Inquilab Logo Happiest Places to Work

ثابت قدمی، جہد ِ مسلسل اور تعلیم: حالات کا مقابلہ ان تین ذرائع سے کیجئے

Updated: July 11, 2025, 4:14 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

مسلمان نوجوان قانون كی تعلیم حاصل كرنے پر توجه دیں اور مسلم معاشره میں زیاده سے زیاده وكلاء اور قانون داں فراهم هوں۔

The goal of youth should not only be to obtain education, but also to make it useful. Photo: INN
صرف تعلیم حاصل کرنا ہی نوجوانوں کا مقصد نہ ہو بلکہ اس کو کارآمد بنانے کی کوشش بھی کرنا چاہئے۔ تصویر: آئی این این

قدرت کا نظام یہ ہے کہ اہم نتائج حاصل کرنے کے لئے مسلسل اور دیر تک جد و جہد کرنی پڑتی ہے، تخریبی کاموں میں تو کچھ زیادہ وقت نہیں لگتا؛ لیکن تعمیر کیلئے ضروری ہے کہ انسان کے اندر برداشت کی صلاحیت، انتظار کی قوت اور جہد مسلسل کی عادت ہو۔ درخت گھنٹے دو گھنٹے میں کاٹا جاسکتا ہے لیکن بیج سے پودا اور پودے سے تناور درخت بننے کیلئے سالہا سال مطلوب ہوتے ہیں۔ ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کو جوان ہوتا ہوا اور شادی بیاہ کے مرحلے سے گزرتا ہوا دیکھیں، یہاں تک کہ ان کی اولاد خود صاحب اولاد ہوجائے۔ یہ منظر ان کی آنکھوں کے لئے ٹھنڈک اور دل کیلئے سرور کا باعث ہوتا ہے؛ لیکن ا س منزل تک پہنچنے کے لئے مدتوں صبر کی راہ سے گزرنا پڑتا ہے، محض وقتی جذبہ اور چیخ پکار سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں کیاجاسکتا۔ یہ بات جس طرح مادی نتائج کے حصول کے لئے ضروری ہے، اسی طرح سماج میں اپنے حقوق کو حاصل کرنے اور بدخواہوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے بھی ضروری ہے۔ 
جب سے ہمارے ملک کے روابط اسرائیل سے بڑھے ہیں، ہم نے ناطرفدار (ناوابستہ) بلاک سے اپنے آپ کو الگ کرکے امریکہ اور مغرب کی متابعت قبول کی ہے اور مغربی ملکوں نے عالمی چودھراہٹ اور خوں آشامی کی پیاس کو ٹھنڈا کرنے کیلئے اسلامی دہشت گردی کا ہو ّا کھڑا کیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ آئے دن مسلم نوجوانوں کیخلاف کارروائی کی جاتی ہے، مسلمانوں کے خلاف فرضی مقدمات دائر کئے جاتے ہیں، کسی جواز کے بغیر نوجوانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، گرفتار کرنے میں ملک کی اعلیٰ عدالتوں کی ہدایات کا پاس لحاظ تک نہیں رکھا جاتا، دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ ہو، کسی مسلم تنظیم (جو اکثر فرضی ناموں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی) کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، ملزموں کی مجرموں کی طرح تشہیر کی جاتی ہے اور ذرائع ابلاغ میں کچھ اس طرح معاملات کو پیش کیا جاتا ہے کہ گویا یہ ایک ثابت شدہ حقیقت اور ناقابل انکار واقعہ ہو۔ 
غرض کہ عمومی طور پر اس وقت مسلمان عدم تحفظ کاشکار ہیں، فرقہ پرست تنظیمیں انہیں رسوا کرتی ہیں، کبھی پولیس بلا ثبوت انہیں گرفتار کرتی ہے اور گرفتار کرنے کے بعد بھی انہیں ایذا رسانی کا شکار بناتی ہے، نیز بیشتر ذرائع ابلاغ مسلمانوں پر جور و ستم ڈھانے والے ا فراد اور اداروں کی پیٹھ تھپکتے اور ان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ہمارا رد عمل اس سلسلہ میں یہ ہوتا ہے کہ ہم وقتی طور پر احتجاج کرتے اور احتجاجی بیانات کا سہارا لیتے ہیں۔ اب کچھ لوگ دھرنا بھی دینے لگے ہیں ؛ لیکن ہمارا یہ احتجاج محدود ہوتا ہے، جس کو حکومت کے ایوانوں میں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں مسلمان کیا کرے ؟
اس کا بہترین راستہ قانونی طریقۂ کار اختیار کرنا ہے۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، یہاں کی عدلیہ آزاد ہے، بہت سے معاملات میں عدلیہ نے اقلیت کو انصاف فراہم کیا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے معاملات کو عدالت تک پہنچایا جائے اور اس کی مسلسل پیروی کی جائے، یہاں تک کہ مقدمہ اپنے انجام کو پہنچ جائے۔ بھاگل پور اور گجرات فسادات کے بعض ملزمین کو سزائیں ملی ہیں اور بیشتر مقدمات میں مسلمان نوجوان باعزت بری کئے گئے ہیں، لیکن اس میں مسلمانوں کی اجتماعی کوششوں کا بہت کم دخل ہے۔ اگر مسلمان باضابطگی کے ساتھ ایسے مقدمات کی پیروی کریں اور سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ اور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک جانے کیلئے تیار ہوں، خاطی پولیس عہدہ داروں کا جرم ثابت ہوجائے اور ان کو سزا ملے، نیز مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو عوام کی عدالت میں پہنچانے کیلئے انسانی حقوق کی تنظیموں سے مدد لی جائے اور چند واقعات میں مجرمین کو سزا مل جائے تو اس کے گہرےاثرات مرتب ہوں گے۔ 
لیکن اس کیلئے تین باتیں ضروری ہیں : ایک تو ثابت قدمی اور صبر کے ساتھ جہد مسلسل۔ کسی بھی اہم کام کے نتیجہ خیز ہونے کیلئے صبر وبرداشت اور انتظار کی قوت ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دُعا فرمایا کرتے تھے کہ رب العالمین مجھے ہر کام میں ثابت قدمی عطا فرما:
 اللہم إني أسئلک الثبات في الأمر الخ
 (سنن الترمذی، عن شداد بن اوس، حدیث نمبر: ۳۴۰۷) ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی عمل کرتے تو تسلسل اور دوام کے ساتھ اسے انجام دیتے۔ (مسلم، حدیث نمبر: ۴۶؍۷) قرآن مجید نے خود مسلمانوں کو جو دُعا سکھائی ہے، اس میں ثابت قدمی کی بھی دعا شامل اور موجود ہے: وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا (آل عمران: ۱۴۷) مسلمانوں کو بار بار تلقین کی گئی کہ وہ صبر اور مصابرہ سے کام لیں اور اس بات کی بھی کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کے بارے میں ہمیشہ چوکنا رہیں۔ (آل عمران: ۲۰۰) مصابرہ کے معنی کسی چیز پر پابندی کے ساتھ جمے رہنے کے ہیں، (مختار الصحاح، ص: ۸۳) اور قرآن کے حکم ’’رَابِطُوْا‘‘ کا اصل مقصد مسلمانوں کی حفاظت ہے، چاہے وہ کسی مسلم ملک میں ہوں یا غیر مسلم ملک میں۔ مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ نہ صرف اُمت کے دین و ایمان کے لئے؛ بلکہ ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کیلئے جو تدبیریں کرسکتے ہیں، وہ ضرور کریں۔ ہوتا یہ ہے کہ وقتی طور پر تو ہم احتجاج کرتے ہیں، اخبارات میں بیان دیتے ہیں اور اپنی مظلومیت کی داستان سناتے ہیں ؛ لیکن ایف آئی آر درج نہیں کراتے۔ درج کراتے وقت پولیس والوں کی بد دیانتی پر نظر نہیں رکھتے، پھر جب معاملہ عدالت میں جاتا ہے تو تسلسل کے ساتھ مقدمہ کی پیروی نہیں کرتے، اگر ذیلی عدالت سے اپنے موقف کے خلاف کوئی فیصلہ ہوگیا تو اوپر کی عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے، اس طرح ہم قانونی لڑائی ہار جاتے ہیں۔ جب تک ہماری قانونی کوششوں میں تسلسل نہیں ہوگا، انصاف کا حصول اتنا ہی مشکل ہوگا جتنا کہ اس وقت ہے۔ 
دوسری ضروری چیز یه هے كه مسلمان نوجوان قانون كی تعلیم حاصل كرنے پر توجه دیں اور مسلم معاشره میں زیاده سے زیاده وكلاء اور قانون داں فراهم هوں، بڑے شهروں میں بھی اور چھوٹے شهروں اور قصبات میں بھی، آج كل ویسے بھی تعلیم اور روزگار كا رشته بهت كمزور هوگیا هے، بهت كم نوجوان هیں جن كو اُن كی تعلیم كے مطابق ملازمت حاصل هوتی هے، سركاری ملازمت تو كم سے كم تر هوتی جا رهی هے، جن شعبوں میں زیاده روزگار ملتے تھے، اب ان میں پرائیوٹیشن كا رجحان بڑھ رها هے، انسانی ضرورتوں كو مشینیں كم كرتی جا رهی هیں اور اب جوں جوں مصنوعی ذهانت كے شعبوں میں ترقی هو رهی هے، حالات مزید ابتر ہوسکتے ہیں۔ 
عام طور پر نوجوان تعلیم حاصل كر تے هیں اور جو كام مل جائے اس كے ذریعه اپنی ضروریات زندگی كا سامان كرتے هیں ؛ اس لئے چاهے وكالت كو اپنا پیشه نه بنایا جائے؛ لیكن اس كی كوشش كرنی چاهئے كه همارے سماج میں زیاده سے زیاده قانون داں موجود هوں، كوئی بھی چھوٹا بڑاواقعه پیش آئے، ایسے افراد كے ذریعه ایف آئی آر كرائی جائے؛ جب پولیس اسٹیشن اور حكومت كے مجاز اداروں میں شكایت لے كر جائیں تو خاطر خواہ قانونی معلومات كے ساتھ پهنچیں اور اپنے مقرره ڈریس میں پهنچیں، اس طرح سركار پر بھی دباؤ پڑے گااور مسلمانوں كے ساتھ جس دھوكے اور بے اعتنائی كا مظاهره كیا جا رها هے، اس كا تدارك هو سكے گا۔ 
تیسری ضروری چیز اتحاد و اشتراک ہے، ملک بھر میں پیش آنے والے مقدمات کی پیروی غیر معمولی اخراجات کی متقاضی ہے، اس کے لئے تمام تنظیموں کو اکٹھا ہونا پڑے گا، مذہبی تنظیمیں جیسے جمعیۃ علماء، جماعت اسلامی ہند، ملی كونسل، مختلف ریاستوں كی امارت شرعیه وغیرہ اور سیاسی تنظیمیں جیسے مسلم لیگ، مجلس اتحاد المسلمین، یو ڈی ایف وغیرہ، اگریہ تمام تنظیمیں مل کر ایک تحفظ مسلمین بورڈ بنائیں، مشترک طور پر افرادی اورمالی وسائل لگاکر ایسے مقدمات کی پیروی کریں اور اس انداز پر کام کریں کہ کسی معاملے میں کریڈٹ حاصل کرنے کا جھگڑا پیدا نہ ہو، مثلاً جس ریاست میں جو تنظیم زیادہ فعال ہو، وہاں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے وہاں کی مقامی تنظیم کو ذمہ دار بنادیا جائے، اس طرح بہ آسانی ان مسائل کو حل کیا جاسکے گا اور اِس وقت مسلمانوں کے خون کی جو اَرزانی اور سماج میں ان کی بے وزنی وبے وقاری دیکھی جارہی ہے، شاید اس کی نوبت نہ آئے۔ اگر مسلمانوں نے اس سلسلہ میں کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا اور امت کے مشترک مفاد کے لئے جھوٹے وقار کی قربانی دینے کو تیار نہ ہوئے تو ان کی ذلت ورسوائی اور جان ومال کی ارزانی کی داستان طویل تر ہوتی جائے گی۔ ہر شخص کو خوب غوروخوض کرنا چاہئے اور مثبت نیز پُرامن طریقوں کو اختیار کرنے کا منظم اور متحدہ پلان سامنے رکھنا چاہئے۔ طوفان سروں سے گزررہا ہے مگر ہماری بےشعوری اور بے حسی کی شام آئے نہیں آتی:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK