Inquilab Logo

صبر خوش تدبیری ہے، اسے بزدلی نہ سمجھا جائے

Updated: January 21, 2022, 1:35 PM IST | Maulana Khalid Saifulah Rahmani | Mumbai

موجودہ حالات میں مختلف محاذوں پر مسلمانوں کو الجھانے کی ناکام کوششیں کی جاتی ہیں جن میں بعض اوقات مسلمان جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے ۔ حالانکہ دین اسلام میں نامساعد حالات کا مقابلہ بھی صبر اور نماز سے کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ صبر صرف شخصی مصیبت کو سہنے کا نام نہیں بلکہ اجتماعی اور قومی زندگی میں ضبط و تحمل کا راستہ اختیار کرکےد شمن کے عزائم کو ناکام بنانے کا نام بھی صبر ہے۔

Whatever the circumstances, Muslims should be more conscious and prudent than zeal..Picture:INN
حالات و و اقعات خواہ کیسے بھی ہوں، مسلمانوں کو جوش سے زیادہ ہوش اور حکمت و تدبیر اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تصویر: آئی این این

 انسان  کا جسم کتنی ہی بیماریوں کا مخزن ہے۔ یہ بیماریاں ہی ہیں جو انسان کو اس کے عجز و ناطاقتی کا احساس دلاتی رہتی ہیں اور بہت سے غفلت شعار قلوب و اذہان کے لئے یہی خدا کو یاد کرنے کا سامان ہیں۔ ان ہی بیماریوں میں ایک مشہور اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے آج کل کثیرالوقع بیماری وہ ہے جسے ’’الرجی‘‘ اور ’’حسامیہ‘‘ کہتے ہیں۔ اطباء کا خیال ہے کہ جسم میں بعض جراثیم قوت برداشت کھو دیتے ہیں۔ ایسے میں جب کوئی بیرونی اور ناموافق چیز جسم میں داخل ہوتی ہے، تب  یہ فوج حرکت میں آجاتی ہے اور غیرمعمولی ردّعمل ظاہر کرتی ہے۔ پھر تو مریض کا حال نہ پوچھئے، چھینکوں کا ایک طوفانی سلسلہ مثلاً نزلہ، کھانسی وغیرہ شروع ہوجاتی ہے جس سے مریض بے حال ہوجاتا ہے ۔   جیسے جسمانی سطح پر الرجی انسان کو کمزور کر دیتی ہے اور اس کی معتدل کیفیت کو زیر و زبر کرکے رکھ دیتی ہے اسی طرح قومیں بھی ’’الرجی‘‘ سے دوچار ہوتی ہیں۔ بعض قوموں اور گروہوں میں برداشت کی قوت ختم ہوجاتی ہے اور ردّعمل کی کیفیت بڑھ جاتی ہے۔ وہ بات بات پر مشتعل ہوتی ہیں، مخالفین کا ایک بیان مہینوں ان کو الجھا کر رکھتا ہے اور بے برداشت ہونے کی وجہ سے ایسی جذباتیت کا ان سے مظاہرہ ہوتا ہے جس کا نقصان خود ان کو پہنچتا ہے۔ ایسی قومیں دشمنوں اور بدخواہوں کی سازشوں کا شکار ہوکر اپنے حقیقی مسائل کی طرف توجہ نہیں دے پاتیں اور  ہمیشہ ردّعمل میں الجھی رہتی ہیں۔ دوسری قومیں تعلیمی، معاشی اور دوسرے پہلوؤں سے آگے بڑھتی رہتی  ہیں اور یہ سنہرا وقت مشتعل مزاج قوم ماتم وزاری اور سینہ کوبی میں گزار دیتی ہیں۔  ہندوستان میں مسلمان اکثروبیشتر ایسے حالات سے گزرتے ہیں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہم ایک طرح کی قومی الرجی میں مبتلا ہیں۔ ہمیں مشتعل کرنے کیلئے افواہیں بھی کافی  ہیں۔ ایک غیرمعروف شخص بھی اگر کوئی معاندانہ بات کہہ دے تو ہم لمحوں میں سڑک پر آجاتے ہیں اور اس شدت سے صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں کہ معمولی شخص ہیرو بن جاتا ہے اور معمولی تحریریں، جن کی اصل جگہ ردّی کی ٹوکری ہے، محض تجسس میں قبولِ عام و خاص حاصل کرلیتی ہیں۔ اس مزاج کا نتیجہ یہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی سے زائد برسوں میں ہم نے پایا بہت کم ہے اور کھویا بہت زیادہ ہے۔ کچھ چیزیں یقیناً ایسی ہیں جن کے بارے میں حکومتوں سے ہمارا شکوہ بجا ہے لیکن بہت سی چیزیں وہ ہیں جنہیں حاصل کرنے میں ہم حکومتوں کے محتاج نہیں ہیں۔ مسلمانوں میں خواندگی کی سطح سب سے کم ہے، ہماری خواتین کا تعلیمی تناسب کم نہیں، کمترین ہے، معمولی اور اوسط درجے کی تجارت، جو سرکاری اجازت سے متعلق نہیں ہے، اس میں بھی ہم بہت پسماندہ ہیں، زراعت میں نئے وسائل کے استعمال کی اہمیت کو اب تک ہم نے نہیں سمجھا ہے، حکومت کی بہت سی فلاحی اسکیمیں ہیں اور بعض فلاحی پروگرام بین الاقوامی تنظیموں کے تحت انجام پاتے ہیں، مسلمان ان سے بھی واقف نہیں۔ ان کا ذمہ دار کوئی اور نہیں، ہم  ہی ہیں۔  حالانکہ مسلمانوں کے پاس بہترین ذہانتیں ہیں ، افرادی وسائل ہیں، وہ اس ملک کی دو سری بڑی اکثریت ہیں، مسلمان مزدوروں اور ہنرمندوں کے بیرونی ممالک میں جانے سے ان کی معاشی حالت میں بھی فرق آیا ہے، مذہب سے جتنا تعلق آج مسلمانوں کو ہے  شاید کسی اور قوم کو نہیں ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری پسماندگی کا کوئی علاج نہیں ہوپاتا؟… اس کی ایک اہم وجہ یہی اشتعال اور تحمل و برداشت کا فقدان ہے۔ ہم وقتی  حالات پر اتنا سخت ردّعمل ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری پوری صلاحیت اور قوت یا اس کا بڑا حصہ دفاعی کوششوں میںگزرتا ہے، اور ہم کوئی طویل العمل دوررس اثر کی حامل، ٹھوس اور تعمیری منصوبہ بندی نہیں کرپاتے۔ لیکن ، اب اللہ کا تعالیٰ کا شکر ہے کہ سیاسی حالات کی ناموافقت نے مسلمانوں کو ایک نئی راہ دکھائی ہے اور اب انہوں نے دوسروں کے سہارے جینے کے بجائے خوداعتمادی کے ساتھ جینے کا حوصلہ سیکھ لیا ہے۔  بحمدللہ پورے ملک میں مسلمان ابتدائی، ثانوی، اعلیٰ اور فنی تعلیم کی طرف متوجہ ہیں، دینی تعلیم کی طرف بھی رجحان بڑھا ہے، ملازمت سے مایوس ہوکر تجارت کی طرف ان کے قدم بڑھ رہے ہیں اور سیاست کی سنگلاخ وادی میں آبلہ پائی کرنے کے بجائے اب ان کی توجہ ایک طرف اگلی نسلوں کے ایمان کی حفاظت اور دوسری طرف تعلیم اور معیشت کی طرف ہورہی ہے۔ یہ صورتِ حال بھی فرقہ پرست قوتوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے اور وہ اس بات کے لئے سرگرداں ہیں کہ اس قوم کو دوبارہ اس کی بیماری  میں مبتلا کریں، اسے مشتعل کریں، اس کے جذبات کو اکسائیں، اس کی اَنا کو ٹھیس لگائیں، اس کو بے برداشت کریں تاکہ تعمیر سے اس کا ذہن ہٹ  جائے اور یہ قوم ایسی ڈور کو سلجھانے میں لگ جائے جس کے سلجھنے کا اسے ایک پائی بھی فائدہ نہیں اور جس میں اس کی انرجی اور صلاحیت کا بڑا حصہ ضائع ہوجائے۔  حالیہ دنوں میں مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے سیاسی لیڈران کی بیان بازیاں جاری ہیں ۔ اتنا ہی نہیں، اسلام اور پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی بھی مذموم کوششیں وقتاً فو قتاً ہوتی رہتی ہیں تاکہ مسلمانوں کو مشتعل کیا جائے۔ لیکن مسلمانوں نے ان اشتعال انگیزیوں کو اپنی سمجھداری کے ذریعے ناکام  بنانے کی پوری کوشش کی ہے۔ یہ بزدلی نہیں، بلکہ خوش تدبیری ہے۔ یہ فرار نہیں بلکہ دشمن کے وار کو خالی کرنا ہے۔ یہ ہزیمت نہیں بلکہ معاندین کی سازشوں کو ناکام و نامراد بنانا ہے اور اس لئے یہ شکست نہیں بلکہ فتح مندی اور ظفریابی ہے۔ قرآن کی زبان میں اس کا نام ’’صبر‘‘ ہے۔ صبر صرف شخصی مصیبت کو سہنے کا نام نہیں بلکہ اجتماعی اور قومی زندگی میں ضبط و تحمل کا راستہ اختیار کرکےد شمن کے عزائم کو ناکام بنانے کا نام بھی صبر ہے۔ صبر سے انسان دہرا فائدہ اٹھاتا ہے۔ ایک تو اپنی قوت کے ضائع ہونے سے بچتا ہے، دوسرے اپنے تعمیری کام میں تسلسل کو برقرار رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ  نے آخرت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ صبر پر دُہرا اجر دیا جائے گا ۔(القصص)۔  اس میں گویا اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ دنیا میں بھی صبر دُہرے فوائد کا حامل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو آخرت کی مثال بنا کر پیدا کیا ہے۔ ’’صبر‘‘ کامیابی اور ظفرمندی کی کلید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنواسرائیل کے بارے میں یہی بات ارشاد فرمائی کہ ’’بنی اسرائیل کے حق میں آپ کے رب کا نیک وعدہ پورا ہوگیا اس وجہ سے کہ انہوں نے (فرعونی مظالم پر) صبر کیا تھا۔‘‘ (الاعراف) صبر میں بظاہر ہزیمت محسوس ہوتی ہے لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ مژدہ ٔ فتح و نصرت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنائیے۔‘‘ (البقرہ) قرآن مجید نے یہ بات بہت واضح طریقہ پر کہی ہے کہ اللہ کی نصرت کو پانے کا ذریعہ دو چیزیں ہیں: صبر اور نماز۔ اور پھر خاص طور پرصبر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ’’اللہ تعالیٰ  صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (البقرہ) حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کوئی شخص مال یا جان کے معاملہ میں آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے اور وہ لوگوں سےاس کا شکوہ نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہوجاتا ہے کہ وہ اسے معاف کردے۔ (مجمع الزوائد) جیسے یہ بات افراد کے بارے میں کہی جاسکتی ہے، قوموں اور گروہوں کےبارے میں بھی کہی جائے تو بے جا نہ ہو ، کہ جو قوم دوسروں کے سامنے کاسۂ گدائی لے کر کھڑی رہے اور محض ناانصافی کارونا روتی رہے، وہ دنیا میں بھی ذلیل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی توجہ بھی اس کی طرف سے ہٹ جاتی ہے۔ اس کے برعکس جو قوم اللہ پر بھروسہ کرکے ناموافق باتوں کو برداشت کرتے ہوئے آگے بڑھتی جائے، کامیابی اس کے قدم چومتی ہے اور اللہ کی رحمت اس پر سایہ فگن رہتی ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ایک بار صبر کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ ’’ان کیلئے امن اور ہدایت ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد) یعنی صبر کی وجہ سے امن و امان کی حالت رہتی ہے اور وہ صحیح راہ پر گامزن رہتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے عملی زندگی میں اسے برت کر دکھایا۔ آپؐ کی مکی حیات ِ مبارکہ میں صحابہؓ بار بار قتال کی اجازت مانگتے لیکن آپؐ ہمیشہ صبر کی تلقین فرماتے۔ مدینہ میں منافقین نے مسلمانوں کو کس طرح دق کیا اور بغلی دشمن کا کردار ادا کیا، حضرت عمرؓ نے بعض منافقین کا کام تمام کرنے کی اجازت چاہی ۔ یہاں مسلمان طاقتور موقف میں تھے اورمنافقین کو کیفر کردار تک پہنچا سکتے تھے، لیکن آپؐ ان کی گستاخیوں اور ایذا رسانیوں کو   برداشت کرتے رہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر انہیں قتل کیا جائے، تو چونکہ لوگ ان کے نفاق سے واقف نہیں ہیں، عرب سمجھیں گے کہ دیکھو پہلے دشمنوں پر ہاتھ اٹھاتے تھے، اب طاقت ہوئی تو اپنوں پر تلوار اٹھانی شروع کردی۔ صلح حدیبیہ بظاہر آپؐ نے کتنی دب کر فرمائی، کہ پرجوش صحابہؓ کو بھی یہ صلح ناگوار خاطر تھی اور محض آپؐ کے احترام میں وہ خاموش تھے، اس صلح کو سبوتاژ کرنے کی بھی کوشش کی گئی کہ مشرکین کے ایک جتھے نے مسلمانوں پر حملہ کردیا  ، وہ گرفتار کئے گئے لیکن آپؐ نے انہیں رِہا فرما دیا ، کیونکہ آپؐ چاہتے تھے کہ ہر قیمت پر اہلِ مکہ سے تعلقات بہتر ہوں ، تاکہ وہ قریب سے اسلام کو دیکھ اور سمجھ سکیں۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی آپؐ نے جو عفوودرگزر سے کام لیا اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عربوں کے درمیان حرم کی جر حرمت تھی، اس سلسلہ میں مسلمانوں کے بارے میں کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔
 غرض، غور کیجئے تو آپؐ کی پوری حیات ِ طیبہ صبر سے عبارت ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنے اصل کام سے غافل اور دور نہ ہوجائیں۔ یہی صبر ہے جس کی ہندوستان کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کو ضرورت ہے۔ ہم بزدل  اور کم ہمت نہ ہوں، ہم کوتاہ حوصلہ اور بے غیرت بن کر نہ جئیں لیکن ہم اپنی فراست ِ ایمانی کی آنکھ کو کھلی رکھیں، دشمن کی سازش اور منصوبہ بندی کو سمجھیں اور دوسروں کے ہنگامہ سے متاثر ہو کر راستہ میں اس طرح نہ الجھ جائیں کہ کبھی ہماری منزل نہ آسکے۔ اسی خوش تدبیری اور معاملہ فہمی کا نام ’’صبر‘‘ ہے۔
 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK