Inquilab Logo Happiest Places to Work

بچے کی تربیت تبھی شروع ہوجانی چاہئے جب وہ شکم ِ مادر میں ہو!

Updated: July 11, 2025, 3:01 PM IST | Dr. Bushra Tasneem | Mumbai

اُمت مسلمہ جس پرآشوب دَور سے گزر رہی ہے اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہی صدق دل سے ہر مسلمان اپنی ذمہ داری کو پہچانے اور نسل نو کی بحیثیت ایک مسلمان کے دوا اوردُعا دونوں کے ساتھ آبیاری کرے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ہر بچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کے لئے ایک پیغام ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون سا بچہ والدین کے لئے باعث سعادت اور معاشرے کے لئے باعث رحمت ہوگا۔ بچوں کی پیدائش پہ دل میں تنگی محسوس کرنا چاہے وہ کسی بھی سوچ کے تحت ہو، نرم سے نرم الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔ 
بچے کا تعلق ابتدائی دنوں ہی سے ماں کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ وہ ننھا سا خلیہ (cell) محض ایک جرثومہ نہیں بلکہ ایک مکمل شخصیت کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے اور وہ اپنی ماں سے خاص نسبت رکھتا ہے۔ تخلیق کے عمل سے گزرنے والی خاتون پر اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری لازم آتی ہے کہ خالق کائنات نے اشرف المخلوقات کی تخلیق کے لئے اُسے منتخب کیا ہے۔ ایک سچی مسلمان عورت یہ زمانہ مصیبت سمجھ کر نہ گزارے، نہ اپنی تکلیف کو دوسروں کے لئے باعث آزار بنائے۔ ان تکالیف کو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اس کے روز مرہ کے فرائض کو اجر کے حساب سے زیادہ نفع بخش ہونے کا وعدہ فرمایا ہے۔ 
باپ کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پاکیزہ اور صالح کردار پر اٹھانے کے لئے گھر میں ایسی کمائی لائے جو حلال اور طیب ہو۔ اپنی اولاد کو اگر حرام کمائی سے سینچا گیا تو اس کے کردار و اعمال میں شرافت کی سی تابندگی کیسے آئے گی؟ ہمہ وقت اللہ کا ذکر، نماز کی پابندی، باوضو رہنا، پاکیزہ گفتار ہونا، جسمانی، روحانی اور ذہنی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ ہر وہ غذا جو حاملہ عورت کھاتی ہے اس میں اُس ننھی سی جان کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے جو والدین کی زندگی کا سرمایہ اور توشۂ آخرت ہے۔ 
حمل کی مدت میں بچہ ماں سے خوراک ہی حاصل نہیں کرتا، وہ اس کے جذبات، احساسات، خوشی اور غم میں بھی شریک ہوتا ہے۔ ماں کی افسردگی، بے چینی اور بے آرامی کا بھی اُس پر اثر ہوتا ہے۔ اس زمانے میں وہ کیا سوچتی ہے؟ اس کا دل کن جذبوں سے آراستہ رہتا ہے؟ بچے کی شخصیت اسی کا پرتو ہوتی ہے۔ 
ایک مسلمان ماں اپنے بچے کو ’’مثالی مسلمان‘‘ بنانا چاہتی ہوگی تو وہ ضرور شعور و آگہی کے ساتھ ان سب امور کا خیال رکھے گی۔ آج بھی ایسی مثال مل سکتی ہے کہ جب ماں نے مدت حمل میں ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت سنی، ذکر خدا کو ورد زبان بنایا اور ایک ہی قاری کی زبان اور لب و لہجہ میں کثرت سے قرآن سنا تو اس کااثر یہ ہوا کہ نومولود کی جب قرآن سیکھنے کی عمر ہوئی تو حیرت انگیز طور پر بہت جلد سیکھ گیا۔ 
ماں بننے والی خاتون کو شعوری کوشش کے ساتھ صبروقناعت اور قوت برداشت کی صفات کو اجاگر کرنا چاہئے۔ وہ بنیادی اخلاقی عیب جو انسانی زندگی کو بدصورت بناتے ہیں اور انسانیت کی توہین ہیں مثلاً بغض، کینہ، حسد، تکبر اور جھوٹ، ان سے بچنے کی کوشش کرے۔ لایعنی بحث مباحثہ و گفتگو سے گریز کرے۔ ذکر و تسبیح کو اپنا معمول بنائے۔ یقیناً اس کی عبادت‘ ذکرو تسبیح‘ نماز‘ روزہ و دیگر حقوق و فرائض کی ادائیگی میں ایک معصوم روح بھی شریک ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی ماں کے ہر نیک عمل کی گواہ بھی ہوگی۔ 
جسمانی غذا کے ساتھ ساتھ روحانی غذا بھی اعلیٰ اور زیادہ مقدار میں ہونی چاہیے۔ روشن کردار اور اعلیٰ ذہنی و فکری استعداد کی مالک ماں ہی اپنے بچے کے روشن مستقبل کی فکر کر سکتی ہے۔ کم ظرف، جھگڑالو، پژمردہ، حاسد، احساس برتری یا احساس کمتری کی ماری، ناشکری اور بے صبری عورت قوم و ملّت کو اعلیٰ کردار کا سپوت کیسے دے سکتی ہے۔ 
اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والی خاتون روحانی طور پر مضبوط اور پرُعزم ہوگی۔ اس زمانے میں عورت کے گھر کا ماحول اور خصوصاً شوہر کا رویہ اور انداز فکر بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس غیرمعمولی صورت حال میں شوہر کی ذمہ داری بھی غیرمعمولی طور پر بڑھ جاتی ہے۔ رفیقہ حیات کی ذہنی، جسمانی اور روحانی طمانیت کے لئے شوہر کو بھرپور طریقے سے اپنا کردار انجام دینا چاہیے۔ یہ شوہر کا فرضِ عین ہے جس کی اس سے بازپرس ہوگی۔ دیگر رشتہ دار اور شوہر ایک نئی ہستی کو دُنیا میں لانے کے لئے عورت کو جتنی آسانیاں، آرام، ذہنی و جسمانی سکون مہیا کریں گے، لازماً اس کا صلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پائیں گے۔ 
حاملہ خاتون کو کچھ بیماریوں سے حفاظتی ٹیکے اور دوائیاں دی جاتی ہیں تاکہ خاتون اور اس کا بچہ بیماریوں سے محفوظ رہیں۔ بالکل اسی طرح کچھ روحانی بیماریوں سے محفوظ رہنے کیلئے بھی حفاظتی اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہر عورت اپنے عیب و محاسن کا جائزہ لے اور جو عیوب انسان کی زندگی کو عیب دار بناتے ہیں ان سے بچنے کیلئے مکمل توجہ کے ساتھ کوشش کرے۔ 
ایک مسلمان گھرانے کا ماحول بچے کو ایک ڈیڑھ سال کی عمر میں رکوع و سجود، اذان اور نماز سے آشنا کر دیتا ہے۔ گھر کا ماحول نمازی ہوگا تو بچہ لاشعوری طور پر اس کو زندگی کا ایک جزو سمجھے گا۔ نماز جتنی اہم عبادت ہے، شیطان کو اس کی پابندی اتنی ہی گراں گزرتی ہے۔ وہ نماز کو مشکل ترین کام بنا کر مسلمانوں کو رب سے دُور کرنا چاہتاہے، اسی لئے اس کی ادائیگی نفس پر گراں گزرتی ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ خود اپنی نماز کی حفاظت کریں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’بے شک نمازبے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ ‘‘ مرد حضرات خود باجماعت نماز کی پابندی کریں، لڑکوں کو مسجد میں محبت اور شفقت سے لے جائیں۔ ننھے لڑکوں میں مسجد سے محبت، انس اور تعلق پیدا کروانا چاہئے۔ جس طرح بچہ باپ کے ساتھ بازار جانے اور کچھ حاصل کرنے کے شوق میں خوشی خوشی جاتا ہے بالکل اسی طرح مسجد میں جا کر خوشیوں کے حصول اور کچھ پالینے کی آرزو اُس میں پیدا کی جانی چاہئے۔ 
 نماز کی پابندی کروانے کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ اُسے ابتدا میں یعنی تین سال کی عمر میں ضرور اپنی نماز ادا کرنے کے دوران اپنے ساتھ رکھا جائے۔ اسی عمر سے نماز کے کلمات یاد کروانے کا عمل شروع ہونا چاہئے۔ جتنے بھی کلمات ترجمے کے ساتھ یاد ہو جائیں انہی کے ساتھ نماز کی ادائیگی شروع کروائی جائے۔ لڑکے تو مسجد میں جا کر رکوع و سجود کے عادی ہوجاتے ہیں، لڑکیوں کو بھی گھر میں اس کی مکمل پہچان کروائی جائے۔ شروع میں بچے کو ایک نماز اور وہ بھی صرف فرض کی عادت ڈالی جائے اور یہ فجر کی نماز ہے۔ بچہ چاہے جس وقت بھی سو کر اُٹھے اسے معلوم ہو جائے کہ اُٹھنے کے بعد پہلا کام نماز کا ہوتا ہے۔ پہلے وضو اور نماز پھر ناشتہ--- صبح اپنے رب کے حضور حاضری کا تصور اس کے لازمی معمولات کا حصہ بن جائے۔ یہ عمل ایک سال تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔ پھر فجر کی پوری نماز کی (فرض و سنت کے ساتھ) پابندی کرائی جائے۔ 
 دوسری نماز جس کی پابندی آسان ہے وہ مغرب کی نماز ہے۔ چند ماہ ان دو نمازوں کی پابندی ہو۔ پھر بتدریج باقی نمازیں۔ چار پانچ سال تک مکمل توجہ، شعور، آگہی اوردعا و یقین کے ساتھ کی جانے والی یہ محنت ان شاء اللہ کبھی رائیگاں نہ جائے گی اور آپ کا بچہ بحمد للہ نمازی ہوگا۔ 
 اُمت مسلمہ کیلئے مشکلات سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ صدق دل سے ہر مسلمان اپنی ذمہ داری کو پہچانے اور نسل نو کی بحیثیت ایک مسلمان دوا اوردُعا دونوں کے ساتھ آبیاری کرے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK