Inquilab Logo

معاشی تنگ حالی کا ایک اہم سبب فریضہ ٔزکوٰۃ سے غفلت ہے

Updated: March 29, 2024, 3:30 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

قرآن مجید نے زکوٰۃ کو جو اہمیت دی ہے، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اس نے بیس مقامات پر زکوٰۃ کو اسلام کے رُکن اول نماز کے دوش بدوش ذکر کیا ہے، بتیس مقامات پر صریحاً زکوٰۃ کا اور پندرہ مقامات پر صدقہ کا ذکر آیا ہے، مختلف سیاق میں رحمت ِخداوندی کا حق دار ہونے کے لئے ایمان و تقویٰ کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی کو بھی شرط قرار دیا گیا ہے۔

Through fair and systematic distribution of Zakat, the needs of all the poor in the society can be met. Photo: INN
زکوٰۃ کی منصفانہ اور منظم تقسیم کے ذریعے معاشرے کے تمام غرباء کی ضرورتیں پوری کی جاسکتی ہیں۔ تصویر : آئی این این

انسانی معاشرے میں کچھ لوگوں کا دولت مند اور کچھ کا غریب و ضرورتمند ہونا نظامِ قدرت اور تقاضۂ فطرت ہے؛ اس لئے ہر سماج کی ضرورت ہے کہ اس کے خوش حال اوراصحاب ثروت اپنے ضرورتمند اور غریب و نادار بھائیوں کی مدد اور ان کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے اپنی دولت کا کچھ حصہ اس مقصد کے لئے نکالیں۔ اسی لئے پہلے آسمانی مذاہب میں بھی زکوٰۃ و صدقات کا حکم فرمایا گیا۔ قرآن مجید کا بیان ہے کہ ’’اور وہ (حضرت اسماعیلؑ) اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے۔ ‘‘(مریم: ۵۵) بنی اسرائیل سے خدا نے جن باتوں کا عہد لیا تھا ان میں نماز کا قائم کرنا اور زکوٰۃ کا ادا کرنا بھی تھا۔ (بقرہ:۳) حضرت مسیح نے بھی اعلان فرمایا کہ مجھے زندگی بھر اقامت ِصلوٰۃ اور ادائے زکوٰۃ کی ہدایت کی گئی ہے۔ (مریم: ۳۱)
اسلامی تعلیمات کا اولین اور مستند ترین سرچشمہ قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید نے زکوٰۃ کو جو اہمیت دی ہے، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اس نے بیس مقامات پر زکوٰۃ کو نماز کے دوش بدوش ذکر کیا ہے جو کہ اسلام کا رُکن اول ہے، بتیس مقامات پر صریحاً زکوٰۃ کا اور پندرہ مقامات پر صدقہ کا ذکر آیا ہے۔ مختلف سیاق میں رحمت ِخداوندی کا حقدار ہونے کیلئے ایمان و تقویٰ کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی کو بھی شرط قرار دیا گیا، (اعراف: ۱۶۵) اور فرمایا گیا کہ زکوٰۃ تمہارے مال میں کمی کا سبب نہیں بلکہ برکت و اضافہ کا باعث ہے (روم:۳۹)۔ آخرت میں اس کا جو ثواب ہے، اس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا ہے : 
’’اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی مثال اس بوئے گئے دانے کی ہے، جس میں سات بالیاں نکل آئیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں، اللہ جس کے لئے چاہتے ہیں، دو چند کردیتے ہیں اور وہ وسعت والے اور علم والے ہیں۔ ‘‘ (بقرہ:۲۶۱)

یہ بھی پڑھئے:افطار پارٹی ہو یا انفرادی، عبادت کا رنگ باقی رہنا چاہئے

جو لوگ زکوٰۃ ادا نہ کریں اور غریبوں کے اس حق سے پہلو تہی برتیں، ان کیلئے اسی درجہ عبرتناک سزا ہے۔ فرمایا گیا: ’’ جس دن سونا چاندی دوزح کی آگ میں گرم کیا جائیگا، پھر اس سے پیشانیاں، پہلو اور پشت داغے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ یہی مال ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا، اب اس مال کا مزا چکھو۔ ‘‘ ( توبہ:۳۵)
حقیقت یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ میں نماز کے بعد جس تاکید و اہتمام اور کثرت و تکرار کے ساتھ قرآن مجید نے زکوٰۃ و صدقات، انفاق، انسان کی مدد، یتیموں اور حاجتمندوں کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر کیا ہے، کسی اور عمل پر اس اہمیت کے ساتھ زور نہیں دیا گیا ہے۔ 
رسول اللہ ﷺنے زکوٰۃ کو ارکان اسلام میں نماز کے بعد درجہ دیا ہے اور بعض اوقات آپؐ نے جن باتوں پر بیعت لی، ان میں زکوٰۃ کا بھی ذکر فرمادیا۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ : ۱ ؍ ۱۸۸۔ ) آخرت میں زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر آپؐ کی جو وعیدیں ہیں، وہ نہایت لرزا دینے والی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جس مال کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہوگی، وہ زہریلے سانپ کی صورت اختیار کر کے گلے کا طوق بن جائے گا اور ڈستا رہے گا۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ : ۱؍ ۱۸۸)۔ جن جانوروں کی زکوٰۃ نہ دی گئی ہوگی، وہ اس کے جسم کو روندیں گے (حوالۂ سابق)۔ 
حدیث شریف میں آتا ہے کہ دو خواتین آپؐ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئیں۔ اُن کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ان کی زکوٰۃ ادا کر دی ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تم کو یہ پسند ہے کہ آگ کے کنگن تم کو پہنائے جائیں؟ اورزکوٰۃ ادا کرنے کی ہدایت فرمائی۔ (ترمذی : ۱ ؍ ۱۳۸، باب ماجاء فی زکوٰۃ الحلی)
اس کے علاوہ آپؐ نے دنیا میں بھی زکوٰۃ ادا کرنے پر خوش خبری اور نہ ادا کرنے پر اللہ کی پکڑ کا ذکر فرمایا ہے چنانچہ ارشاد نبوی ہے کہ صدقہ سوء خاتمہ سے بچاتا ہے۔ (ترمذی :۱ ؍۱۴۴) عمر میں اضافہ کرتا ہے، (الترغیب والترہیب : ۱۶۱) ستر مصیبتوں کے دروازے بند کرتا ہے۔ (حوالۂ سابق) بلائیں صدقہ کی وجہ سے نہیں آتیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح : ۱ ؍ ۱۶۷) جس مال کی زکوٰۃ نہ ادا کی جائے، تو مال زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ اصل مال بھی ہلاک و ضائع ہو جاتا ہے۔ جو قوم زکوٰۃ ادا نہیں کرتی، اس پر اللہ کی طرف سے قحط کا عذاب آتا ہے۔ دنیا میں انسان کی بد اعمالیوں کا اس پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے ؟ حضرت ابن عمرؓ نے اس سلسلہ میں رسول مقبول حضور پُرنور صلی اللہ علیہ و سلم کی اثر انگیز روایت نقل کی ہے، فرماتے ہیں : 
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: اے جماعت مہاجرین! پانچ گناہ ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہوجاؤگے، ( مصیبتوں میں پڑوگے) اور میں اس بات سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں کہ تم ان گناہوں میں مبتلاہو: (۱) جس قوم میں کھلے عام بدکاریاں ہونے لگیں، ان میں طاعون اور ایسی تکلیف دہ بیماریاں پیدا ہوں گی جو پہلے کے لوگوں میں نہیں ہوئیں (۲) ناپ تول میں کمی کرو گے تو قحط، تنگ حالی اورحکمرانوں کا جور و ظلم ان پر ہوگا (۳) جو زکوٰۃ ادا نہ کریں گے بارش سے محروم کر دیئے جائیں گے اور ( اس بستی میں ) جانور نہ ہوں تو شاید ان پر بالکل ہی بارش نہ ہو (۴) خدا اور رسول کے پیمان کو توڑیں گے، تو دشمنوں کو جو کفار ہوں گے، ان پر مسلط کر دے گا اور وہ ان کے قبضہ سے بعض چیزیں چھین لیں گے اور (۵) مسلمانوں کے جو حکمراں قرآن مجید کے مطابق فیصلہ نہ کریں گے اور احکامِ الٰہی کو ترجیح نہ دیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی قوت کو باہم ہی ٹکرا دے گا۔ ( ابن ماجہ، عن ابن عمر: ۲ ؍ ۲۹۰، باب العقوبات)
 اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشی تنگ حالی اوردرماندگی کا ایک اہم سبب اس اُمت کا فریضہ ٔ زکوٰۃ سے غفلت اور بے اعتنائی برتنا ہے۔ 
غور کیجئے تو مذاہب کی تعلیم کا خلاصہ اللہ سے تعلق و محبت ہے۔ راہبوں کی رہبانیت اورگھٹنوں کے بَل قیام، مندروں میں بتوں کے سامنے سجود و نیاز، آتش کدوں میں آتش اعتقاد کو سلگانا اور مسلسل روشن رکھنا، ان سب کا اپنے اپنے خیال و عقیدہ کے مطابق خدا سے تعلق کے اظہار کے سوا اور کیا ہے ؟ اسلام نے اس مقصد کے لئے نماز کا نہایت پاکیزہ اور اثر انگیز عمل رکھا، جس میں زبان اور آنکھیں ہاتھ اور پاؤں اور جسم کا ایک ایک حصہ خدا کی بارگاہ میں حاضر اورمتوجہ رہتا ہے، عجز و فروتنی کی انتہا یہ ہے کہ انسان اپنی پیشانی تک خاک پر رکھ دیتا ہے۔ 
لیکن تعلق مع اللہ اسی وقت اوج کمال کو پہنچ سکتا ہے، جب کہ غیر اللہ سے بے تعلقی کا اظہار ہو، دنیا میں جو چیز سب سے زیادہ دامن نفس کو کھینچتی اور اپنا فریفتہ کرتی ہے، وہ مال ودولت ہے، اس کی حرص پہلے تو خدا سے بے توجہ کرتی ہے، پھر دولت و ثروت کا نشہ دل و دماغ پر چڑھتا ہے اور کبر و غرور انگڑائیاں لینے لگتا ہے، یہی ’’ کبر ‘‘ دین و اخلاق کے لئے سم قاتل ہے، اس سے خود غرضی پیدا ہوتی ہے، ایثار کا جذبہ مفقود ہوتا ہے، لوگوں کے حقوق کو وہ ڈھکوسلہ سمجھنے لگتا ہے، اپنی دولت خود اپنے قوتِ بازو کا ثمرہ ہونے کا خیال جڑ پکڑ تاہے۔ 
’’زکوٰۃ‘‘ اسی مال کی محبت کو کم کرتا ہے، ’’نماز‘‘ خدا سے تعلق کا سامان اور ’’زکوٰۃ‘‘ غیر اللہ سے بے تعلقی کا عنوان ہے، اسی کو ’’ تزکیہ‘‘ کہا جاتا ہے، اس سے تواضع کا اظہار ہوتا ہے، ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، زکوٰۃ کا عمل بندہ کے اس یقین کو ظاہر کرتا ہے کہ جو کچھ ہے، خدا کا عطیہ ہے، اس میں خود اس کی قوت و قدرت کو دخل نہیں، یہ اس بات کا اقرار ہے کہ وہ خدا کی خوشنودی کی قربان گاہ پر دولت ِ دنیا کو قربان کرنے کیلئے تیار ہے، یہ ایمان کی تازگی ہے، دولت دنیا کی تطہیر ہے، عقیدہ اور باطن کی صفائی ہے اور اعمال کی پاکی ہے، اس لئے اس کا نام ہی ’’زکوٰۃ‘‘ رکھا گیا، جس کا معنی ہی پاکی کا ہے۔ قرآن مجید نے زکوٰۃ میں پائے جانے والی تربیت اخلاق اور تزکیہ باطن کی خاص صلاحیت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: ’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں۔ ‘‘ (توبہ: ۱۰۳) 
یہ تو زکوٰۃ کا اخلاقی اور روحانی پہلو ہے، اس کے مادی اور معاشی فوائد ظاہر ہیں، کوئی بھی سماج دولت مند اور غریب طبقہ سے خالی نہیں ہو سکتا، ادائیگی ٔ زکوٰۃ سماج کے غریب طبقہ کو تحفظ و ضمانت عطا کرنے کا نام ہے۔ پیغمبر اسلامؐ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ اگر تمام لوگ زکوٰۃ ادا کریں تو کسی کو غذا اورلباس سے محروم ہونا نہ پڑے : 
اللہ نے اہل دولت پر جو زکوٰۃ فرض کی ہے، وہ اتنی مقدار ہے کہ فقراء کے لئے کافی ہو جائے، اگر یہ بھوکے، بے لباس اور پریشان رہیں تو یہ اغنیاء کے فریضۂ زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہوگا اور اللہ تعالیٰ کو حق ہے کہ وہ قیامت کے دن ان کا محاسبہ کریں اور ان کو اس پر عذاب دیں۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: ۱۳۲۰۶)
یقین ہے کہ اگر دولت کے اعتبار سے تین درجات کئے جائیں، ایک وہ لوگ جن پر زکوٰۃ واجب ہے، دوسرے وہ جو زکوٰۃ کے حقدار ہیں، پھر ان لوگوں کی دولت اور اس کی شرح زکوٰۃ کا حساب کیا جائے جن پر زکوٰۃ واجب ہے اور ان لوگوں کی غربت کو ملحوظ رکھ کر ان کی ضروریات کا حساب لگایا جائے تو ضرور زکوٰۃ تمام غرباء کی ضرورت پوری کردے گی۔ 
 کاش اعداد و شمار کی مدد سے اس کی تحقیق کی جائے تو ان شاء اللہ سرور کائنات محمد الرسولؐ اللہ کی یہ پیشین گوئی ایمان وعقیدہ کی آنکھوں سے نہیں ؛ بلکہ سر کی آنکھوں سے دیکھی جاسکے گی۔ 
زکوٰۃ کی ادائیگی کا خود اہل ثروت کو یہ فائدہ ہوگا کہ غرباء طبقہ جس کی محنت اور جفا کشی ہی ہر چراغ عیش میں شعلہ زن ہے، اور جن کے دم سے ہی عشرت کدۂ حیات کی ساری بہار قائم ہے، میں ان کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا نہیں ہوں گے اور وہ ان کو اپنا ہمدرد و بہی خواہ سمجھیں گے، مغربی سرمایہ داری میں زکوٰۃ کیلئے تو کیا جگہ ہوتی ؟ سود نے غرباء اور مزدوروں کی کمر توڑ رکھی ہے۔ یہ سود اس محتاج و محنت کش طبقہ میں اہل دولت کے خلاف مخالف جذبات کو جنم دیتا ہے اور بھڑکاتا ہے، کمیونسٹ تحریک اسی رد عمل میں پیدا ہوئی تھی۔ اسلام نے زکوٰۃ کی ادائیگی کے ذریعہ اس کا علاج کیا ہے اور دولت وغربت میں توازن قائم کرنے کی نادر المثال کوشش کی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK