گزشتہ دنوں تمل ناڈو کے گورنر سے متعلق سپریم کورٹ نے اپنے ہی نظریے کو مسترد کردیا، یہ فیصلہ محض قانونی تشریح نہیں ہے بلکہ یہ ایک گہری سیاسی اور ادارہ جاتی تبدیلی کا اشارہ ہے۔
گورنروں کے اختیارات سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے نے عوام کو خدشات میں مبتلاکردیا ہے۔ تصویر:آئی این این
ہندوستانی آئینی تاریخ کے ایک بڑے یوٹرن میں ۲۱؍ نومبر۲۰۲۵ء کو ہندوستان کی سپریم کورٹ نے تمل ناڈو کے گورنر کے معاملے میں اپنے ہی نظریے کو مسترد کر دیا۔ یہ فیصلہ محض قانونی تشریح نہیں ہے بلکہ یہ ایک گہری سیاسی اور ادارہ جاتی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ اس فیصلے نے مرکز کی مودی حکومت کو آرٹیکل۲۰۰؍ کی شکل میں ایک گائیڈڈ میزائل دے دیا ہے تاکہ اختلاف کرنے والی اپوزیشن ریاستوں کو آئینی طور پر مفلوج کر دیا جائے۔یہ ملک کے جمہوری ڈھانچے کو مرکزیت دینے کی طرف سب سے سخت عدالتی قدم اور وفاقیت کے اصولوں پر ایک سنگین دھچکا ہے۔ اس فیصلے نے مرکز کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ ریاستی حکومتوں کو بالواسطہ طور پر مجبور کرے کہ وہ یا تو اس کے معتمد یا مددگار بنیں یا پھر غیر معینہ قانونی لڑائی کیلئے بار بار سپریم کورٹ سے رجوع کریں۔
اپریل۲۰۲۵ء میں، سپریم کورٹ نے دفعہ۱۴۲؍ (مکمل انصاف) کا حوالہ دیتےہوئے گورنر کی من مانی کو روک دیا تھا۔ اسی عدالت نے پھر استدلال کیا کہ آئینی ڈیڈ لائن پر ’خاموشی‘ کا مطلب ’نہ ختم ہونے والی تاخیر کی اجازت‘ نہیں ہو سکتا۔ منتخب مقننہ کی خودمختاری کو بحال کرنے اور قانون کی حکمرانی کے تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے ’ شعوری رضامندی‘ کا اصول ضروری تھا۔
لیکن نومبر۲۰۲۵ء میں، ایک واضح یو ٹرن میں، عدالت نے اپنے ہی فیصلے کو تبدیل کر دیا اور گورنر کیلئے کوئی آخری تاریخ مقرر کرنے سے انکار کر دیا۔ اب، عدالت نے دلیل دی ہے کہ وہ’’اگزیکٹیو‘ میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ یہ دلیل متضاد ہے۔ یہ مداخلت نہیں بلکہ قانون کے احترام اور آئین کی پاسداری کا معاملہ تھا۔ یہ فیصلہ گورنر، ایک غیر منتخب مرکزی نمائندہ کو، مرکز کی جانب سے مقننہ کی قانون سازی کی مرضی پر ’خاموش ویٹو‘ لگانے کا لامحدود اختیار دیتا ہے، جس سے ریاستی حکومتوں کو مؤثر طریقے سے بے اختیار کر دیا جاتا ہے۔بڑے بنچ یا نئے قانونی جواز کے بغیر نومبر کا یو ٹرن عدالتی استحکام کے اصول کو مجروح کرتا ہے۔
وقت میں تضاد: یہ فیصلہ اکتوبر ۲۰۲۵ء میں چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی پر جوتا پھینکنے کے واقعے کے ٹھیک ایک ماہ بعد آیا۔ یہ وقت عدالتی آزادی پر’غیر مرئی دباؤ‘ کے بارے میں سنگین خدشات پیدا کرتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب انتظامیہ عدلیہ کو ڈکٹیٹ کر رہی ہے یا عدلیہ پر خفیہ عناصر کا غلبہ ہو گیا ہے؟
پاکستان کا آئینہ: عدالتی اختیارات چھیننے والی ترمیم کے خلاف احتجاج میں دو سینئر پاکستانی ججوں کا استعفیٰ اسی ماہ نومبر ۲۰۲۵ء میں پیش آیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک کمزور جمہوریت بھی اخلاقی جرأت کے ذریعے ادارہ جاتی سالمیت کو برقرار رکھ سکتی ہے، جبکہ ہندوستان میں مضبوط جمہوریت کے باوجود فیصلوں میں سمجھوتہ ہوتا نظر آتا ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک بڑی سیاسی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے، جہاں مرکزی حکومت ادارہ جاتی کنٹرول کے ذریعے اختلاف رائے کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
گورنر اور ان کے اختیارات: گائیڈڈ میزائل: یہ ہتھیار اپوزیشن ریاستوں میں عوامی فلاح و بہبود اور اصلاحی قوانین کے نفاذ کو روک کر قانون سازی کو مفلوج کر دے گا، جس سے حکومت مخالف لہر جنم لے گی۔