اسرائیل غزہ کے گرجا گھروں پر بمباری کا ایک عادی مجرم ہے۔ اس نے اکتوبر ۲۰۲۳ء میں غزہ میں وحشیانہ جنگی کارروائیوں کے آغاز کے بعد کئی دفعہ عیسائیوں کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔
EPAPER
Updated: July 18, 2025, 8:04 PM IST | Washington/Gaza
اسرائیل غزہ کے گرجا گھروں پر بمباری کا ایک عادی مجرم ہے۔ اس نے اکتوبر ۲۰۲۳ء میں غزہ میں وحشیانہ جنگی کارروائیوں کے آغاز کے بعد کئی دفعہ عیسائیوں کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعرات کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو سے فون پر بات کی اور غزہ پٹی میں ایک کیتھولک چرچ پر ہونے والے حملے کا معاملہ اٹھایا۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے صحافیوں کو چرچ پر اسرائیلی فائرنگ کے بارے میں صدر کے ردعمل کے بارے میں بتایا: ”یہ مثبت ردعمل نہیں تھا۔“ لیویٹ نے کہا کہ ”انہوں نے آج صبح وزیر اعظم نیتن یاہو کو فون کیا تاکہ غزہ میں اس چرچ پر حملوں کا معاملہ اٹھایا جا سکے اور میں سمجھتی ہوں کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے ایک بیان جاری کرنے پر اتفاق کیا۔ اسرائیلیوں کی طرف سے اس کیتھولک چرچ کو نشانہ بنانا ایک غلطی تھی۔ وزیر اعظم نے صدر کو یہی بات بتائی۔“
یروشلم کے لاطینی پیٹریارکیٹ نے بتایا کہ جمعرات کو اسرائیلی فوج کے شمالی غزہ میں واقع چرچ پر حملے میں ۳ افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ پیٹریارکیٹ نے کہا کہ غزہ شہر کے زیاتون محلے میں کیتھولک مقدس فیملی چرچ کو نشانہ بنانے والے حملے میں ۹ دیگر افراد زخمی ہوئے جن میں سے ایک کی حالت نازک ہے۔ زخمیوں میں پیرش کے پادری، فادر گیبریل رومانیلی بھی شامل تھے جنہیں ہلکی چوٹ آئی۔
اسرائیل، غزہ کے گرجا گھروں پر بمباری کا عادی مجرم
اسرائیل نے اکتوبر ۲۰۲۳ء میں غزہ میں وحشیانہ جنگی کارروائیوں کے آغاز کے بعد کئی دفعہ غزہ میں عیسائیوں کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ گرجا گھروں پر بمباری کا ایک عادی مجرم ہے۔ ۱۹ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو غزہ شہر کے سینٹ پورفیریئس چرچ کے احاطے میں ایک عمارت پر اسرائیل نے بمباری کی جہاں تقریباً ۵۰۰ بے گھر مسلم اور مسیحی فلسطینی پناہ لئے ہوئے تھے۔ اس حملے میں کم از کم ۱۸ افراد ہلاک ہوئے جن میں کئی بچے بھی شامل تھے اور بہت سے دوسرے زخمی ہوئے۔ یروشلم کے یونانی آرتھوڈوکس پیٹریارکیٹ نے اس حملے کو جنگی جرم قرار دیا۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ چرچ مطلوبہ ہدف نہیں تھا۔
۱۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو باپٹسٹ چرچ کمپاؤنڈ میں الاہلی عرب ہسپتال کے صحن کو اسرائیل نے نشانہ بنایا جہاں بے گھر شہری پناہ لئے ہوئے تھے۔ اس حملے میں تقریباً ۵۰۰ افراد، جن میں مریض اور بے گھر شہری شامل تھے، ہلاک ہوئے۔ اس حملے کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی، حقوق کی تنظیموں کے مطابق، یہ بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی تھی جو شہری ڈھانچوں، بشمول مذہبی مقامات کی حفاظت کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: بوگوٹا کانفرنس میں غزہ نسل کشی کے تدارک کیلئے اسرائیل کے خلاف اقدامات کا اعلان
۱۷ جولائی ۲۰۲۵ء کو غزہ شہر کے مقدس فیملی چرچ پر اسرائیل نے حملہ کیا جو غزہ میں واحد کیتھولک چرچ ہے۔ اس حملے میں ۳ افراد، سعد سلامہ (۶۰، چرچ کا چوکیدار)، فومایہ ایاد (۸۴) اور نجویٰ ابو داؤد (۶۹) ہلاک ہوئے۔ کئی دیگر افراد، جن میں پیرش کے پادری فادر گیبریل رومانیلی بھی شامل تھے، زخمی ہوئے۔ رومانیلی کو ٹانگوں میں زخم آئے اور ان کا علاج الاہلی باپٹسٹ ہسپتال میں کیا گیا۔ یروشلم کے لاطینی پیٹریارکیٹ نے چرچ کو شدید نقصان پہنچنے کی اطلاع دی اور پوپ لیو چہار دہم نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
غزہ میں مسیحی آبادی اور مذہبی مقامات کی تباہی
امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، غزہ ایک بنیادی طور پر مسلم آبادی والا علاقہ ہے جہاں تقریباً ۱۰۰۰ مسیحی بھی رہتے ہیں جن میں زیادہ تر یونانی آرتھوڈوکس ہیں۔ فلسطین کی مسیحی آبادی حالیہ برسوں میں کم ہوئی ہے، بہت سے لوگ تنازعات کی وجہ سے یا بیرون ملک مواقع کی تلاش میں ہجرت کر چکے ہیں۔ مسیحی لیڈران اکثر غیر قانونی اسرائیلی آباد کاروں، یہودی انتہا پسندوں اور اسرائیلی فوج کے حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔ گرجا گھروں کے علاوہ، یورو-میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کے مطابق، اسرائیل نے نسل کشی کے دوران درجنوں مساجد کو بھی تباہ کیا ہے اور بہت سی دیگر کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہ واقعات غزہ میں مذہبی اور شہری ڈھانچوں پر مسلسل حملوں کو اجاگر کرتے ہیں۔