Inquilab Logo

کیا ہماری خارجہ پالیسی ویسی ہے جیسی ہونی چاہئے؟

Updated: October 29, 2023, 12:58 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

مضمون کے پہلے پیراگراف میں درج شدہ مثالوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملے میں ہم کہاں ہیں اور یہ کتنی فائدہ مند اور کارگر ہے۔

Prime Minister Narendra Modi and Canadian Prime Minister Justin Trudeau. Photo: INN
وزیراعظم نریندرمودی اور کینڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو۔تصویر:آئی این این

ہندوستان نے غزہ میں  تشدد کے خلاف ووٹ دینے سے دوری اختیار کرلی جس سے امریکہ ناراض ہے۔ مالدیپ کے نئے سربراہ نے ہندوستان سے کہا تھا کہ وہ اُس ملک سے اپنے فوجیوں  کو ہٹا لے۔ قطر نے ہندوستانی بحریہ کے آٹھ افراد کو سزائے موت سنائی ہے۔ سری لنکا نے ہندوستان کے اعتراض کے باوجود چین کے جاسوس جہاز کو کولمبو میں  لنگر انداز ہونے دیا۔ بھوٹان نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی چین کے ساتھ ہونے والے سرحدی مذاکرات کو حتمی شکل دے گا۔ کناڈا نے کہا ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ ویزا کے معاملات کو ۲۰۲۴ء تک معمول پر نہیں  لاسکتا۔
 یہ سارے واقعات گزشتہ چند دنوں  میں  رونما ہوئے ہیں ۔ قارئین کو علم ہونا چاہئے کہ تمام جنوبی ایشیائی ملکوں  نے غزہ میں  تشدد ختم کرنے کے حق میں  ووٹ دیا ہے۔ ان میں  نیپال، سری لنکا اور بھوٹان تک شامل ہیں ، کوئی نہیں  ہے تو وہ ہندوستان نہیں  ہے۔ مالدیپ میں  ہندوستانی فوج کے ۷۰؍ افسران جو اب واپس آجائینگے، راڈار اسٹینوں  اور جاسوسی ایئر کرافٹس پر تعینات تھے۔ ہندوستانی فضائے طیارے خصوصی معاشی زون کی نگہبانی میں  مالدیپ کی مدد کیا کرتے تھے۔ اب ایسا نہیں  ہوگا جس کا سبب ہمیں  یہ بتایا گیا ہے کہ مالدیپ چین نوازی پر آمادہ ہے او راس کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ اس پس منظر میں  یہ اہم نہیں  ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کتنی کامیاب ہے جیسا کہ وزیر خارجہ کے ہمنوا کہتے نہیں  تھکتے، یا، ہماری خارجہ پالیسی ملک کی عالمی شبیہ کو تار تار کرتی جارہی ہے جیسا کہ ہم ایسے کچھ لوگ سوچتے ہیں ۔ یہ اس لئے اہم نہیں  ہے کہ مودی اقتدار کے دس سال مکمل ہونے کے قریب آتے آتے کسی نظریہ، پالیسی یا خیال کے مخالفین کی جو بھی تعداد ہو، موافقین کی تعداد بھی کم نہیں  ہے۔ اِس دور میں  آپ کسی کو کچھ سمجھا نہیں  سکتے۔
 البتہ ہم مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لینا چاہیں  تو یہ ایک دلچسپ عمل ہوگا۔ اس میں  یہ دیکھنا بھی لطف کی بات ہوگی کہ اس خارجہ پالیسی کے ذریعہ گزشتہ دس سال میں  کیا حاصل کیا گیا۔ ۲۰۱۴ء میں  بی جے پی کے منشور میں  کہا گیا تھا کہ حکومت سارک ملکوں  سے ہندوستان کے رشتوں  کو مستحکم کرے گی اور ہندوستانی ریاستوں  کی حوصلہ افزائی کی جائیگی کہ وہ سفارت کاری کے عمل میں  اہم کردار ادا کریں ۔ مثال کے طور پر پنجاب۔ اگر کناڈا کے ساتھ ویزا کے معاملات خراب ہوئے تو سب سے زیادہ پنجاب متاثر ہوگا اس لئے پنجاب کو موقع دیا جائیگا کہ وہ مرکزی حکومت کو خارجہ پالیسی کے معاملے میں  پنجاب کے مفادات کے پیش نظر ضروری مشورہ دے۔ (یہ ایک اچھی تجویز تھی مگر) ۲۰۱۹ء کے انتخابی منشور سے مذکورہ دونوں  نکات کو حذف کردیا گیا (سارک ملکوں  سے رشتوں  اور خارجہ پالیسی پر مشورہ دینے کیلئے ریاستوں  کی حوصلہ افزائی)۔ ان نکات کو حذف تو کردیا گیا مگر ان کی جگہ پر کچھ اور نہیں  کہا گیا اس کے باوجود جو لوگ خارجہ پالیسی کا بہ نظر غائر جائزہ لیتے ہیں  اُن کی رائے تھی کہ حکومت اس کی جگہ کچھ اور لائے گی۔ یہ گمان اس لئے پیدا ہوا تھا کہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے چین کی بالادستی، ہندوستان کی وہ دہائیاں  جو ضائع ہوگئیں ، مہابھارت اور کووڈ کی وباء جیسے موضوعات پر بھرپور اظہار خیال کیا تھا۔ ان موضوعات پر جے شنکر کی تقریروں  کو کتابی شکل میں  شائع کیا گیا ہے جس کا نام ہے: ’’ہندوستانی طریق کار: ایک نایقینی دُنیا کیلئے ہندوستان کی حکمت عملی‘‘۔ کیا آپ جاننا چاہیں  گے کہ ایس جے شنکر کس حکمت عملی کی بات کررہے ہیں ؟
 پہلا: جے شنکر نے فرض کرلیا تھا کہ امریکہ اور یورپ کی ترقیاتی دوڑ رُکی رہے گی (یہ کتاب ٹرمپ کے اقتدار کے خاتمے کے کچھ عرصہ پہلے شائع ہوئی) اور چین ترقیاتی دوڑ میں  آگے رہے گا جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہندوستان کو اِن ملکوں  کے ساتھ چلنے کا موقع ملے گا اور اس میں  مستقل مزاجی لازمی نہیں  ہوگی۔ ا س کا مطلب یہ ہے کہ ’’کثیر جہتی ایشیاء‘‘ میں  ہندوستان کو چین کے برابر آنے کا موقع ملے گا ۔ یہ موقع پرستی تھی مگر عالمی معاشی منظرنامہ میں  اس کی اجازت دی جاسکتی تھی۔ جے شنکر کا کہنا تھا کہ مہابھارت کا سبق یہ ہے کہ مکر و فریب اور غیر اخلاقیت کو اُصولوں  سے انحراف ہی سمجھنا چاہئے اس سے زیادہ کچھ نہیں  چنانچہ دروناچاریہ کا اکلویہ کا انگوٹھا طلب کرنا، ارجن کا شکھنڈی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا وغیرہ کوئی ایسی بات نہیں  تھی کہ جس پر اعتراض کیا جائے، یہ اُس دور کا طریق ِکار اور روایت تھی۔ جے شنکر کے مطابق غیر استقلال نہ صرف یہ کہ ٹھیک ہے بلکہ اس کی ضرورت ہے کیونکہ اگر آپ استقلال یا مستقل مزاجی پر اَڑے رہے تو آئے دن کے تغیرات سے گھری ہوئی اس دُنیا میں  آپ خود کو منوا نہیں  سکیں  گے۔ انہوں  نے خارجہ پالیسی کے ذریعہ ’’کثیر جہتی رابطہ‘‘ اور ’’ہندوستان پہلے‘‘ جیسے فقروں  کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان سے بہتر یہ کہنا ہے کہ ہم ’’خوشحالی کی دوڑ میں  آگے بڑھتے جائینگے اور اپنا اثرورسوخ بڑھاتے رہیں  گے۔‘‘ 
 حقیقت یہ ہے کہ وہ ’’ناوابستہ‘‘ جیسی کوئی اصطلاح گڑھنے میں  ناکام رہے اور اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اُن کی خارجہ پالیسی بے رس ہے۔ اسی کی وجہ سے وہ مسائل پیدا ہوئے ہیں  جن کا ذکر اس مضمون کے ابتدائی پیراگراف میں  کیا گیا ہے۔روس سے اُس وقت سستا تیل خریدنا جب اس میں  کوئی رکاوٹ نہ ہو، کوئی خارجہ پالیسی نہیں  ہے۔ جی ۲۰؍ کی صدارت بھی کوئی حصولیابی نہیں  ہے کہ تمام ممبر ملکوں  میں  صدارت کا موقع باری باری سب کو ملتا ہے۔ 
 اس کے باوجود جے شنکر کا کہنا ہے کہ اُن کی خارجہ پالیسی کے چار بنیادی عناصر ہیں : اندرون ملک زیادہ خوشحالی، سرحدوں  پر امن، ہندوستانیوں  کا تحفظ اور عالمی سطح پر ہمارے اثرورسوخ میں  اضافہ، اِن چار معیارات پر ہماری جو حالت ہے اُسے پرکھنے کی دیانتدارانہ کوشش ہو تو صاف ہوجائے گاکہ ہماری خارجہ پالیسی کتنی مؤثر ہے۔ اس سے بھی پہلے یہ سوال غلط نہ ہوگا کہ کیا ہماری کوئی خارجہ پالیسی ہے بھی؟ اگر ہے تو اس سے ہم نے کیا حاصل کیا۔ سرحدوں  پر ہماری کیا کیفیت ہے اور ہم اپنے لئے کتنی خوشحالی یقینی بناسکے ہیں ۔ اقوام عالم میں  ہماری کتنی ساکھ ہے یہ جاننا بھی دلچسپ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK