Inquilab Logo

قرآن مجید سے ایسا تعلق جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی!

Updated: April 05, 2024, 3:28 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

ماہِ رمضان اور شب ِ نزولِ قرآن کی مناسبت سے حضرت عبداللہ بن مبارک ؒکے حوالے سے بیان کردہ یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیے اور دعا کیجئے کہ ہمارا تعلق بالقرآن بھی اس طرح کا ہوجائے۔

There is no limitation of gender or age for the recitation of the Holy Qur`an and reflection on it. One should read and understand the Holy Qur`an whenever and however the opportunity arises. Photo: INN
قرآن پاک کی تلاوت اور اس میں غور و فکر کے لئے نہ صنف کی کوئی قید ہے نہ عمر کی ۔ جب اور جس طرح موقع ملے قرآن مجید پڑھتے اور سمجھتے رہنا چاہئے۔ تصویر : آئی این این

امام عبد اللہ بن مبارک اعلیٰ درجے کے فقیہ اور محدث ہیں، امام ابو حنیفہؒ کے شاگردوں میں ہیں اور کتنے ہی محدثین و فقہاء کی چشم عقیدت کا سرمہ ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ پر گزرا ہوا ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے، جس کو بہاء الدین (م : ۸۵۰) نے اپنی معروف کتاب ’’المستطرف ‘‘ ( ۱ ؍ ۷۶ - ۷۴) میں ذکر کیا ہے۔ یہ ایک بار حج کے ارادہ سے مکہ تشریف لے گئے تھے۔ واپسی میں راستہ میں ایک جگہ دور سے کوئی چیز نظر آئی، قریب پہنچے او رپہچانا، تو دیکھا کہ ایک بوڑھی خاتون ہیں جو معمولی کرتے اور پٹے میں ملبوس ہیں۔ امام عبد اللہ بن مبارک نے سلام کیا، خاتون نے سلام کا جواب ایک قرآنی فقرہ سے دیا : ’’سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ ‘‘ ( یٰسین : ۵۸) سلامتی ہو، یہ رب رحیم کی طرف سے ارشاد ہے۔ ا بن مبارک ؒ نے دریافت کیا : یہاں آپ کیا کر رہی ہیں ؟ کہنے لگیں : ’’ مَنْ یُّضْلِلِ اﷲُ فَلاَ ھَادِیَ لَہٗ‘‘( الاعراف : ۱۸۶) جسے اللہ راستہ نہ دکھائے، اسے کوئی راستہ نہیں دکھاسکتا ؟ یعنی یہ راستہ بھٹک گئی ہیں۔ ابن مبارک ؒ نے پوچھا : کہاں کا ارادہ ہے، کہنے لگیں : ’’سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى (الاسراء : ۱ ) یعنی یہ حج کر چکی ہیں اور بیت المقدس کا ارادہ ہے۔ ابن مبارک ؒ نے استفسار کیا کہ کتنے دِنوں سے آپ اس مقام پر پڑی ہوئی ہیں ؟ خاتون نے کہا : ’’ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا ‘‘( مریم : ۱۰) یعنی مسلسل تین راتوں سے۔ ابن مبارک ؒ نے کہا : آپ کے پاس کھانے کا کچھ سامان نہیں ہے ؟ خاتون نے جواب دیا : ’’وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ ‘‘ (الشعراء : ۷۹) یعنی اللہ مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔ 
پوچھا گیا کہ آپ وضو کس طرح کرتی ہیں کہ پانی بھی ساتھ نہیں ہے ؟ فرمایا :’’ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا‘‘( النساء : ۴۳) یعنی قرآن کا حکم ہے کہ پا نی نہ ملے تو تیمم کرو، اس پر عمل کرتی ہوں۔ امام ابن مبارک ؒ نے کھانے کی پیش کش کی، تو کہنے لگیں : ’’ ثُمَّ اَتِمُّوْا الصِّیَامَ اِلَی اللَّیْلِ‘‘( البقرۃ : ۱۸۷) یعنی میں روزہ کی حالت میں ہوں، ابن مبارک ؒ نے کہا کہ یہ رمضان کا مہینہ تو ہے نہیں ؟ فرمایا : ’’ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ ‘‘ (البقرۃ : ۱۵۸) یعنی جو یہ بطورِ نفل مزید عمل کرے تو اللہ تعالیٰ قدر داں ہے اور واقف ہے۔ ابن مبارکؒ نے فرمایا کہ سفر میں تو ویسے بھی روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے ؟ بوڑھی خاتون نے جواب دیا: ’’ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ‘‘( البقرہ : ۱۸۴) یعنی روزہ رکھ لینا بہر حال بہتر ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: معاشی تنگ حالی کا ایک اہم سبب فریضہ ٔزکوٰۃ سے غفلت ہے

امام عبد اللہ بن مبارکؒ کے حیرت و استعجاب میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ آپ نے دریافت کیا کہ جس طرح میں آپ سے گفتگو کرتا ہوں آپ بھی اس طرح کیوں نہیں کرتیں ؟ جواب ملا : ’’ مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ ‘( ق : ۱۸) یعنی جب بھی انسان کوئی بات کرتا ہے تو نگراں فرشتہ اس پر موجود ہوتے ہیں۔ گویا بات خوب احتیاط اور تول کر کرنی چاہئے، ابن مبارک ؒ نے دریافت کیا کہ آپ کا تعلق کس قبیلہ سے ہے ؟ فرمایا : ’’وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ‘‘ (الاسراء : ۳۶) کہ جس چیز کا علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو۔ گویا ابن مبارک ؒ کے اس سوال پر بوڑھی خاتون نے ناگواری ظاہری کی، امام عبد اللہ نے معذرت کی، اور کہا کہ مجھے معاف کر دیجئے۔ جواب ملا : ’’لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْْ‘‘ (یوسف : ۹۲) کہ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تم کو معاف کر دے۔ ا بن مبارک ؒ کہتے ہیں : میں نے دریافت کیا کہ کیا میں آپ کو اپنی اونٹنی پر سوار کر دوں تاکہ آپ اپنے قافلہ سے جا ملیں، کہنے گلیں : ’’ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ُ‘‘( البقرۃ : ۱۹۷) جو بہتر کام کرو گے اللہ اس سے واقف ہے۔ ابن مبارکؒ نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا تاکہ وہ سوار ہوں، کہنے لگیں :’’ قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ ‘‘ ( النور : ۳۰) یعنی ابن مبارکؒ کو نگاہ پست کرنے کے بارے میں اشارہ فرمایا ؛ چنانچہ آپ نے نگاہ پست کر لی اور کہا کہ سوار ہو جائیں۔ سوار ہونے لگیں تو اونٹنی بدک گئی، اور اس خاتون کا کچھ کپڑا پھٹ گیا تو قرآن کی آیت پڑھی : ’’وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ ‘‘( الشوریٰ : ۳۰) یعنی جو بھی مصیبت انسان کو پہنچتی ہے وہ اپنی شامت اعمال کی وجہ سے۔ امام عبد اللہ ابن مبارکؒ نے فرمایا کہ آپ ذرا ٹھہر جائیں، میں پہلے اونٹنی کو باندھ دوں، خاتون نے کہا : ’’فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ‘‘ الانبیاء : ۷۹) امام ابن مبارکؒ فرماتے ہیں : میں نے اونٹنی کو باندھ دیا اور ان سے کہا کہ سوار ہو جائیں، جب سوار ہوئیں تو سواری کی دعاء پڑھی جو قرآن مجید کی آیت ہے : ’’ سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ۔ وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ ‘‘ (الزخرف : ۱۳، ۱۴)
اب سفر شروع ہوا، امام ابن مبارکؒ نے اونٹنی کی لگام تھامی اور اونٹنی کو تیز ہنکانے کے لئے کسی قدر بلند آواز نکالتے ہوئے آگے بڑھے، خاتون نے کہا : ’’ وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ‘‘( لقمان : ۱۹) یعنی رفتار معتدل رکھو اور آواز پست، ابن مبارک ؒ نے آہستہ آہستہ ’’ مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ‘‘( مزمل : ۲۰) پڑھا کہ آپ کو بڑا خیر عطا کیا گیا ہے، کہنے لگیں : ’’ وَ مَا یَذَّکَّرُاِلَّا اُوْلُو الْاَلْبَابِ ‘‘ (البقرۃ : ۲۶۹) کہ عقل والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ امام ابن مبارکؒ نے کچھ آگے بڑھنے کے بعد دریافت کیا کہ کیا آپ کے شوہر ہیں ؟ بوڑھی خاتون نے جواب دیا : ’’ یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ أشْیَآئَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُوْکُمْ‘‘( المائدۃ ۱۰۱) اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کی بابت سوال نہ کرو جو تم پر ظاہر کیا جائے تو تمہیں ناگواری ہو، یعنی اپنے بیوہ ہونے کی طرف اشارہ کی۔ 
امام ابن مبارک ؒ نے پھر کوئی گفتگو نہیں کی، یہاں تک کہ قافلہ تک پہنچ گئے، پہنچنے کے بعد خاتون سے دریافت کیا کہ یہاں آپ کے کون لوگ ہیں ؟ کہنے لگیں : ’’ اَلْمَالُ وَالْبُنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا‘‘ ( الکہف : ۴۶) یعنی اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ ان کے بچے اور سامان اس قافلہ میں ہیں۔ انہوں نے دریافت کیا، حج میں ان کے بچے کیا کر رہے تھے ؟ کہنے لگیں : ’’وَعَلَامَاتٍ ۚ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ ‘‘(النحل : ۱۶) یعنی ان کے بچے حجاج کے قافلہ میں راستہ بتانے اور منزل کی رہنمائی کا کام کرنے پر مامور تھے، ابن مبارکؒ سواری خیموں تک لائے اوراستفسار کیا کہ یہ خیمے ہیں، آپ کے متعلقین کون ہیں ؟ خاتون نے کہا : ’’ وَاتَّخَذَ اﷲُ اِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلًا‘‘ ’’ وَکَلَّمَ اﷲُ مُوْسیٰ تَکْلِیْمًا‘‘(النساء : ۱۲۵، ۱۶۴) ’’یٰایَحْیٰ خُذ الْکِتَابَ بِقُوَّۃٍ‘‘ (مریم : ۱۲) یعنی ابراہیم موسیٰ اور یحییٰ میرے بچوں کے نام ہیں۔ ابن مبارکؒ نے ان ہی ناموں سے ندا لگائی کہ تین نوجوان چاند کی طرح روشن دوڑے آئے اور جب بیٹھنے لگے تو ماں نے کہا : ’’ فَابْعَثُوْا اَحَدَکُمْ بِوَرِ قِکُمْ ھٰذِہٖٓ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ فَلْیَنْظُرْ اَیُّھَآ اَزْکٰی طَعَامًا فَلْیَاتِکُمْ بِرِزْقٍ مِّنْہُ‘‘ (الکہف : ۱۹) اپنے میں سے کسی کو یہ پیسے لے کر شہر بھیجو کہ وہ دیکھے کہ کون پاک وصاف کھانا فروخت کرنے والا ہے، پھر وہ تم لوگوں کے پاس کھانے کی چیز لے کر آئے ؛ چنانچہ بچوں میں سے ایک بازار گیا، کھانے کی کچھ چیز خرید کر لایا اور میرے سامنے رکھ دیا کہنے لگیں : ’’کُلُوْا وَاشْرَبُوْا بِمَا اَسْلَفْتُمْ فِیْ الْاَیَّامِ الْخَالِیَۃِ‘‘ ( الحاقۃ : ۲۴) خوشگواری کے ساتھ کھاؤ پیوؤ، اس عمل کے بدلے جو تم نے پچھلے دِنوں میں کئے ہیں۔ 
امام عبد اللہ ابن مبارکؒ نے ان خاتون کے صاحبزادوں سے کہا کہ جب تک تم ان خاتون کے بارے میں مجھے نہ بتاؤ میں کھانا نہیں کھاسکتا، لڑکوں نے کہا : یہ ہماری والدہ ہیں، چالیس سال کے عرصہ سے انہوں نے سوائے قرآن کے کوئی اور کلام اپنی زبان سے نہیں نکالا کہ کہیں اپنی طرف سے بولنے میں کچھ زیادتی ہو جائے اور اللہ ناراض ہو جائے۔ ابن مبارکؒ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یہ اللہ کا فضل ہے، اللہ جسے چاہیں عطا فرمائیں اور اللہ یقیناً بڑے فضل والے ہیں۔ ( الجمعۃ : ۴) 
یہ واقعہ نشان عبرت اور حرف ِموعظت ہے کہ معمولی خاتون کو بھی قرآن سے کیسی مناسبت ہوتی تھی اور قرآن مجید کی تلاوت اور اس کے فہم کا کیسا اعلیٰ درجے کا ذوق حاصل ہوتا تھا، کاش ہم یہ اور اس طرح کے عبرت خیز واقعات کو اپنے لئے آئینہ بنائیں اور اس آئینہ میں اپنی تصویر دیکھیں کہ قرآن مجید سے ہمارا کیا تعلق ہے ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK