Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ہاں، مجھے بوڑھا کر دیا سورئہ ہود، سورئہ واقعہ، سورئہ مرسلات، سورئہ نبا اور سورئہ تکویر نے‘‘

Updated: July 11, 2025, 3:53 PM IST | Syed Munawar Hasan | Mumbai

اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدۂ آخرت ہے۔ انسانی زندگی میں بھی اس عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جیسا عقیدہ ہوتا ہے ویسا ہی انسان اور اس کے اعمال ہوتے ہیں۔ 

Belief in the Hereafter is the belief that this world and this life are mortal. Photo: INN
عقیدۂ آخرت اس یقین کا نام ہے کہ یہ دنیا اور یہ زندگی فانی ہے۔ تصویر: آئی این این

اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدۂ آخرت ہے۔ انسانی زندگی میں بھی اس عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جیسا عقیدہ ہوتا ہے ویسا ہی انسان اور اس کے اعمال ہوتے ہیں۔ 
 عقیدۂ آخرت اس یقین کا نام ہے کہ یہ دنیا اور یہ زندگی فانی ہے۔ اس عالم کے بعد ایک دوسرا عالم وجود میں آنا ہے۔ جس طرح سے عالم دو ہیں، اس طرح سے زندگیاں بھی دو ہیں۔ گویا اس کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ اصلاً زندگی تو ایک ہی ہے، جس چیز کا نام ہم نے موت رکھا ہوا ہے، اس کی آمد سے وقتی اور عارضی طور پر محض زندگی کا مرحلہ بدل جاتا ہے مگر زندگی اور اس کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ اس زندگی کو ہم عارضی یا ناپائیدار زندگی کہتے ہیں، اور وہ زندگی جو موت کے دروازے سے گزر کر شروع ہوتی ہے، باقی رہنے والی اور ہمیشہ کی زندگی قرار پاتی ہے۔ قرآن پاک میں جابجا اس حوالے سے جوابدہی کا احساس اور آخرت کا حوالہ موجود ہے:
 ایمان کے بعد انسانی زندگی کو سنوارنے، اس کو حقیقی کردار کے سانچے میں ڈھالنے کیلئے اوراس کو درست رُخ دینے کیلئے اور منزل کا شعور بخشنے کیلئے اگر کوئی عقیدہ ہے تو وہ آخرت کا عقیدہ ہے۔ آخرت کی فکر کے لئے یہ پوری منظرکشی قرآنِ مجید اور احادیث میں ملتی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جو مطلوب ہے، اس لئے کہ فکرِ آخرت انسانی جمود کو توڑنے کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔ جب انسان بے عمل ہوجائے، غلط راہوں پر چل نکلے، گم کردۂ راہ ہوجائے، سب کچھ جانتے ہوئے عملی زندگی میں انجان سا بن جائے، تو یہ آخرت کی فکر انسان کے جمود کو توڑنے اور اس کے ایمان پر لگ جانے والے زنگ کو اُتارنے، دیگر افکار اور پریشانیوں سے کاٹ کر آخرت کے شعور کی طرف لانے کے لئے نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔ 
جناب صدیق اکبرؓ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرانے ساتھی تھے۔ عمر میں بھی دو ہی سال کا فرق تھا، گویا بچپن ہی سے ایک دوسرے کو دیکھتے آئے تھے۔ جناب صدیق اکبرؓ نے عرض کیا: ’’یارسولؐ اللہ! آپؐ پر تو بڑھاپا آگیا ہے۔ ‘‘
 نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ہاں، مجھے بوڑھا کر دیا سورئہ ہود، سورئہ واقعہ، سورئہ مرسلات، سورئہ نبا اور سورئہ تکویر نے۔ ‘‘ (ترمذی)
 ان سورتوں کی اگر تلاوت کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ وہی سورتیں ہیں جن میں قیامت اور آخرت کا بیان ہے۔ ان میں اس پکڑ، بازپُرس اور تنبیہ کا بیان ہے جو آخرت برپا ہونے سے پیش تر کی جارہی ہے۔ نبی کریمؐ ان سورتوں کی تلاوت کرتے تھے تو آپؐ پر رقت طاری ہوجاتی تھی اور ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوجاتی تھی۔ آپؐ چونکہ داعی ٔ اعظم اور داعی ٔ اوّل تھے، اس لئے یہ خوف بھی آپؐ کو ستاتا تھا کہ اگر یہ لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کرینگے تو لازماً پکڑے جائینگے اور اس طریقے سے بارگاہِ رب العزت میں دھر لئے جائیں گے۔ یہ وہ کیفیت تھی کہ جس میں جواب دہی اور دوسروں کی نجات کیلئے فکرمند ایک داعی کی حیثیت سے آپؐ سرشار رہتے تھے۔ لوگوں تک پہنچنا، ان کے دلوں پر دستک دینا، ان کو سیدھے راستے پر لانا، جہنم کی آگ سے بچانا اور قبر کی پکڑ سے محفوظ رکھنے کیلئے تمام جتن کرنا، ان کی فکرمندی کا عنوان تھا۔ 
اپنی گھریلو زندگی میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس فکرمندی میں گلتے جاتے تھے۔ ان کیفیات کا تذکرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی احادیث میں ملتا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں : میں نے حضوؐر کو بارہا یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ اللّٰھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَسِیْرًا ، ’’اے اللہ! مجھ سے آسان حساب لیجئے‘‘، تو میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! آسان حساب کی کیا صورت ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ ایک شخص کے اعمال نامے کو دیکھے گا اور بس اس سے صرفِ نظر فرما لے گا، تو یہ آسان حساب ہوگا۔ ‘‘
  پھر آپؐ نے فرمایا:اے عائشہؓ! اس دن جس شخص سے واقعی پوچھ گچھ ہوگئی تو وہ شخص ہلاک ہوا، وہ شخص ہلاک ہوا، وہ شخص ہلاک ہوا۔ اسی لئے آپؐ نے یہ دعا بھی سکھائی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK