انسان جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو بظاہر ایک کھلے میدان میں کھڑا ہوتا ہے، مگر حقیقت میں وہ دو مختلف دائروں کے بیچ فیصلہ کن موڑ پر ہوتا ہے: ایک دائرہ قید کا ہے اور دوسرا آزادی کا۔
احکامِ الٰہی کی پابند،انسان کو قید نہیں کرتی بلکہ آخرت کے ابدی آرام و راحت کا سبب بنتی ہے۔ تصویر: آئی این این
انسان جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو بظاہر ایک کھلے میدان میں کھڑا ہوتا ہے، مگر حقیقت میں وہ دو مختلف دائروں کے بیچ فیصلہ کن موڑ پر ہوتا ہے: ایک دائرہ قید کا ہے اور دوسرا آزادی کا۔ یہ قید و آزادی وہ نہیں جسے عام انسانی ذہن سلاخوں، زنجیروں یا کھلی فضا سے تعبیر کرتا ہے، بلکہ یہ ایک گہری فکری، اخلاقی اور مابعد الطبیعیاتی حقیقت ہے۔ دنیا انسان کے لیے یا تو قید خانہ ہے یا آزاد خانہ اور حیرت انگیز طور پر یہی دنیا دونوں حیثیتوں کو بیک وقت اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، فرق صرف انسان کے انتخاب کا ہے۔
اگر انسان اپنے آپ کو اس دنیا میں اللہ کے احکام کا پابند بنا لے، خواہشات کو عقل اور وحی کی لگام دے، اور آزادی کے نام پر نفس کی آوارہ گردی کو قبول نہ کرے، تو بظاہر وہ خود کو ایک قید میں ڈال دیتا ہے۔ حلال و حرام کی دیواریں، فرض و واجب کی حد بندیاں، اور جواب دہی کا مسلسل احساس یہ سب مل کر زندگی کو محدود بنا دیتے ہیں۔ لیکن یہی محدودیت درحقیقت ایک بڑے مقصد کی تیاری ہے۔ یہ اس مسافر کی مانند ہے جو چند لمحوں کے آرام کو قربان کرکے طویل اور محفوظ سفر کا انتظام کرتا ہے، یا اس طالبعلم کی طرح ہے جو چند سال کی مشقت برداشت کرکے زندگی بھر کی فکری و معاشی آزادی خرید لیتا ہے۔ یہ قید دراصل عارضی نظم ہے جس کا حاصل ابدی آزادی ہے۔
اس کے برعکس، جو شخص احکامِ خداوندی سے بیزار ہوکر زندگی گزارتا ہے، وہ اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے۔ وہ کہتا ہے: میں جو چاہوں کروں، جیسے چاہوں جیوں، کسی کو جوابدہ نہیں ہوں۔ یہ آزادی بظاہر دلکش ہے مگر حقیقت میں یہ اس مسافر کی آزادی ہے جو نقشہ پھینک دے، قطب نما توڑ دے اور کہے کہ اب میں واقعی آزاد ہوں، حالانکہ وہ رفتہ رفتہ ایسی وادی کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ یہ آزادی لمحاتی ہے، فانی ہے، اور انجام کے اعتبار سے نہایت مہنگی۔ یہ چند دن کی بے مہار خوشی کے بدلے ایسی قید کا سودا ہے جس کا تصور بھی انسانی عقل اس دنیا میں پوری طرح نہیں کر سکتی۔
یہاں عقل ایک بنیادی سوال اٹھاتی ہے: اگر انسان کو ایک مختصر مدت کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہے، اور اسے اس مدت کے ہر لمحے کا حساب دینا ہے، تو دانشمندی کس میں ہے؟ اس میں کہ وہ قلیل مدتی آزادی کے نشے میں مستقل نقصان مول لے، یا اس میں کہ وہ تھوڑے سے نظم و ضبط کے ذریعے لامحدود نفع حاصل کرے؟
دنیا دراصل ایک سرمایہ کاری کا میدان ہے، جہاں سرمایہ کم ہے، چند سال، چند سانسیں مگر ممکنہ منافع یا خسارہ لامحدود ہے۔ عقلِ سلیم کبھی ایسے سودے پر راضی نہیں ہوتی جس میں فائدہ وقتی ہو اور نقصان دائمی، اور نہ ہی وہ اس تجارت کو ترک کرتی ہے جس میں قیمت معمولی اور نفع ابدی ہو۔
انسان مکلف ہے، اور تکلیف ہمیشہ غایت کے تابع ہوتی ہے۔ جب غایت لامحدود ہویعنی آخرت کی کامیابی، تو محدود تکلیف نہ صرف قابلِ قبول بلکہ ناگزیر ہو جاتی ہے۔ در اصل، یہ مسئلہ ظاہری آزادی اور حقیقی آزادی کا ہے۔ ظاہری آزادی خواہشات کی پیروی کا نام ہے، جبکہ حقیقی آزادی خواہشات پر اختیار حاصل کرنے سے جنم لیتی ہے۔ جو شخص نفس کا غلام ہے، وہ بظاہر آزاد ہو کر بھی قیدی ہے، اور جو شخص نفس پر قابو رکھتا ہے، وہ بظاہر پابند ہو کر بھی آزاد ہے۔اسی گہری حقیقت کو رسولِ اکرم ﷺ نے نہایت مختصر مگر ہمہ گیر الفاظ میں سمیٹ دیا: ’’دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔‘‘(صحیح مسلم)
یہ محض ایک جملہ نہیں، بلکہ انسانی زندگی کی پوری فکری نقشہ بندی ہے۔ مومن کے لئے دنیا قید ہے، اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو اعلیٰ مقصد کے تابع رکھتا ہے؛ اور کافر کے لئے دنیا جنت ہے، اس لئے کہ وہ کسی آنے والے حساب کو سامنے رکھے بغیر اسی محدود دنیا میں اپنی آخری منزل تلاش کرتا ہے۔ مگر انجام کار، یہی دنیا کی قید مومن کیلئے ابدی آزادی کا دروازہ بن جاتی ہےاور یہی دنیا کی جنت کافر کے لئے ایسی قید میں بدل جاتی ہے جس سے نجات کا کوئی تصور نہیں۔
چنانچہ، عقلمند وہ نہیں جو آج کے ذوق پر فریفتہ ہو، بلکہ وہ ہے جو انجام کو دیکھ کر انتخاب کرے؛ جو لمحے کی آزادی کے بجائے ابد کی نجات کو ترجیح دے؛ اور جو اس دنیا کی ظاہری قید میں رہ کر اس آزاد گھر کی تیاری کرے جہاں نہ کوئی پابندی ہوگی، نہ خوف، نہ زوال بلکہ ایسی آزادی ہوگی جس کا تصور بھی انسانی ذہن اس دنیا میں پوری طرح نہیں کر سکتا۔