والدین کی دعاؤں کے متعلق جہاں بھی کوئی ہدایت آئی ہے اس میں اولاد کے نیک پارسا ہونے کی کہیں کوئی شرط نہیں۔
اب شادیوں میں کرسی ٹیبل کا رواج عام ہے۔ تصویر: آئی این این
پڑھنے میں آتا ہے کہ والدین کی دعا جو اولاد کے حق میں کی گئی، اس کی قبولیت میں شک نہیں۔ کیا اُن والدین کی دعا بھی اولاد کے حق میں مقبول ہے جو دینی احکامات کی پابندی نہیں کرتے؟
عبداللہ، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: اسلام میں ماں باپ کی جو اہمیت ہے وہ قرآن و حدیث کی متعدد نصوص سے ثابت اور روز روشن کی طرح واضح ہے۔ اسلامی تعلیمات کے علاوہ ہر مہذب انسانی معاشرہ والدین کی اہمیت سے بخوبی واقفیت رکھتا ہے۔ بچوں کی پرورش اور نگہداشت اور تعلیم و تربیت میں ان کا جو کردار ہے وہ بھی سب کے علم میں ہے۔ قرآن کریم نے ان کے اسی کر دار کو یاد دلاتے ہوئے اولاد کو یہ دعا تلقین کی ہے کہ ’’اے رب، ان پر رحم فرما جیسے انہوں نے بچپن میں ہماری تربیت کی۔‘‘ قرآن کریم نے اولاد کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ ’’ان کو اف تک نہ کہو نہ ہی ان سے جھڑک کر بات کرو۔‘‘ والدین کی دعا کے متعلق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں یہ صراحت موجود ہے کہ اولاد کے حق میں والد کی دعا رد نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کو علماء نے والدین کو اس امر سے منع کیا ہے کہ ان کے حق میں بد دعا کریں۔ والدین کی دعاؤں کے متعلق جہاں بھی کوئی ہدایت آئی ہے اس میں اُن کے نیک اور پارسا ہونے کی کہیں کوئی شرط نہیں ۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
(نوٹ) البتہ وہ برائی اور اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں تو اس میں اولاد ان کی اطاعت نہ کرے۔ واللہ اعلم
ٹیبل کرسی پر کھانے کا حکم
شادی کے پروگرام میں ٹیبل لگا کر اور اس پر دسترخوان بچھا کر ایک سائیڈ کرسیاں ڈال کر کھانا کھلایا جائے تو اس میں کوئی کراہت تو نہیں ہے؟ کسی نے بتایا کہ یہ درست نہیں ہے کیوں کہ کھانا زمین پر نیچے بیٹھ کر کھانا چاہئے۔ براہ کرم، قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب تحریر فرمائیں۔ احمد حسن ،ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: یہ بات اس حد تک تو صحیح ہے کہ زمین پر دسترخوان بچھاکر کھانا سنت اور حضورﷺ نیز حضرات صحابہ اور تابعین سے لے کر اب سے پہلے تک امت کا تعامل بھی یہی تھا۔ کرسی ٹیبل وغیرہ کے رواج تک یہی معمول ہر دور میں رہا ہے۔ بہت سے علماء آج بھی سابقہ طرز عمل ہی کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں تاہم فرشی نشست کے بجائے کرسی وغیرہ کو غلط کسی نے نہیں کہا۔ اس لئے جو حضرات غیر معذور ہیں وہ تو فرشی نشست کے لئے کوشش کریں مگر جو معذور ہیں وہ جس طرح ممکن ہو بیٹھیں ۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
فرض کی پانچ رکعات
امام صاحب نے عصر کی نماز میں چار رکعت کے بجائے پانچ پڑھا دی، کسی نے لقمہ بھی نہیں دیا۔ نماز کے بعد مقتدی باہر آئے تو دو تین مقتدیوں نے کہا کہ امام صاحب نے پانچ رکعت پڑھائی ہے۔ اب کیا کیا جائے؟ کیا مغرب میں نماز کے بعد اعلان کیا جائے کہ عصر کی نماز اپنی اپنی دوبارہ پڑھیں۔ کیا یہ درست ہے؟
فہیم الدین، بہار
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: تین اور چاررکعت والی نمازوں میں پہلی دو رکعتوں کے بعد بقدر تشہد بیٹھنا اور التحیات (تشہد) پڑھنا یہ امور واجبات ِنماز میں سے ہیں جبکہ آخری رکعت کے بعد بیٹھنا فرض ہے۔ واجب ترک ہوجائے تو سجدۂ سہو سے تلافی ہوجاتی ہے لیکن فرض کے فوت ہوجانے سے نماز ہی نہیں ہوتی، اس لئے اس کا اعادہ ضروری ہوتا ہے۔ صورت مسئولہ میں امام صاحب نے چار رکعت کے بجائے پانچ رکعت پڑھا دی تو اس صورت میں چونکہ فرض چھو‘ٹا ہے اس لئے نماز دوبارہ پڑھی جائےگی۔
سائل کے مطابق مسجد میں رہتے ہوئے کسی نے کچھ نہیں کہا، باہر آنے کے بعد دوتین مصلیان نے یہ غلطی بتائی تو دوسروں کو، اور خود امام کو کیا یاد ہے ؟ اگر امام صاحب بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں تو جو اس نماز میں شریک تھے سب کو نماز دہرانی ہوگی، پھر چاہے جماعت کے ساتھ پڑھیں یا انفرادی پڑھیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم