• Mon, 01 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

این سی ای آر ٹی کی نئی کتاب میں بابر کو ”بے رحم“، اکبر کو ”سفاک“ اور اورنگ زیب کو ”مندر شکن“ کہاگیا

Updated: July 16, 2025, 8:00 PM IST | New Delhi

ہشتم جماعت کیلئے سماجی علوم کی نئی نصابی کتاب میں مغل سلطنت کے دور کو ”سیاسی عدم استحکام اور فوجی مہمات سے بھرپور“ کہا گیا ہے جس میں ”دیہاتوں اور شہروں کو لوٹا گیا اور مندروں اور تعلیمی مراکز کو تباہ کیا گیا۔“

NCERT. Photo: INN
این سی ای آر ٹی۔ تصویر: آئی این این

نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کی ہشتم جماعت کی سماجی علوم کی نئی نصابی کتاب، جو طلبہ کو دہلی سلطنت اور مغل دور سے متعارف کراتی ہے، میں اس دور کو ”مذہبی عدم رواداری کی کئی مثالوں“ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے میں بابر کو ”ظالم اور بے رحم فاتح“ اور اکبر کے دور حکومت کو ”ظلم اور رواداری کا امتزاج“ جبکہ اورنگ زیب کو ”مندروں اور گردواروں کو تباہ کرنے والے" کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، آٹھویں جماعت کی سماجی علوم کی نصابی کتاب کا حصہ اول، ”سماج کی تلاش: ہندوستان اور اس سے آگے“، موجودہ تعلیمی سیشن میں استعمال کیلئے اس ہفتے جاری کیا گیا ہے۔ این سی ای آر ٹی کی نئی ترمیم شدہ کتابوں میں، یہ پہلی کتاب ہے جو طلبہ کو دہلی سلطنت اور مغل سلطنت سے متعارف کراتی ہے۔

تاریخ کی نئی تصویر کشی

نئی نصابی کتاب کے ایک باب بعنوان ”ہندوستان کے سیاسی نقشے کی تشکیلِ نو“ میں ۱۳ ویں سے ۱۷ ویں صدی کی ہندوستانی تاریخ کی ایک نظر ثانی شدہ تصویر پیش کی گئی ہے جو کتاب کے پچھلے ایڈیشنز کے لہجے اور مواد سے ایک نمایاں انحراف کو ظاہر کرتی ہے۔ اس میں دہلی سلطنت، مغل سلطنت، وجیہ نگر حکومت اور سکھوں کا عروج جیسے موضوعات شامل ہے۔ این سی ای آر ٹی نے ان شمولیتوں پر جواز پیش کرتے ہوئے”تاریخ کے کچھ تاریک ادوار پر نوٹ“ کے عنوان سے ایک باب شامل کیا ہے جس کا مقصد تاریخی سیاق و سباق فراہم کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: یوپی:۱۱؍قدیم قلعوں اور عمارتوں کو سیاحوں کیلئے کھولاجائے گا

ایک باب میں ایک احتیاطی نوٹ بھی شامل ہے جس میں قارئین کو یاد دلایا گیا ہے کہ ”ماضی کے واقعات کیلئے آج کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے“۔ نوٹ میں لکھا ہے: ”ظالمانہ تشدد، بدانتظامی یا اقتدار کے غلط عزائم کی تاریخی ابتداء کو سمجھنا ماضی کو ٹھیک کرنے اور ایک ایسا مستقبل بنانے کا بہترین طریقہ ہے جہاں امید ہے کہ ان کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔“

نصابی کتاب میں مغلیہ دور کو ”سیاسی عدم استحکام اور فوجی مہمات سے بھرپور“ کہا گیا ہے جس میں ”دیہاتوں اور شہروں کو لوٹا گیا اور مندروں اور تعلیمی مراکز کو تباہ کیا گیا۔“ اس میں ”بدھ، جین اور ہندو مندروں میں مقدس یا معزز تصاویر پر متعدد حملے شامل ہیں، ایسی تباہی صرف لوٹ مار کی وجہ سے نہیں بلکہ بت شکنی کے محرک سے بھی تھی۔“ اس میں یہ بھی نمایاں کیا گیا ہے کہ علاؤ الدین خلجی کے جنرل، ملک کافور نے ”کئی ہندو مراکز جیسے سری رنگم، مدورائی، چدمبرم اور ممکنہ طور پر رامیشورم پر حملہ کیا۔“

یہ بھی پڑھئے: سپریم کورٹ نے وزیر اعظم پر پوسٹ کرنے پر کارٹونسٹ کی سرزنش کی

مغل حکمرانوں کے متعلق نیا نقطہ نظر

کتاب میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے بارے میں لکھا ہے: ”جبکہ سیاست نے اس کے فیصلوں میں کردار ادا کیا، اس کے فرمانوں (احکامات) سے اس کا ذاتی مذہبی مقصد بھی واضح ہوتا ہے۔ اس نے صوبوں کے گورنروں کو اسکولوں اور مندروں کو منہدم کرنے کا حکم دیا اور بنارس، متھرا، سومناتھ میں مندروں اور جین مندروں اور سکھ گردواروں کو تباہ کیا۔“ غیر مسلم رعایا پر لگائے جانے والے ٹیکس ”جزیہ“ کو ’عوامی تذلیل کا ذریعہ اور رعایا کیلئے اسلام قبول کرنے کیلئے ایک مالی اور سماجی ترغیب‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جو پچھلی این سی ای آر ٹی کی تفصیلات سے نمایاں طور پر مختلف ہے۔

بابر کے بارے میں لکھا ہے: ”جبکہ اس کی سوانح عمری اسے مہذب اور فکری طور پر متجسس ظاہر کرتی ہے، وہ ایک ”ظالم اور بے رحم فاتح“ بھی تھا، جس نے شہروں کی پوری آبادیوں کا قتل عام کیا، خواتین اور بچوں کو غلام بنایا اور لوٹے ہوئے شہروں کے قتل عام میں مارے گئے لوگوں کی کھوپڑیوں کے ’مینار‘ بنانے پر فخر کیا۔“

کتاب میں اکبر کے دور حکومت کو ”ظلم اور رواداری کا امتزاج“ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس میں چتور گڑھ کے قتل عام اور اس کے فتح کے پیغام کو نقل کیا گیا ہے: ”ہم نے کافروں سے تعلق رکھنے والے متعدد قلعوں اور شہروں پر قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور وہاں اسلام قائم کیا ہے۔ اپنی خونخوار تلواروں کی مدد سے، ہم نے ان کے ذہنوں سے کفر کی علامات مٹا دی ہیں اور ان مقامات پر اور پورے ہندوستان میں مندروں کو بھی تباہ کیا ہے۔“ کتاب میں مزید لکھا ہے کہ اکبر کے دور میں مختلف عقائد کیلئے رواداری کے باوجود، ”غیر مسلموں کو انتظامیہ کے اعلیٰ عہدوں میں اقلیت میں رکھا گیا۔“ اکبر کی یہ تصویر کشی ساتویں جماعت کی پچھلی نصابی کتابوں سے نمایاں طور پر مختلف ہے جہاں بربریت اور مذہبی تباہی کے حوالے کم یا غیر موجود تھے۔

یہ بھی پڑھئے: صحافی اجیت انجم پر بہار ووٹر لسٹ پر نظرثانی کے متعلق ویڈیو پر مقدمہ درج

انتظامی ڈھانچے اور مراٹھا دور کی تصویر کشی

باب میں دہلی سلطنت اور مغل سلطنت کے تحت انتظامی ڈھانچے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب، ۱۳ ویں سے ۱⁷ ویں صدی کے دوران اقتصادی سرگرمی کو نمایاں کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ اس دور کے بعد ۱۶۰۰ء کی دہائی کے آخر میں اقتصادی دباؤ آیا۔ کتاب تسلیم کرتی ہے کہ ہندوستانی معاشرے نے شہروں، قصبوں، مندروں اور معیشت کے دیگر پہلوؤں کو دوبارہ تعمیر کرنے میں موافقت اور لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔

اس باب کے بعد مراٹھوں پر ایک باب ہے جس میں مراٹھا حکمراں شیواجی کو ”ایک ماہر حکمت عملی ساز اور ایک حقیقی بصیرت رکھنے والے“ کے طور پر بیان کیا گیا ہےاور ”ہندوستان کی ثقافتی ترقی میں نمایاں حصہ“ ڈالنے پر پراٹھوں کی تعریف کی گئی ہے۔ نصابی کتاب شیواجی کو ایک پرہیزگار ہندو کے طور پر پیش کرتی ہے جس نے اپنے مذہب کو برقرار رکھتے ہوئے دوسرے مذاہب کا احترام کیا اور بے حرمت کئے گئے مندروں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس، پچھلی نصابی کتاب نے بنیادی طور پر شیواجی کے ایک مضبوط مراٹھا ریاست کی بنیاد رکھنے اور ان کی انتظامی کامیابیوں پر توجہ مرکوز کی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا پر تحمل کا مظاہرہ نہ کرنا ریاستی مداخلت کا باعث بن سکتا ہے: سپریم کورٹ

این سی ای آر ٹی نے کتاب کا دفاع کیا

دی انڈین ایکسپریس کی جانب سے نئی نصابی کتاب میں مندروں پر حملوں اور بعض مغل حکمرانوں کے ”ظلم“ کی تصویر کشی کے متعلق پوچھے جانے پر این سی ای آر ٹی نے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات... (اور بہت سے مزید) واقعی پیش آئے ہیں جنہوں نے ہندوستانی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ”تاریخ کے کچھ تاریک ادوار پر نوٹ“ میں بیان کردہ دلیل کی بنیاد پر انہیں شامل کیا گیا ہے۔ کونسل نے کہا کہ اس سیاق و سباق کے نوٹ کے ساتھ، ایک باب میں ایک احتیاطی پیغام بھی شامل کیا گیا ہے، جس میں واضح کیا گیا ہے کہ ”ماضی کے واقعات کیلئے آج کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے۔“ این سی ای آر ٹی کے مطابق، اس کا ارادہ ”بہتر مستقبل کیلئے تاریخ سے اہم سبق حاصل کرنے کے نقطہ نظر سے ایک ایماندارانہ نقطہ نظر پیش کرنا ہے۔“

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK