Updated: July 18, 2025, 10:03 PM IST
| Geneva
اقوام متحدہ کی نمائندہ نے فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کی’’ صنفی نسل کشی‘‘ بند کرنے کا مطالبہ کیا، ریم السالم نے کہا کہ غزہ میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کو ’’ان کے فلسطینی اور خواتین ہونے کی وجہ سے ان کی زندگیوں اور جسموں کی دانستہ تباہی کا سامنا ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد، ریم السالم نے کہا کہ’’ غزہ میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کو ان کے فلسطینی ہونے اور خواتین ہونے کی وجہ سے ان کی زندگیوں اور جسموں کی دانستہ تباہی کا سامنا ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’کسی قوم کو نسل کشی کا نشانہ بنانے کے ایک سے زیادہ طریقے ہیں۔ انہیں مکمل یا جزوی طور ختم کردو ، یا پھر انہیں نفسیاتی طور پر تباہ کردو۔ ریم السالم نے غزہ میں جاری’’ صنفی نسل کشی‘‘ کو روکنے کے لیے فوری عالمی اقدام کا مطالبہ کیا، اور کہا کہ اسرائیلی افواج کی جانب سے فلسطینی خواتین اور لڑکیوں پر ڈھائے جانے والے جرائم کی شدت اور نوعیت اتنی شدید ہے کہ موجودہ قانونی اور فوجداری ڈھانچوں کے تصورات اب ان کو مناسب طور پر بیان یا سمجھ نہیں سکتے۔
یہ بھی پڑھئے: ”یہ فلسطینی جیکٹ اسرائیل سے بھی زیادہ پرانا ہے“: ریما حسن کا فلسطین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی
خصوصی نمائندہ نے انسانی حقوق کونسل کو اپنی حالیہ رپورٹ کے نتائج دہرائے، جس میں کہا گیا کہ ’’اسرائیل جان بوجھ کر فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کو قتل کر رہا ہے تاکہ انہیں اور فلسطینی نسل کو تباہ کیا جا سکے۔فلسطینی ماؤں کو جو ہولناکیاں برداشت کرنا پڑ رہی ہیں، خاص طور پر اپنے بچوں کو بھوک سے مرتے، قتل ہوتے، معذور ہوتے، اور زندہ دفن ہوتے دیکھنا، انہیں ایک ہی دن میں بار بار مار رہا ہے۔ وہ اور غزہ کے تمام فلسطینی جو نفسیاتی صدمات سے گزر رہے ہیں، اس کی کوئی حد نہیں ہے۔‘‘السالم نے اسرائیل کی مہم کے حصے کے طور پر تولیدی تشدد کے استعمال پر روشنی ڈالی۔ غزہ کے صحت کے ڈھانچے کی تباہی نے مبینہ طور پر ڈیڑھ لاکھ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو ضروری نگہداشت سے محروم کر دیا ہے۔ اندازاً ۱۷؍ ہزار ایسی خواتین اور پانچ سال سے کم عمر کے ۶۰؍ ہزار بچوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ مارچ۲۰۲۵ء سے اب تک کم از کم۶۰؍ بچے بھوک سے مر چکے ہیں، جو اسرائیل کی خوراک، طبی سامان، اور انسانی امداد پر پابندی کے سبب ہوا۔‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’یہ اس کے علاوہ ہے کہ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک۵۰؍ ہزار بچوں کے قتل یا زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔‘‘انہوں نے اسرائیلی حکام کے تازہ اقدام کی مذمت کی جس میں بچوں کے دودھ کے ڈبوں کی درآمد پر پابندی لگائی گئی، اور خبردار کیا کہ ایندھن کی کمی انکیوبیٹرز میں موجود نومولود بچوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں ڈال رہی ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ درجنوں بچے قبل از وقت پیدا ہوئے، پیدائش کے فوراً بعد مر گئے، جبکہ دیگر غیر معمولی جینیاتی تغیرات کے ساتھ پیدا ہوئے، جو ممکنہ طور پر بھوک، صدمے، اور تابکار اور زہریلے مواد کے سامنے آنے کی وجہ سے ہیں۔
یہ بھی پرھئے: بوگوٹا کانفرنس میں غزہ نسل کشی کے تدارک کیلئے اسرائیل کے خلاف اقدامات کا اعلان
خصوصی نمائندہ نے اسرائیلی افواج کی جانب سے جنسی تشدد، بشمول عصمت دری، کی خبروں پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ فلسطینی خواتین پر ڈھائے جانے والا تشدد اوظلم اتنا عام ہو گیا ہے کہ یہ اب نئی قبول شدہ حقیقت بن گیا ہے۔ خواتین کے ساتھ ہونے والے دہشت کے بارے میں سن کر اب کسی کے ماتھے پر بل نہیں پڑتا۔‘‘السالم نے ریاستوں سے اپیل کی کہ وہ غزہ میں نسل کشی کو ختم کرنے، سب کے لیے انصاف کو یقینی بنانے، اور تمام احتسابی عمل میں خواتین اور لڑکیوں کے مختلف تجربات کو شامل کرنے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’فلسطینی زندگی کا تسلسل اس پر منحصر ہے۔ ہماری اجتماعی انسانیت اور مستقبل اس پر منحصر ہے۔‘‘