Inquilab Logo

فلسطینی ادب سے ایک کہانی : قرقاش زندہ باد

Updated: March 17, 2024, 11:02 AM IST | Dr. Muhammad Iftikhar Shafi | Mumbai

عدالت کی کارروائی ایک دورافتادہ گاؤں کے ایک چھوٹے سے کمرے میں شروع ہوئی۔ یہ کمرہ مستطیل شکل کا تھا اوراس میں ایک گول میزاورچندکرسیوں کے سوا اورکچھ نہ تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

عدالت کی کارروائی ایک دورافتادہ گاؤں کے ایک چھوٹے سے کمرے میں شروع ہوئی۔ یہ کمرہ مستطیل شکل کا تھا اوراس میں ایک گول میزاورچندکرسیوں کے سوا اورکچھ نہ تھا۔ کمرے میں موجود واحد میز پر قرآن مجیداور بائبل کا ایک ایک نسخہ رکھاتھا۔ کمرے کی عقبی دیوار پر پیتل کی ایک تختی آویزاں تھی جس پر جلی حروف میں درج تھا :
” اعلیٰ حکومت کا ایک اصول: عدل اورانصاف۔ “
اس اجلاس کی کارروائی خفیہ رکھی گئی تھی۔ کمرۂ عدالت میں موجودسبھی مشتبہ لوگ تھے۔ سیکورٹی زون کے قریب ہونے کی وجہ سے گاؤں کے عام لوگوں میں سےکسی کو یہاں آنے کی اجازت نہ تھی۔ ایسے لگتاتھا عدالتی اہل کار حاضرین کےساتھ چھیڑ چھاڑ کررہے ہیں۔ وہ ایک عربی کہاوت ہے کہ ”تماشائی بھی ایک تماشاہوتاہے۔ “ کسی ایک کی مصیبت دوسرے کے گلے بھی پڑسکتی ہے۔ ملزمان کے نام پکارے گئے:
”شلوموبن ہیم!، گدالیہ شیمتوو! حاضرہوں !“
کمرے میں موجود لوگوں کیلئے یہ خاصی حیرت انگیز بات تھی، اب تک تویہ عدالتوں میں صرف عربوں کے نام سننے کے عادی تھے اوراب یہاں ایک نہیں بلکہ دو دو ملزم یعنی یک نہ شد دوشد، یہ توکمال ہوگیا۔ جج نے ملزمان سے سوال پوچھا: ”تم کہاں سے ہو؟“
”گوتاڈا سے“ ملزم نے جواب دیا۔ 
”تمہیں پتہ توہے، اس علاقے میں بغیر اجازت کے داخل ہونے کی اجازت نہیں، پھرتم پرمٹ کے بغیر یہاں کیوں آئے؟“جج نے پھرسوال کیا۔ 
”ہماری گائے گم ہوگئی تھی، اسی کوتلاش کرتے ہوئے غلطی سے اس علاقے میں آگئے ہیں جناب۔ ہمیں خوف تھا، گائے کہیں غلطی سے آپ کے علاقے میں نہ داخل ہوجائے، لیکن وہی ہواجس کا ڈر تھا۔ “
ملزمان نے ایک ساتھ جواب دیا۔ 
”ایک ایک کرکے بات کرو، پہلے تم بولو شلومو! کیا تمہاری گائے دودھ دیتی ہے؟“ جج نے ڈانٹ پلائی۔ 
”بالکل دودھ دیتی تھی جی، اس کا گم ہوجانا بہت نقصان دہ ہے۔ “
”گائے کے دودھ سے ڈیری کی اشیاءبنتی ہیں، آپ یہ بھی جانتے ہیں، دودھ کے بغیرہمارے بچوں کی صحت کو شدید خطرہ لاحق ہوگا۔ “
”میں سمجھ گیا، مارشل کوڈ کی ساتویں شق کے مطابق عدالت حکومتی قانون کے مطابق گائے کو تو کوئی سزا نہیں دے سکتی البتہ ملزمان کو ان کی ذمہ داریوں سے بری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ “
”تمہیں ایک سو پنس جرمانے کی سزاسنائی جاتی ہے۔ “
عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تو شلومو اور گدالیہ کے چہروں پرخوشی کی ایک لہردوڑ گئی۔ جرمانے کی رقم ادا کرتے ہوئے انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ خفیف اور پراسرار سی مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔ اس دوران میں عدالتی اہل کار نے آوازلگائی۔ 
”احمدحسین سعید! احمدحسین سعیدالفہماوی!“
عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہوئے ملزم کوہلکی سی ٹھوکرلگی۔ اسے پہلی بارعدالت میں پیش کیاگیاتھا۔ 
”ہاں بھئی!کیاعمرہے تمہاری؟“جج نے سوال کیا۔ 
”جی حضور، پندرہ سال۔ “ ملزم کے چہرے پر خوف کے آثارتھے۔ 
” تمہیں ذکرون الیعقوب کے علاقے میں داخلے کی ہمت کیسے ہوئی؟ کیاتم نےسنانہیں تھا، دوسال پہلے یہاں تمہارے جیسے ایک مزدور کی آنکھ ضائع ہوگئی تھی، اگرایسا کوئی حادثہ تمہارے ساتھ بھی پیش آجاتا تو؟“جج عدالتی اہل کارکی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا:”اس کے باپ کو بلاؤ۔ “اسیّ پچاسی سال کا ایک بزرگ لاٹھی ٹیکتے ہوئے آگے بڑھا۔ اس سے پہلے کہ وہ عدالت کے کٹہرے میں آکرکھڑاہوتا، جج نے غصیلے انداز میں سوال کیا:”تم نے اسے کیوں جانے دیا؟“
”میں ایک ضعیف اور معذور آدمی ہوں، میراخاندان سات افراد پر مشتمل ہے، یہ لڑکا جو آپ کے سامنے کھڑا ہے، عمرمیں سب سے بڑا ہے۔ یہ کام نہ کرے تو گھرکاچولھا نہیں جلتا جناب۔ “
جج نے اس کی بات بڑے غور سے سنی۔ اس کے بعد اس نے حکومتی قانون کی روسےعدالت کا فیصلہ پڑھ کر سنایا: ”عدالت سمجھتی ہے کہ ملزم کا باپ بے قصور ہے، اس لئے بیٹے کوچالیس پاؤنڈ جرمانے یا بیس دن قید بامشقت کی سزا سنائی جاتی ہے“چاروں طرف خاموشی اورسناٹا چھا گیا۔ 
”خالدقاسم ملاہا حاضر ہو!“یہ آج کی عدالتی کارروائی میں تیسرا کیس تھا۔ جج نے ملزم کے بجائے اس کے باپ کو آواز دی۔ باپ حاضرہواتوجج نے اس سےمخاطب ہوتے ہوئے کہا: ”تمہارابیٹا پرمٹ کے بغیرحیدرہ میں کیا کرنے گیا تھا؟“
”میں ایک معذور شخص ہوں، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں میری ایک ٹانگ نہیں ہے۔ میں کوشش کے باوجود اسے روک نہیں سکتا۔ “باپ نے جواب دیا”ہاں ہاں، تم اسے کیسے روک سکتے ہو، بالکل سچ کہتے ہو تم، شاباش!، اچھاتمہیں چالیس پاؤنڈجرمانے یا دس دن قیدبامشقت کی سزا دی جاتی ہے، ٹھیک؟“
اس وقت دوپہرکے بارہ بج کرپینتالیس منٹ ہوچکے تھے، جج کے چہرے پرتھکاوٹ کےآثارنمایاں تھے۔ ”اب ہم ام لقطف کے حسن طاہرحسن کا کیس دیکھیں گے۔ “
”می لارڈ! میرا گائے کی گم شدگی کا مسئلہ تھا، وہ کہیں کھو گئی تھی۔ “ حسن بولا ”میں اپنے نقصان کے بارے میں پولیس اسٹیشن کے علاوہ اور کہاں شکایت کرسکتا تھا، ہماری آبادی تھانہ کرکورکی حد میں شامل ہے۔ آپ جانتے ہیں، یہ پولیس اسٹیشن ممنوعہ علاقے میں ہے لیکن وہاں جانے کے لئے اجازت نامے کی ضرورت نہیں۔ میں گیا اوروہاں گرفتار کرلیا گیا۔ “
”توکیا تمہاری گائے مل گئی تھی؟“جج نے سوال کیا۔ 
”جی مل گئی تھی، اسے انتظامیہ نے کانجی ہاؤس میں بند کردیا تھا۔ “ حسن نے جواب دیا۔ جج نے تھوڑے توقف کے بعد فیصلہ سنایا:”دس دن قید یا بیس پاؤنڈجرمانہ۔ “
اس سے توبہتر تھا کہ حسن کی گائے اسے نہ ہی ملتی کیوں کہ اس کی قیمت جرمانے کی رقم سے آدھی تھی، حسن سے کھل کر اپنے غم کا اظہاربھی نہ ہوسکاکیوں کہ یہاں قرقاش *کا قانون چلتا تھا۔ (عالمی ادب کے اردو تراجم)
(قرقاش ایک قدیم مصری حاکم تھا، اس کے دور کے مصر میں جنگل کا قانون رائج تھا۔ عرب دنیا میں قرقاش کی ناانصافی ایک مثال ہے۔)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK