Inquilab Logo

گداگری کا بڑھتا رجحان

Updated: April 07, 2024, 4:12 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

جمعۃ الوداع کو ممبئی کی کم و بیش ہر مسجد کے باہر گداگروں کی بھیڑ تھی۔ یہ سلسلہ اس سال کے لئے خاص ہو ایسا نہیں۔ آپ جانتے ہیں ہر سال یہی ہوتا ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

جمعۃ الوداع کو ممبئی کی کم و بیش ہر مسجد کے باہر گداگروں کی بھیڑ تھی۔ یہ سلسلہ اس سال کے لئے خاص ہو ایسا نہیں۔ آپ جانتے ہیں ہر سال یہی ہوتا ہے۔ بلکہ اگر ہمارا مشاہدہ غلط نہیں ہے تو وقت کے ساتھ گداگروں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ مساجد کے باہر ہی نہیں، رمضان المبارک میں عوامی جگہوں پر بھی، بالخصوص وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے، گداگر جا بہ جا دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی دو وَجوہات ہیں : پہلی یہ کہ متعلقہ سرکاری محکمے گداگری مخالف قانون کے نفاذ کو یقینی نہیں بناتے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عوام گداگروں کی حوصلہ شکنی نہں ی کرتے، حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ کون مستحق ہے اور کون نہیں اور کون پیشہ ور گداگر ہے اور کون نہیں، لوگ آنکھ بند کرکے ہر سائل کو کچھ نہ کچھ دیتے ہوئے گزرتے ہیں۔ کوئی رُک کر اُن سے اُن کی حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کرتا۔ ان کی بھیڑ کی وجہ سے سیکوریٹی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، مساجد کے اندر اور باہر کے روح پرور مناظر متاثر ہوتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ بہت سے مستحقین مانگ نہیں پاتے اور بے شمار پیشہ ور مستقل طور پر بھیک مانگ کر ’’کماتے‘‘ ہیں۔ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوگی جنہیں محنت سے کمانے کا موقع دیا جائے تو وہ اس پیشکش کو قبول نہیں کریں گے۔ ماضی میں کئی ایسے گداگروں کے انٹرویوز اخبارات اور رسائل میں شائع ہوچکے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی محنت کرکے روزی حاصل کرنے والوں کی ماہانہ آمدنی سے کہیں زیادہ ہے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ وہ کوئی ملازمت یا کام کیوں نہیں تلاش کرتے تو اُن کے جواب میں ملازمت یا کام کے تئیں حقارت اور گداگری کے تئیں عقیدت تھی۔ اسی لئے ہم بار بار یہی کہیں گے کہ بھیک دینےوالوں کو تحمل برتنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مساجد کے ذمہ داران کو چاہئے کہ وہ گداگروں کو آس پاس پھٹکنے بھی نہ دیں۔ اس کیلئے ٹریفک ڈپارٹمنٹ کی مدد لی جاسکتی ہے، اس کیلئے عریضہ دے کر پولیس سے تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔ 
 اس میں شک نہیں کہ گداگری کو ختم کرنا آسان نہیں ہے۔ اس کیلئے صرف اور صرف قانون کے اطلاق و نفاذ سے بھی متوقع ثمرات برآمد نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے اور جب تک ان کی بازآبادکاری کو یقینی نہیں بنایا جائیگا اور عوامی بیداری کے ذریعہ حوصلہ شکنی نہیں ہوگی تب تک یہ مسئلہ برقرار رہے گا۔ ۲۰۲۱ء میں سپریم کورٹ نے ایک پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ گداگری ایک سماجی و معاشی مسئلہ ہے جس کا حل حکومت ہی پیش کرسکتی ہے جسے انسانی حقوق اور آئین کے ڈائریکٹیو پرنسپلس کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے گداگری پر پابندی لگانے سے انکار کردیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کو بہت سی باتوں کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے مگر عام شہری خود فیصلہ کرنے کے مجاز ہوتے ہیں اس لئے اگر سماجی تنظیمیں عام شہریوں میں بیداری لانے کیلئے سرگرم ہوں اور گداگری کے خلاف علاقائی سطح پر چند رہنما خطوط مرتب کرلئے جائیں تو اس سے پیشہ ورانہ گداگری کے رجحان کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہر وہ شخص جو ہاتھ پھیلائے وہ نادار نہیں ہوسکتا اور جو نادار ہاتھ نہ پھیلا پائے اُس کی مشکلات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا اسلئے ضرورت ہے کہ آنکھ بند کرکے بھیک دینے کے بجائے سوچ سمجھ کر اور دیکھ بھال کر دینے کا مزاج عام ہو جو وقت کا تقاضا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK