حبّ رسول ؐکے اظہار میں صحابہ کرام ؓ کا طرزِ عمل کیا تھا؟ انھوں نے آپؐ کی حیات ِ مبارکہ اور وصال کے بعد آپؐ کے ساتھ اپنی والہانہ محبت کا اظہار کس کس انداز میں کیا؟ زیرِ نظر تحریر میں چندمظاہر ِ محبت کو بیان کیا گیا ہے۔
معاملاتِ زندگی، طرزِ معاشرت اور بودوباش میں شریعت و سنت کی اتباع اور اسوۂ رسول ﷺ کی پیروی کو فوقیت دینا ضروری ہے۔ تصویر: آئی این این
اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے آخری رسول اور محبوب سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کی سراپا محاسن و کمالات ذات سے دنیا و مافیہا حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی زیادہ اور والہانہ عقیدت و محبت رکھنے کا مسئلہ اہلِ ایمان میں کبھی مختلف فیہ نہیں رہا۔ آپؐ کی ذات والا شان سے محبت ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن میں پیوست اور رچی بسی ہے اور عقلی و نقلی اعتبار سے حبِّ رسولؐ کے وجوب پر امتِ مسلمہ کے تمام قابلِ ذکر مکاتب فکر اور علماء و مشائخ متفق ہیں۔ اس کے باوجود بدقسمتی سے حبِّ رسولؐ کے اظہار کامعاملہ کچھ عرصہ سے ’’افراط و تفریط‘‘ کا شکار ہو گیا ہے ۔
حبّ ِ رسول ﷺ کے معاملے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ محبت ِ رسولؐ کا دعویٰ خود فریبی کے مترادف ہے۔ اس لیے دین و دنیا کے دیگر معاملات کی طرح حب ّرسولؐ کے مظاہرہ میں بھی حضورؐ کے براہِ راست فیض و تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہر قسم کے تصنع تکلف اور نمود و نمائش سے پاک طرزِ عمل پر چلنا ہی ہر طرح کے ظاہری و باطنی نقصانات و خطرات سے محفوظ و مامون اور سیدھی راہ ہے۔ انہوں نے اطاعت و اتباعِ رسول ﷺ کے بھی ریکارڈ قائم کردیئے اور شریعت کی پابندی کرتے ہوئے بے ساختہ اور غیر مصنوعی فطری انداز میں حضور ﷺ کے ساتھ قلبی لگاؤ اور محبت کے اظہار میں بھی کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ زیرِ نظر تحریر میں انہی ’’مظاہرِ محبت‘‘ کو مستند مآخذ و مراجع کی روشنی میں بیان کیا جارہا ہے:
ذاتِ رسول ﷺ : ہر شے سے محبوب
رسولِ مقبول ﷺ کی ذاتِ گرامی کے ساتھ دنیاو مافیہا سے زیادہ اور والہانہ محبت رکھنا عقلی و نقلی ہر دو اعتبار سے ضروری ہے۔ محبت ِ رسولؐ کی اسی اہمیت و ضرورت کے مدِّنظر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپؐ کی ذات والا شان کے ساتھ کس طرح دنیا کی قیمتی سے قیمتی چیز اور قریبی سے قریبی رشتہ سے زیادہ والہانہ ٹوٹ ٹوٹ کر اور دل و جان سے محبت رکھتے تھے اور کس کس انداز میں عملی طور پر اس محبت کا اظہار ہوتا تھا، اس کا کچھ اندازہ درج ذیل جذبات و تاثرات اور مظاہرے سے لگایا جاسکتا ہے:
lحضرت علی بن ابی طالب ؓسے پوچھا گیا کہ آپ لوگوں (صحابہ) کی محبت رسولؐ اللہ کے ساتھ کیسی تھی؟ فرمایا: اللہ کی قسم آپؐ کی ذاتِ گرامی ہمارے اموال، اولاد، ماں باپ اور پیاسے کے لئے ٹھنڈا پانی جتنا عزیز ہوتا ہے، اس سے بھی زیادہ محبوب تھی۔ (قاضی عیاض، الشفاء بہ تعریف حقوق المصطفیٰؐ، ۲/۲۲)
lحضرت بلال ؓ کی وفات کا وقت قریب آیا، ان کی زوجہ سرہانے بیٹھی تھیں۔ شدتِ غم سے ان کی زبان سے نکلا: ’’واحزناہ‘‘۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ مت کہو بلکہ کہو:(واطرباہ)کتنا خوشی کا وقت ہے،کیونکہ اب میں اپنے احباب (حضورؐ اور صحابہ) سے ملاقات کروں گا۔ (قسطلانی، المواہب اللدنیہ،۳/۳۰۷)
lحضرت عبداللہ بن مغفل ؓکہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ؐ سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ! اللہ کی قسم میں آپؐ سے محبت رکھتا ہوں، تو آپؐ نے فرمایا: جو کچھ تم کہہ (دعویٰ کر) رہے ہو، اس پر غور کرلو (یہ دعویٰ اتنا آسان نہیں)۔ اس نے دوبارہ کہا: اللہ کی قسم میں آپؐ کی ذات سے محبت رکھتا ہوں اور یہ جملہ (دعویٰ) تین مرتبہ دہرایا۔
آپؐ نے فرمایا! اگر تم میرے ساتھ محبت رکھتے ہو تو پھر فقر کے لئے کمر کس لو کیونکہ جو آدمی مجھ سے محبت رکھتا ہے تو فقر اس کی طرف (کثرتِ انفاق اور جود و سخا کے سبب) اس سیلاب سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے آتا ہے جو اپنے بہاؤ کی طرف تیزی سے بہتا ہے۔ (ترمذی، جامع، ابواب الزہد باب، ماجاء فی فضل الفقر)
حضور ﷺ کے لیے معمولی تکلیف بھی پسند نہیں
سچی، حقیقی اور واقعی محبت کا طبعی و فطری تقاضا ہے کہ محب اپنے محبوب کو معمولی سے معمولی تکلیف اور رنج میں بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ اس قسم کی واقعی محبت ِ رسولؐ کا ایک روح پرور مظاہرہ ملاحظہ فرمایئے:
صحابیِٔ رسولؐ حضرت زید بن دثنہ ؓکو مشہور رئیس مکہ صفوان بن امیہ نے خرید لیا کہ غزوہ بدر میں جہنم رسید کیے گئے اپنے باپ امیہ کے بدلے ان کو قتل کرکے اپنا غصہ ٹھنڈا کرسکے۔ چنانچہ صفوان نے انہیں اپنے غلام نسطاس کے ہاتھ حرم کے باہر تنعیم میں لے جاکر قتل کرنے کے لیے بھیج دیا۔ اس کے ہمراہ قریش کے چندلوگ اور بھی تھے جن میں ابوسفیان بن حرب بھی شامل تھا۔ زید کے قتل کی تیاری ہوئی تو ابوسفیان نے کہا: اے زید! خدارا بتاؤ کہ کیا تمہیں پسند ہے کہ تمہارے بجائے ہم محمد ﷺ کو ہدف بنائیں اور تم اپنےگھر میں ہشاش بشاش رہو۔ تو حضرت زید نے کہا: ’’واللہ! میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ حضرت محمد ﷺ کو اپنے مکان میں کانٹا چبھ جائے اور میں اپنے اہل و عیال میں آرام سے بیٹھا رہوں (چہ جائیکہ آں جناب ﷺ کو العیاذ باللہ شہید کر دیا جائے) یہ سن کر ابوسفیان نے کہا: میں نے لوگوں میں سے کسی کو ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی محمدؐ کے ساتھی اُن سے کرتے ہیں۔ (ابن کثیر، سیرۃ النبی)
آخرت میں معیت ِ نبویؐ کی آرزو
بارگاہِ نبوی میں حاضری کوئی معمولی سعادت نہیں تھی۔ صحابہ کرامؓ معیت ِ نبویؐ میں ایمانی و روحانی انوار و برکات، ذہنی اطمینان و سکون، قلبی جذب و کیف اور مسلسل سرشاری کے عینی مشاہدہ کے بعد اس بات کی اکثر آرزو کرتے تھے کہ جس طرح دنیا میں انہیں آپؐ کی معیت اختیار کرنے کا موقع حاصل ہے، اسی طرح آخرت اور جنت میں بھی حضور ﷺ کی معیت کی دولت حاصل رہے۔
حضرت ربیعہ بن کعب الاسلمی الانصاری بیان کرتے ہیں کہ میں رات بارگاہ نبوی میں گزارتا اور آپ ﷺ کے لیے وضو کا پانی لاتا اور دیگر خدمات سرانجام دیتا۔ (ایک رات ان کی پرخلوص اور بے لوث خدمت دیکھ کر حضور نبی اکرم ﷺ کا دریائے رحمت جوش میں آگیا) آپ ﷺ نے فرمایا: ربیعہ مانگو (جو کچھ مانگنا چاہتے ہو)۔ میں نے عرض کیا:’’میں جنت میں بھی آپ ﷺ کی رفاقت و صحبت کی درخواست کرتا ہوں۔‘‘
فرمایا: علاوہ ازیں کوئی سوال؟
میں نے عرض کیا بس میری یہی ایک آرزو ہے۔
فرمایا :(اگر اتنے بلند مرتبے کے خواہاں ہو) تو اپنی خواہشات ِنفس کے برعکس کثرتِ سجود سے اس معاملے میں میری مدد کرو۔(مسلم، الصحیح، کتاب الصلوٰۃ باب فضل السجود والحث علیہ۱ / ۱۹۳)
حضور ﷺ کی خاطر مزدوری کی رقم قربان
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ دنیوی مال و دولت کے اعتبار سے اگرچہ فقیر مگر ایمانی دولت کے لحاظ سے ایک’’سرمایہ دار‘‘ اور بلند ہمت و بلند قامت صحابی بھی تھے۔ آپؓ کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے اور جنھیں اسلام قبول کرنے اور ایمان لانے کی پاداش میں اہلِ مکہ کی طرف سے ظلم و ستم کا نشانہ بننے اور اس آزمائش و امتحان میں ثابت قدم رہنے کا ’’اعزاز‘‘ بھی حاصل ہے۔ نبی رحمت ﷺ کے دامن سے اپنی کمال وابستگی کا ایک ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
میں ایک لوہار تھا۔ میں نے (معروف دشمنِ رسول) عاص بن وائل (سہمی) کے لئے ایک کام کیا جس کے بدلے میں میری کچھ مزدوری اس کے نام جمع ہوگئی۔ میں اپنی مزدوری لینے کے لیے اس کے پاس آیا تو اس نے کہا: قسم بخدا! میں تمہیں اس وقت تک ادائیگی نہیں کروں گا، جب تک تم محمد ؐ کا انکار نہیں کرتے ہو۔
میں نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہوگا، یہاں تک کہ تو مرے اور پھر اٹھایا جائے (یعنی قیامت تک ایسا نہیں ہوسکتا)۔ اس نے کہا: کیا میں مروں گا اور دوبارہ اٹھایا جاؤں گا؟ میں نے کہا: ہاں، ایسا ہوگا۔ تو ازراہِ مذاق کہنے لگا، پھر وہاں بھی میرے پاس مال و اولاد ہوں گے، لہٰذا میں تمہاری مزدوری وہاں اداکروں گا۔
اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: ’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اور کہنے لگا: مجھے (قیامت کے روز بھی اسی طرح) مال و اولاد ضرور دیئے جائیں گے۔‘‘ سورہ مریم: ۷۷ (بخاری، الصحیح، کتاب البیوع باب ذکر القین والحداد، ۱:۲۸۱)
صحبت ِ رسولؐ کی خاطر قطعہ زمین واپس کردینا
ابنِ سیرین کہتے ہیں کہ رسولِ اکرم ﷺ نے سلیط نامی ایک انصاری کو جس کے فضل و احسان کا آپ ؐ ذکر کرتے تھے، ایک قطعہ زمین دیا تھا۔ یہ شخص اپنی اس زمین پر جاکر وہاں کچھ دنوں قیام کرکے واپس آیا کرتا تو لوگ اسے بتاتے کہ تمہاری عدم موجودگی میں قرآن مجید کا فلاں فلاں حصہ نازل ہوا اور رسولؐ اللہ نے فلاں فلاں مسئلوں کے فیصلے فرمائے۔ چنانچہ وہ شخص حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ کے عنایت کردہ قطعہ زمین نے مجھے آپؐ کی صحبت سے محروم کردیا ہے لہٰذا میری جانب سے آپؐ اسے قبول (واپس) فرمالیں۔ مجھے ایسی کوئی چیز درکار نہیں جو آپؐ کی صحبت سے مجھے محروم کردے۔ چنانچہ رسولؐ اللہ نے وہ قطعہ زمین ان سے واپس لے لیا ( اور ایک دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ کو دے دیا)۔(ابو عبید، کتاب الاموال، ۴۱:۴۰۹)