تعمیر نہیں ہوپاتی جبکہ آخرت تو غیر آباد ہی رہتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شیطان نے ان پر غلبہ پایا اور انہیں اللہ کی یاد سے غافل کردیا (سورۃ المجادلۃ آیت ۱۹)
جہاں تک سوال ہے اللہ تعاٰلی کی یاد کا، اس کے ذکر کا، تو علمائے کرام نے اس کی الگ الگ شکلیں بیان کی ہیں ۔ ذکر الٰہی کی اعلیٰ شکل نماز اور قرآن مجید کی تلاوت ہے کہ رب کائنات کے حضور میں سجدہ ریز ہونا اور اس کے کلام کو پڑھنا انسانی دل کےاطمینان اور آسودگی کا سب سے اچھا سامان ہے۔ کسی بزرگ کا قول ہے کہ جب میں چاہتا ہوں کہ میرے رب کریم سے بات کروں تو میں نماز پڑھتا ہوں ، اور جب میں چاہتا ہوں کہ میرا رب کریم مجھ سے بات کرے تو میں قرآن پڑھتا ہوں ۔ اسی طرح شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ذکر الٰہی کی دس اقسام بیان کی ہیں : (۱) تسبیح (۲) تحمید (۳) تہلیل (۴) تکبیر (۵) فوائد طلبی اور پناہ خواہی (۶) اظہار تواضع (۷) توکل (۸) استغفار (۹) اسمائے الٰہی سے برکت حاصل کرنا، اور (۱۰) درود شریف۔
ذکر الٰہی کی ان ساری شکلوں کا اصل مقصود یہ ہے کہ انسانی دل کو رب کریم کااستحضار نصیب ہوجائے۔ اس لئے کہ جب انسان کو ہر وقت، ہر لمحہ، ہرگھڑی اللہ تعالی کا استحضار نصیب ہوجائے گا تو خود بخود اس کے سارے معاملات اس دین کے مطابق ہوجائیں گے جو حضرت محمدﷺ لائے ہیں ۔ اور جب ایک انسان کی زندگی اللہ کے استحضار کے ساتھ دین اسلام کے مطابق گزرے تو دنیا کی کوئی طاقت پھر اس زندگی کو امن وسکون سے محروم نہیں کرسکتی۔ پھر تو انسان کی زندگی میں وہ مرحلہ بھی آتا ہے کہ دُنیا کے دیگر مسائل تو درکنار انسان موت سے بھی آنکھیں چار کرتے ہوئے خوف محسوس نہیں کرتا۔ وہ یا أیتھا النفس المطمئنۃ (اے مطمئن جان) کی چلتی پھرتی اور عملی تصویر بن جاتا ہے۔ 
 بس یہی وہ دل ہے کہ جو دن رات اللہ کی یاد سے معطر رہتا ہے۔ یہی وہ دل ہے جس کو دنیا و آخرت میں سکون جیسا سکون نصیب ہوتا ہے۔ یہی وہ دل ہے کہ جس کا امن و سکون دُنیا کے حقیر اور بے وقعت مسائل نہیں چھین سکتے ہیں ۔ یہی وہ دل ہے جس کے متعلق اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: ’’اے مطمئن جان! اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔‘‘ (سورۃ الفجر ۲۷-۲۸) 
 بس یہی وہ دل ہے جس کو حاصل کرنے کیلئے ہمیں جی جان کی بازی لگادینی چاہئے اور ایک مرتبہ جب یہ حاصل ہوجائے تو پھر تاحیات اس کو اسی حالت پر بچاکررکھنے کی فکر کرنی چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK