Inquilab Logo

والدین کے سمجھنے کی چند باتیں

Updated: December 03, 2023, 8:54 AM IST | Mumbai

گزشتہ ہفتے ’’بچوں کی تعلیمی سرپرستی اور والدین‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ہم نے جن نکات پر روشنی ڈالی ان میں سے ایک تھا کہ ’’آج کل پیرنٹنگ کی اصطلاح کافی رواج پاچکی ہے مگر مشکل یہ ہے

Education
تعلیم

گزشتہ ہفتے ’’بچوں کی تعلیمی سرپرستی اور والدین‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ہم نے جن نکات پر روشنی ڈالی ان میں سے ایک تھا کہ ’’آج کل پیرنٹنگ کی اصطلاح کافی رواج پاچکی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ یہ لفظ یا اصطلاح سنی تو جارہی ہے مگر وہ لوگ جو والد یا والدہ بننے کے منصب پر فائز ہوتے ہیں وہ پیرنٹنگ کے فن سے عموما ً واقف نہیں ہوتے۔ اس کی ایک مثال ان والدین کی ہے جو بچوں میں تفریق کرتے ہیں۔ زیادہ لاڈ کا بچہ، ذہین بچہ، بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹا اور اردو میڈیم میں پڑھنے والوں کے مقابلے میں وہ جنہیں بڑے ارمانوں سے انگریزی میڈیم میں داخل کرایا گیا ہے، وغیرہ۔ ان پر زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ والدین ان کی تعلیمی فکر میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کرتے۔ ایسے والدین کی فکرمندی اور بے فکری ایک ہی چھت کے نیچے ناقابل یقین دہرا معیار قائم کرتی ہے۔ والدین کا یہ طرز عمل طلبہ میں عجیب و غریب نفسیاتی مسائل پیدا کرتا ہے مگر والدین ان سے نہ تو واقف ہوتے ہیں نہ ہونا چاہتے ہیں۔ والدین کی بے اعتنائی کا شکار ہونے والے بچے شدید احساس کمتری کا شکار ہوسکتے ہیں جبکہ بہت زیادہ توجہ پانے والے طلبہ خوش فہمی، احساس برتری، ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی اور مزاج کے بگاڑ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ والدین ان نزاکتوں کو نہیں سمجھتے چنانچہ ایسے والدین ہر دو طرح کے بچوں کے ساتھ ناانصافی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ والدین کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ان کی توجہ ہر بچے پر یکساں ہو اور ان سے بچوں میں تفریق ہرگز نہ ہو، ان کا طرز عمل سب کے ساتھ ایک جیسا ہو اور ہر زاویئے سے منصفانہ ہو۔ انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ماضی میں یہ بھی ہوا ہے کہ زیادہ توجہ پانے والا بچہ پیچھے رہ گیا اور کم توجہ پانے والا خلاف توقع کافی آگے بڑھ گیا۔ جب بھی ایسا ہوگا والدین کو شرمسار ہونا پڑے گا اس لئے کوشش یہ ہو کہ اس کی نوبت ہی نہ آئے۔
 گھر میں دو تین بچے ہوں تو پیرنٹنگ رسی پر چلنے جیسا عمل ہوتا ہے۔ اس میں پہلی اور آخری شرط اپنا توازن برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ والدین کسی بچے پر زیادہ توجہ دیتے ہوں محض اس لئے کہ وہ ذہنی یا جسمانی طور پر کمزور ہے تو یہ واجبی طرز عمل ہے مگر اس کی وجہ سے دوسرے بچے یا بچوں پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیَں اس کا جائزہ لینا اور اپنے رویہ میں ضروری تبدیلی لانا ہی منصفانہ سلوک کا اولین تقاضا ہے۔ اس کیلئے دوسرے بچے یا بچوں کو سمجھانے اور انہیں اعتماد میں لینے کی ضرورت ہوگی۔ اگر والدین یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ انہیں اپنے طرز عمل میں کس طرح کی تبدیلی درکار ہے تو بہتر ہے کہ وہ کسی ماہر سے مشورہ کرلیں مگر بچوں میں تفریق کے اثرات کو      نظر  انداز نہ کریں۔ ان کا یہ جاننا، سمجھنا اور دل سے ماننا  ضروری ہے کہ ہر بچہ رب العالمین کی عطا کردہ نعمت اور ان کا قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔ ان میں کوئی کم قیمتی اور کوئی زیادہ قیمتی نہیں ہوتا اس لئے ان کی توجہ بھی کم یا زیادہ نہیں ہونی چاہئے مانا کہ والدین  جان بوجھ تفریق نہیں کرتے مگرنادانستگی میں بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
 والدین کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس اس لئے ہونا چاہئے کہ اساتذہ صرف تعلیم و تدریس کا فرض ادا کرتے ہیں، ان میں سے اکثر، بچوں کے گھریلو حالات سے ناواقف رہتے ہیں اس لئے ان سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ گھر کی کمیوں کو اسکول میں پورا کردیں گے۔   n

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK