Inquilab Logo

پچھلے دس سال میں بنائے گئے قوانین کا جائزہ

Updated: May 05, 2024, 12:58 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

یہاں چند قوانین کا ذکر کیا گیا ہے جو یا تو مرکزی حکومت نے بنائے یا ریاستی حکومت نے۔ جب آپ ان کی بابت پڑھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ ان کا مقصد کیا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

پارلیمنٹ کا بنیادی کام قانون سازی ہوتا ہے۔جب ہم لوک سبھا کیلئے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں  تو ہم یہ فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں  کہ کون قانون لکھے گا اور کون اُسے منظور کریگا۔ ہندوستان میں  اب بحث و مباحثہ کے بغیر قانون بنتے ہیں ۔ مرکز میں  بھی یہی حال ہے اور ریاستوں  میں  بھی۔ اس کامعنی یہ ہوا اور عملاً یہی دیکھنے میں  آیا  ہے کہ جس پارٹی کے نمائندوں  کی ایوان میں  اکثریت ہے اور جو مخصوص نظریات سے وابستہ ہیں ، اُنہوں  نے کسی مزاحمت کے بغیر اپنی مرضی کا قانون بنایا۔ اب جبکہ ہم پانچ سال کیلئے اپنے نمائندوں  کا انتخاب کررہے ہیں ، ضروری ہے کہ ہم گزشتہ دس سال میں  وضع کئے گئے بعض قوانین یا اُن میں  ہونے والی ترامیم کا جائزہ لیں :
 حق اطلاعات (ترمیمی) قانون ۲۰۱۹ء: اس قانون میں  کی جانے والی ترمیم کی وجہ سے مرکزی حکومت کو یہ اختیار ملا کہ وہ انفارمیشن کمشنروں  کی تنخواہ اور ملازمت کی شرائط طے کرے مرکزی  اور ریاستی سطح پر۔ نتیجتاً  انفارمیشن کمشنر متعینہ مدت کیلئے مامور ہونگے اور جو طے کردیا اُن شرائط اور تنخواہوں  پر اُن کا تقرر ہوگا۔ واضح رہے کہ ہندوستان عالمی آر ٹی آئی درجہ بندی میں  ۹؍ ویں  مقام پر ہے۔
 انسداد مجرمانہ سرگرمیاں  (اَن لاء فل ایکٹیوٹیز) ترمیمی قانون (یو اے پی اے) ۲۰۱۹: اس ترمیم سے پہلے یواے پی اے کے تحت صرف تنظیموں  کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا جاسکتا تھا مگر اب حکومت کسی فرد کو بھی ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے سکتی ہے خواہ اُس فرد کا تعلق اُن ۳۶؍ دہشت گرد تنظیموں  میں  سے کسی سے بھی نہ ہوجن کے نام قانون میں  درج ہیں ۔ ایسا فرد گرفتار کرکے جیل بھیجا جاسکتا ہے۔
 کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ (۱۹۸۳ء) آرڈر آف ۲۰۲۲ء: ریاست کرناٹک نے ۲۰۲۲ء میں  اُن اسکولوں  اور کالجوں  میں  مسلم طالبات کے سر ڈھانپنے پر پابندی عائد کردی جہاں  یونیفارم نہیں  ہے۔ اُن کالجوں  میں  بھی، جنہوں  نے کسی یونیفارم کا ضابطہ نافذ نہیں  کیا ہے وہاں  بھی مسلم طالبات کو سر ڈھانپنے سے منع کیا گیا کیونکہ ایسے ملبوسات جن سے مساوات، سالمیت اور عوامی نظم و ضبط پر حرف آتا ہو، نہیں  پہنے جاسکتے البتہ اس حکمنامے سے سکھ طلبہ مستثنیٰ ہیں ۔
 مہاراشٹر اینیمل پریزرویشن (ترمیمی) قانون، ۲۰۱۵ء: وزیر اعظم کی اُن تقریروں  کے بعد جن میں  اُنہوں  نے ایک نئی اصطلاح ’’گلابی انقلاب‘‘ استعمال کی، ریاستوں  نے بڑے کا گوشت استعمال کرنے یا گھر میں  رکھنے کو مجرمانہ سرگرمیوں  میں  شامل کرنا شروع کردیا۔ اس کے بعد پُرتشدد حملے ہونے لگے جنہیں  میڈیا نے ’’بیف لنچنگ‘‘ قرار دیا۔ اگر کوئی شخص بیف سینڈوچ کھاتا ہوا مل جائے تو اُسے پانچ سال کیلئے جیل کی ہوا کھلائی جاسکتی ہے۔ تاہم یہ قانون بنا تو دیگر بی جے پی ریاستوں  نے بھی اس کی نقل کی۔
 دی ہریانہ گئووَنش سنرکشن اور گئو سموردھن ایکٹ، ۲۰۱۵ء: اگر کسی شخص کی تحویل میں  بیف ملا تو اُسے پانچ سال تک کی سزا دی جاسکتی ہے۔ اس قانون میں  ملزم کو ثابت کرنا ہے کہ وہ مجرم نہیں  ہے۔
 دی گجرات اینیمل پریزرویشن (ترمیمی) ایکٹ، ۲۰۱۷ء: اس قانون کے ذریعہ گئوکشی کا ارتکاب کرنے والوں  کی سزا بڑھا کر عمر قید کردی گئی۔ دیگر معاشی جرائم میں  عمرقید کی سزا نہیں  ہے مگر اس گئو کشی مخالف قانون میں  ہے۔ اس ضمن میں  وزیر مملکت برائے داخلہ پردیپ سنگھ جڈیجہ نے جواز پیش کیا تھا کہ اس قانون کا مطلب گئوکشی کو قتل کے مترادف قرار دینا ہے۔
 اُترپردیش ریکوری آف ڈیمیج ٹو پبلک اینڈ پرائیویٹ پراپرٹی ایکٹ ۲۰۲۰ء: یہ قانون حکومت کو یہ اختیار عطا کرتا ہے کہ وہ ٹریبونل قائم کرے جو فساد، ہڑتال، بند، احتجاجی مظاہروں  اور جلوسوں  کے دوران ہونے والے نقصانات کی بھرپائی کا تعین کرے۔ اس قانون کی دفعہ ۲۲؍ کے تحت ٹریبونل کے جاری کردہ حکم کے خلاف کسی بھی عدالت میں  اپیل نہیں  کی جاسکتی۔ 
 اُتراکھنڈ فریڈم آف رِلیجن ایکٹ ۲۰۱۸ء: ’’لوَ جہاد‘‘ کی سازشی تھیوری پر بحث و مباحثہ عام ہونے کے بعد یہ پہلا قانون ہے جو سات دیگر ریاستوں  میں  بھی منظور کیا گیا۔ اس کے تحت ہندو اور مسلم نوجوان مذہب تبدیل کرکے آپس میں  شادی نہیں  کرسکتے تاہم اگر لڑکا یا لڑکی ’’اپنے آبائی مذہب‘‘ میں  واپس آتا ہے تو اسے مذہب کی تبدیلی نہیں  مانا جائیگا۔ جو لڑکے یا لڑکیاں  حکومت میں  عرضی دیئے بغیر مذہب تبدیل کریں  تو اُنہیں  جیل بھیجا جاسکتا ہے۔
 ہماچل پردیش فریڈم آف رِلیجن ایکٹ ۲۰۱۹: یہ قانون بھی اُتراکھنڈ قانون سے مشابہ ہے جس میں  مذہب کی تبلیغ پر سات سال کی سزا سنائی جاسکتی ہے جبکہ مذہب کی تبلیغ دستور ہند کی دفعہ ۲۵؍ کے تحت بنیادی حق ہے۔
 اترپردیش وِدھی ورودھ دھرم، سم پوریورتن پرتی شیدھ ادھیادیش ۲۰۲۰ء: درج بالا قوانین ہی کے خطوط پر یہ قانون بھی تبدیلیٔ مذہب کی ممانعت کرتا ہے، کسی کو مذہب بدلنا ہو تو حکومت سے اجازت لے اور ۶۰؍ دن کا نوٹس دے۔ اسی نوع کے قوانین ایم پی (مدھیہ پردیش فریڈم آف رِلیجن ایکٹ ۲۰۲۱ء)، گجرات (گجرات فریڈم آف رِلیجن ترمیمی ایکٹ ۲۰۲۱ء)، کرناٹک (دی کرناٹک پروٹیکشن ااف رائٹ ٹو فریڈم آف رلیجن ایکٹ ۲۰۲۲ء) اور ہریانہ (دی ہریانہ پریوینشن آف اَن لاء فل کنورزن آف رلیجس ایکٹ ۲۰۲۲ء) میں  بھی وضع کئے گئے۔
 ٹیمپریری سسپنشن آف ٹیلی کوم سروسیز (پبلک ایمرجنسی اَور  پبلک سیفٹی) رولس ۲۰۱۷ء): ان رولس کے تحت مرکزی یا ریاستی حکومتوں  کو یہ اختیار حاصل ہوا کہ وہ کسی بھی وجہ کو بنیاد بناکر موبائل اور انٹرنیٹ خدمات موقوف کرسکتے ہیں ۔ انٹرنیٹ بند کئے جانے کے جتنے واقعات ہندوستان میں  ہوئے، کسی اور ملک میں  نہیں  ہوئے۔ 
 دی گجرات پروہیبیشن آف ٹرانسفر آف اِموویبل پراپرٹی اینڈ     پروویژن فار پروٹیکشن آف ٹیننٹس فرام اِوِکشن فرام پریمائسس اِن  ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ ۲۰۱۹ء، ترمیم۔ اس قانون کے تحت ہندوؤں   اور مسلمانوں  کو اجازت نہیں  ہے کہ وہ ، حکومت کی منظوری کے بغیر ایک دوسرے کو اپنی پراپرٹی کا معاملہ کریں ۔ حکومت طے کریگی کہ پراپرٹی بیچنے کی وجہ سے پولرائزیشن  یا دوسرے مذہب کے لوگوں  کا غیر مناسب ارتکاز تو نہیں  ہوگا۔ حکومت کسی سودے یا معاہدہ کو منسوخ کرسکتی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ گجرات کے شہروں کے بعض حصوں   میں  غیر ملکی تو پراپرٹی خرید سکتے ہیں ، مسلمان نہیں ۔ 
 غور طلب ہے کہ ایک بار اس نوع کے قوانین بن گئے تو جس پارٹی کی حکومت نے بنائے اُس کے بے دخل ہونے کے بعد بھی وہ جاری رہے۔ یہ افسوسناک بات ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK