Inquilab Logo Happiest Places to Work

جس ذات نے ہمیں پید اکیا وہ حکیم اور رحیم ہے

Updated: July 11, 2025, 4:05 PM IST | Saeed Noorsi | Mumbai

جس ذات نے ہمیں پید اکیا وہ حکیم اور رحیم ہے، تو پھر لازم ہے کہ ہم نہ تو بڑھاپے کا شکوہ کریں اور نہ اس سے تنگ ہوں۔

Old age is a sign of moving to the world of mercy for rest. Photo: INN
بڑھاپا، عالم رحمت کی جانب آرام کی خاطر منتقل ہونے کا اشارہ ہے۔ تصویر: آئی این این

جب میں نے بڑھاپے کی منزل میں قدم رکھا اور جاڑے کے ایک دن عصرکے وقت دنیا پرایک اونچے پہاڑ کی چوٹی سے نظر ڈالی تو اچانک ایک انتہائی تاریک اور غم ناک کیفیت میری رگ رگ میں سرایت کر گئی۔ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں پیر فرتوت [بہت بوڑھا] ہوچکا ہوں، دن بوڑھا ہو گیا ہے، سال کو پیرانہ سالی نے آلیا ہے اور پوری دنیا نے بڑھاپے میں قدم رکھ دیا ہے۔ ہرشے پر چھا جانے والے اس بڑھاپے نے مجھے بری طرح جھنجھوڑ ڈالا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیاسے فراق کا وقت قریب آلگا ہے اور احباب سے فراق کی گھڑ ی بس سر پر کھڑی ہے۔ پھر جس وقت مَیں مایوسی اور غم کی کیفیت سے دوچار تھا، اچانک رحمت الٰہیہ میرے سامنے اس طرح کھل گئی کہ اس نے اس دردناک غم اور دلی مسرت میں اور احباب کے اس قدر دردناک فراق کو ایسی تسلی میں بدل دیا، جس سے میرے نفس کا ایک ایک گوشہ روشن ہوگیا۔ 
اے میرے بوڑھے بھائیو اور بہنو!
اللہ سبحانہ وتعالیٰ جو اپنی ذات کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور قرآن کریم میں ۱۰۰؍ سے زائد مقامات پر اپنا تعارف الرحمٰن و الرحیم کی صفات کے ساتھ کرتا ہے، جو جان داروں میں سے اس کی رحمت طلب کرنے والوں کی مدد اور کمک کے لئے ہمیشہ روئے زمین پر اپنی رحمت کے دریا بہا دیتا ہے، جو عالم غیب سے تحفے بھیجتا ہے اور ہرسال بہار کو بے شمار نعمتوں سے بھردیتا ہے۔ وہ یہ نعمتیں ہم جیسے رز ق کے محتاجوں کے لئے بھیجتا ہے۔ اس سے وہ پوری وضاحت کے ساتھ اپنی گہری رحمت کی تجلیات کو ہمارے اندر پوشیدہ کمزوری اور عاجزی کے درجات کے مطابق ظاہر کرتا ہے۔ اس لئے ہمارے رحیم خالق کی رحمت سب سے بڑی امید اور اس پیرانہ سالی میں سب سے بڑا بلکہ سب سے روشن نور اور سہارا ہے۔ 
میرا وہ جسم جو میری روح کا ٹھکانہ ہے، کمزور ہو کر مرورِ زمانہ کے ساتھ ایک ایک پتھر کرکے گرنے لگااور میری وہ امیدیں جو پوری طاقت سے مجھے دنیا سے جوڑتی تھیں، ان کی رسیاں بھی بوسیدہ ہو کر ٹوٹنے لگی ہیں۔ جس سے میرے دل میں بے شمار دوست واحباب کے فراق کے وقت کے قرب کا احساس پیدا ہوا اور میں اس گہرے روحانی گھائو کے لئے مرہم تلاش کرنے لگا، جس کے لئے کسی تریاق کے ملنے کی بظاہر کوئی اُمید نہیں۔ 
جب میرے پائوں بڑھاپے کی دہلیز پر پڑے تو میری وہ جسمانی صحت جو غفلت کی مہار کو ڈھیلا چھوڑتی تھی، کمزور اوربیما رپڑ چکی تھی۔ چنانچہ بیماری اور پیرانہ سالی ایک ساتھ مل کر مجھ پر حملہ آور ہو ئیں اور میرے سر پر مسلسل ضربیں لگاتی رہیں، یہاں تک کہ انہوں نے میری غفلت کی نیند کو اُڑاکر رکھ دیا۔ چونکہ میرے پاس کو ئی مال، اولاداور ان جیسی کوئی اور چیز نہ تھی جو مجھے دنیا سے جوڑتی، اس لئے میں نے دیکھا کہ میں نے اپنی عمر کا وہ حصہ جو شباب کی غفلت میں ضائع کیا، اس میں گنا ہوں اور خطاؤ ں کے سوا کچھ نہیں۔ 
اچانک معجز بیان قرآن حکیم میری مدد اور تسلی کو آتا ہے اور میرے سامنے امید کا ایک عظیم دروازہ کھول کر امیدو رجا کا ایک ایسا نور عطا کرتا ہے، جو میری اس مایوسی سے کئی گنا بڑی مایوسی کو ہٹا کر میرے ارد گرد چھا ئے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو نیست ونابود کر دیتا ہے۔ 
اس لئے ا س بات میں کوئی شک نہیں کہ ا س نے جو کتابیں نازل فرمائی ہیں ان میں کامل ترین کتاب قرآن مجید ہے، جو معجز بیان ہے، جس کی تلاوت کروڑ وں زبانوں پر ہر لمحے جاری رہتی ہے، جو روشنی پھیلاتا اور سیدھا راستہ دکھاتا ہے، جس کے ہر ہر حرف پر دس دس نیکیاں اور کم سے کم دس گنا اجر ہے۔ کبھی اس پر ۱۰؍ ہزار نیکیاں، بلکہ ۳۰؍ہزار نیکیاں بھی ہوجاتی ہیں جیسے کہ لیلۃ القدر میں ہوتاہے۔ اس طرح یہ کتاب جنت کے وہ پھل اور برزخ کا وہ نور عطا کرتی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے بندۂ مومن کیلئے مقدرکر دیا ہے۔ کیا پوری کائنات میں کوئی ایسی کتاب ہے جو اس کامقابلہ کرسکے؟ کیا کسی کے لئے یہ دعویٰ کرنا ممکن ہے؟
پس جب ہمارے سامنے موجود قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا ہم تک پہنچایا گیا حکم اور اللہ کی اس رحمت کا منبع ہے، جو ہر شے پر محیط ہے اور وہ خالق ارض و سما جل و علا سے اس کی ربوبیت مطلقہ، ا س کی الوہیت کی عظمت اور اس کی ہر شے پر محیط رحمت کے رخ سے صادر ہواہے، تو پھر اس سے چمٹ جا اور اسے مضبوطی سے پکڑ لے کہ اس میں ہر بیماری کی دوا، ہر اندھیرے کی روشنی اور ہر مایوسی کیلئے، اُمید ہے جب کہ اس ابدی ضرورت کی کنجی ایمان اور تسلیم و رضا ہے۔ اسے سننے، اس کے حکم کو بجا لانے اور اس کی تلاوت سے لطف اندوز ہونے کے سوا کچھ نہیں ۔ 
بڑھاپے کے آغاز میں جب میری خواہش تھی کہ لوگوں سے کنارہ کشی کرلوں، میر ی روح نے ’خلیج باسفورس‘ کے اوپر واقع ’یوشع‘کی پہاڑی پر عزلت اور گوشہ نشینی کی راحت کو تلاش کیا۔ پھر ایک دن جب میں اس اُونچی پہاڑی سے آفاق کی طرف دیکھ رہا تھا، تو میں نے بڑھاپے کی علالت کی وجہ سے زوال کی ایسی تصویر دیکھی، جس سے حز ن و غم ٹپک رہا تھا۔ کیونکہ میں نے اپنی عمر کے درخت کی چوٹی، یعنی پینتالیسویں شاخ پر نظر ڈالی اور نیچے اتر تے اترتے اپنی زندگی کی سب سے نچلی منزل تک جاپہنچا، تو میں نے دیکھا کہ ہر سال کی شاخ میں میرے احباب اور دوستوں اور میرے متعلقین کے بے شمار جنازے ہیں۔ 
ان گہری حسرتوں میں مَیں نے امید کے کسی دروازے اور نور کے کسی روزن کو تلاش کرنا شروع کیا جس سے میں اپنے آپ کو تسلی دے سکوں۔ چنانچہ آخرت پر ایمان کے نور نے میری دستگیری کی اور مجھے ایک زبر دست روشنی عطا کی۔ اس نے مجھے ایسی روشنی دی جو کبھی نہیں بجھتی اور ایسی اُمید بخشی جو کبھی نااُمید ی میں نہیں بدل سکتی۔ 
اے میرے بوڑھے بھائیو اور بہنو!
جب آخرت موجود ہے اور وہ دائمی ہے، دنیا سے زیادہ خوب صورت ہے اور جس ذات نے ہمیں پید اکیا ہے وہ حکیم اور رحیم ہے، تو پھر ہم پر لازم ہے کہ ہم نہ تو بڑھاپے کا شکوہ کریں اور نہ اس سے تنگ ہوں کیونکہ ایمان اور عبادت سے بھر پور بڑھاپا جو آدمی کو عمرِ کمال تک پہنچاتاہے زندگی کے کاموں اور ذمہ داریوں کے ختم ہونے کی علامت اور عالم رحمت کی جانب آرام کی خاطر منتقل ہونے کا اشارہ ہے۔ اس لئے اس پر خوب اچھی طرح راضی رہنا چاہئے۔ 
 جی ہاں ! ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم الصلوات و السلام میں سے بعض نے مشاہدے اور بعض نے حق الیقین کے ساتھ اجماع اور تو اتر سے دار آخرت کے وجود کی خبر دی، اور سب نے بالا تفاق اعلان فرمایا کہ لوگوں کو اس کی جانب لے جایا جائے گا اور حق سجانہ و تعالیٰ یقیناً اس دن کو لائے گا، جس کا اس نے قطعی وعدہ فرمایا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK