موجودہ دور میں ماحولیات کی اصلاح اور پاکیزگی کے لئے عالمی سطح پر حکومتیں، تنظیمیں، رفاہی انجمنیں، علمی اور تحقیقاتی ادارے تشویش و فکر میں مبتلا ہیں ، لیکن خالق کائنات نے چودہ سو برس پہلے جب نہ تو موٹر گاڑیوں کا وجود تھا اور نہ دیوہیکل کارخانے وجود میں آئے تھے، نہ جنگلات فنا ہورہے تھے اور نہ دریائوں میں زہر گھل رہا تھا، نبی آخرالزماں ؐ کے ذریعے انسانیت کو ماحولیات کو کثافت اور آلودگی سے محفوظ رکھنے کی تعلیم عطا فرما ئی اور یہ قیامت تک کیلئے ہے۔
کائنات رب العزت کی حسین نعمت ہے جس کی خوبصورتی اور تازگی کے تحفظ کی ہمیں تعلیم دی گئی ہے۔ تصویر: آئی این این
صنعتی انقلاب کے نتیجے میں روز افزوں متنوع صنعت گاہوں کے قیام اور نت نئے تیزرفتار ذرائع آمدورفت کی مسلسل ایجادات نے گزشتہ کئی عشروں سے ماحول کے تحفظ کو عالمی توجہ کا موضوع بنا دیا ہے، کیوں کہ ماحول کی آلودگی انسانی صحت اور زندگی کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ وہ زمین جس پر انسان رہتا اور بستا ہے اس کے بعض حصوں پر غلاظتوں اور گندگی کا اتنا انبار ہے کہ انسانی زندگی اس کے تعفن سے اذیت میں مبتلا ہے۔ صنعتی ترقی کے لئے جنگلوں اور پیڑوں کے غیرمتناسب استعمال بلکہ استحصال نے موسمی تغیرات کا رخ بدل دیا ہے۔ وہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں صنعت گاہوں، کارخانوں اور کیمیاوی تجربہ گاہوں کے چھوڑے ہوئے فضلات اور بڑی چھوٹی موٹر گاڑیوں کی لمبی قطاروں کی کثافتوں سے اس حد تک زہرآلود ہوچکی ہے کہ انسان تنفس، پھیپھڑے، جگر، قلب اور جلد کی اَن گنت بیماریوں کا شکار ہو رہا ہے۔ جانور اور پرندے بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں اور نت نئی بیماریاں جغرافیائی حدود کو پار کررہی ہیں۔
یہاں تک کہ اوزون پرت (Ozone layer) جو سورج کی شعاعوں کے مضر اثرات سے ہماری زمین کی فضا کی حفاظت کرتی ہے، اس میں سوراخ ہورہا ہے اور انسانی زندگی کے لئے خطرات روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ وہ پانی جسے انسان خود پیتا ہے اور اپنے مویشیوں کو پلاتا اور جس سے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے، اس میں کیمیاوی مادوں اور زہریلے فضلات کی آمیزش اس قدر ہورہی ہے کہ پانی کے جانداروں کے ساتھ ساتھ انسانی جسم و جان میں بھی زہریلے اثرات منتقل ہورہے ہیں اور وہ مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہورہا ہے۔ کسی صنعتی شہر میں دن گزار کر جب آپ گھرلوٹیں تو اپنے لباس اور جسم پر اور اپنے منہ اور ناک میں کثافتوں کی سیاہی واضح طور پر محسوس کرسکتے ہیں۔
قومی اور بین الاقوامی جنگوں میں آتشیں ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال کے علاوہ بڑے پیمانے پر کیمیاوی گیسوں، بارودی مواد اور لیزر کی شعاعوں کا استعمال بھی کیاجانے لگا ہے۔ یہ تباہ کن ہتھیار صرف اپنے نشانہ کو ہی برباد نہیں کرتے بلکہ ایک خاص فاصلے تک پائے جانے والے ہرجاندار اور مجموعی ماحول پر بھی انتہائی مضر اثرات مرتب کرتے ہیں، جو زمین کا نمو ختم کرکے اس میں زہر بھر دیتے ہیں اور درجۂ حرارت بڑھا کر ماحول کا توازن بگاڑ دیتے ہیں۔ اس سلسلے کی مزید تفصیل سے آپ واقف ہیں۔
اس صورتِ حال میں حکومتوں، عالمی تنظیموں، رفاہی انجمنوں، علمی اور تحقیقاتی اداروں کی تشویش بجا اور برملا ہے۔ ہر طرف سے یہ مطالبہ ہورہا ہے کہ ماحول کا تحفظ کیا جائے، صاف ستھری فضا کو برقرار رکھنے کے لئے آلودگی پر قابو پایا جائے۔ معروضی غفلت کی وجہ سے انسان کو کسی چیز کی حفاظت کا احساس عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب اس کے وجود اور صحت کو خطرہ لاحق ہو۔ آنکھ میں درد ہوتا ہے تو انسان آنکھ کی فکر کرتا ہے۔ ہاتھ پائوں میں تکلیف ہوتی ہے تو انسان مالش اور معالج کی فکر کرتا ہے، ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے۔ غرض یہ کہ اصلاح کی فکر اس وقت ہوتی ہے جب فساد اور بگاڑ نظر آنے لگتا ہے۔ ماحولیات کی اصلاح اور پاکیزگی کی فکر بھی انسان کو اس وقت ہورہی ہے جب ماحول میں فساد اور کثافت پھیل گئی ہے اور لوگ اس کی زہرناکی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
خاتم المرسلینؐ کی تعلیمات کی ہمہ گیریت
ذرا تصور کیجئے کہ آج سے ساڑھے چودہ سو برس پہلے جب نہ تو موٹر گاڑیوں کا وجود تھا اور نہ دیوہیکل کارخانے وجود میں آئے تھے۔ نہ جنگلات فنا ہورہے تھے اور نہ دریائوں میں زہر گھل رہا تھا، اور ماحول میں آلودگی تو آج کی طرح رچی بسی ہی نہ تھی۔ مگر چونکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول تھے جن کے بعد قیامت تک کوئی اور نبی یا رسول مبعوث ہونے والا نہیں تھا اس لئے قیامت تک آنے والے تمام حالات اور مسائل و مصائب نیز چیلنجوں میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی ہدایت و رہنمائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے فراہم ہونا ناگزیر تھا کیوں کہ ان ہدایات کے بغیر نہ دین مکمل ہوتا نہ ہرانسان کے لئے دین اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونے کے فریضے کی ادائیگی ممکن ہوتی جسے اللہ ربّ العزت نے ہر انسان کی دُنیا و آخرت میں کامیابی کا معیار مقرر فرمایا تھا۔ (البقرہ :۲۰۸) اس لئے اللہ کے آخری رسول ؐ نے انسانیت کو ماحول کی کثافت سے پاک رکھنے اور فضا کو آلودگی سے محفوظ رکھنے کی جامع تعلیم و تلقین فرمائی۔ اصولی ہدایات، مؤثر تعلیمات اور عملی اقدامات، تینوں طرح سے ماحول کی پاکیزگی کو یقینی بنایا۔ یہ کائنات انسانوں کے لئے خالقِ حقیقی کی صناعی کا خوب صورت تحفہ ہے اور اس کی تمام جاندار اور بے جان چیزیں انسانوں کیلئے ربّ العزت کی حسین نعمت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کائنات کی خوب صورتی اور تازگی کے تحفظ کی نہ صرف تعلیم دی بلکہ اسے فروغ دینے میں اپنی تمام تر قوت و صلاحیت لگانے کی ضرورت کا احساس دلایا اور فطرت کے عطیات کو فطری قوانین کے مطابق برتنے کی تلقین فرمائی، تاکہ انسان خود بھی ماحول کی پاکیزگی سے لطف اندوز ہوسکے اور دوسرے جانداروں کو بھی راحت پہنچا سکے اور ربِّ کریم کا شکر ادا کرے:
’’ اللہ تم پر تنگی کرنا نہیں چاہتا، لیکن وہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک صاف کرے اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے تاکہ تم شکرگزار بنو۔ ‘‘(المائدہ:۶)
خالق کائنات کے عطیات کا ادراک
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان و زمین، سمندر، پہاڑ، حیوانات، نباتات، پرندوں، جنگلات، باغات، وادیوں اور آبادیوں، سب کچھ کو خالقِ کائنات کے متوازن نظام کا شاہکار قرار دیتے ہوئے ان کی تخلیق پر غور کرنے، ان میں کارفرما ربّ العزت کی حکمتوں کو سمجھنے اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی تعلیم فرمائی۔
آپؐ نے انسانوں تک اللہ کا یہ پیغام پہنچایا:
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، رات اور دن کے ایک دوسرے کے بعد آنے جانے میں، ان کشتیوں میں جو انسانوں کی نفع رسانی کا سامان لئے سمندر میں چلتی ہیں، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ آسمان سے برساتا ہے اور اس کے ذریعے زمین کو زندہ کردیتا ہے اور ہر طرح کی جاندار مخلوق کو زمین میں پھیلانے میں، اور ہوائوں کی گردش میں اور آسمانوں اور زمین کے درمیان مسخر بادلوں میں عقل مند لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ ‘‘ (البقرہ:۱۶۴)
قرآن حکیم کی اس آیت میں دس چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کا تعلق براہِ راست ماحولیات سے ہے:
(۱) آسمان (۲) زمین (۳) دن اور رات یعنی وقت (۴)جہازرانی (۵)سمندر کے سینے پر چلنے والے سفینوں میں انسانوں کی نفع رسانی (۶)بارش (۷)زمین کی روئیدگی، کاشت کاری اور شجرکاری (۸) حیوانات کی زندگی (۹) ہوائوں کی گردش اور (۱۰) بادلوں کا فضا میں معلق ہونا۔
کثیرجہتی ماحولیاتی نظام کے اُن عجائبات اور ان کا انسان کے معاشرتی ماحول اور اس کی راحت رسانی کے تعلق کو، قرآن پاک میں بار بار مشاہدہ، مطالعہ اور سبق آموزی کیلئے انسانوں کے سامنے پیش کیا گیاہے۔ اس آیت میں بھی ان حکمتوں کو سمجھنے اور ان سے استفادہ کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا گیا ہے کیونکہ اس سے انسانی زیست کے ماحول کی تشکیل ہوتی ہے اور توازن، جو کہ ازحد ضرو ری ہے، برقرار رہتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربّ العزت کا یہ سبق بھی انسانوں کو ذہن نشین کرایا ہے کہ کائنات کی ان ساری چیزوں کا خاص اہتمام، انداز، توازن اور اعتدال کے ساتھ بنایا اور سنوارا جانا بامقصد ہے۔ قرآن پاک میں متعدد مواقع پر کائنات کے نظم وتوازن اور اللہ کے مقرر کردہ معیار و مقدار پر غوروفکر کو حق تک رسائی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، مثلاً ایک جگہ ارشاد ہے:
’’ بے شک دانے اور گٹھلی کو (زمین میں ) پھاڑنے والا اللہ ہے۔ وہی زندہ کو مُردہ سے نکالتا ہے۔ اور وہی مُردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے، یہ اللہ کے کرشمے ہیں، تم کدھر بہکے جارہے ہو؟ رات کے پردہ سے وہی دن نکالتا ہے اور اسی نے رات کو وجہ ِ سکون بنایا ہے اور شمس و قمر کی گردش مقرر کی ہے۔ یہ اسی غالب اور علم رکھنے والے اللہ کے ٹھہرائے ہوئے قوانین ہیں۔ ‘‘ (الانعام :۹۵-۹۶)
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
’’اپنے ربّ برتر کی تسبیح کرو جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا، جس نے اندازہ مقرر کیا اور راہ دکھائی اور جس نے نباتات اُگائے۔ ‘‘(الاعلیٰ: ۱ - ۴)
کائنات کاتوازن نہ بگاڑو
ربّ العزت نے اپنی تخلیق میں تناسب، توازن اور اعتدال کا اہتمام رکھا ہے اور اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ بھی اسی طرح اپنے عمل میں اعتدال و توازن رکھیں اور اللہ کے نظامِ تخلیق کا توازن نہ بگاڑیں۔ ربّ العزت کے مقرر کردہ اس توازن کی حکمت کو سمجھنا، اسے اپنی عملی سرگرمیوں کیلئے رہنما بنانا، اسے اپنی نفع رسانی سے جوڑنا، اس سے استفادہ کرنا، اس کا توازن برقرار رکھنا، اس میں خلل پیدا نہ کرنا، انسان کی ضرورت بھی ہے اور ذمہ داری بھی:
’’سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں۔ آسمان کو اسی نے بلند کیا اور توازن قائم فرمایا۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو، انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔ زمین کو اس نے سب مخلوقات کیلئے بنایا۔ اس میں ہرطرح کے پھل ہیں۔ کھجور کے درخت ہیں، جن کے پھل غلافوں میں ہیں، ہر طرح کے غلّے ہیں جن میں بھوسا بھی ہے اور دانہ بھی، تو اے جن و انس! تم اپنے ربّ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے؟‘‘ (الرحمٰن :۵-۱۳)
آیت میں شمس و قمر کی گردش کا حساب، پیڑ پودوں کی شادابی، آسمان کی بلندی، زمین کی تخلیق، غلّے اور پھل پھول کی پیدائش جیسی نعمتوں کو انسان کے سپرد کرنے کے ساتھ یہ ہدایت کی گئی ہے کہ یہ سب کچھ قدرت کے ایک متوازن نظام اورمعتدل انتظام کا حصہ ہے۔ اس نظام میں خلل ڈالنے اور اس حسن ِ انتظام میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کرو۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے عطیات سے اگر ربّ العزت کے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق استفادہ کیا جائے تو یہ اصلاح ہے اور اگر ان اصولوں سے انحراف کیا جائے تو یہ فساد کا باعث ہے۔ ربّ العزت صرف عطیات ہی عطا نہیں کرتے بلکہ طریقۂ استعمال کی ہدایات بھی دیتے ہیں۔ انسان ربّ العزت کے ان عطیات سے کماحقہٗ استفادہ صرف ربّ العزت کی ہدایات کے مطابق ہی کرسکتا ہے۔
(جاری)