Inquilab Logo

نظام تعلیم کی خامیوں کو اُجاگر کرتی ایک طالب علم کی داستان

Updated: November 22, 2020, 5:42 AM IST | Jamal Rizvi

حیدرآباد کی ہونہار طالبہ ایشوریہ ریڈی نے مالی مسائل اور سماجی محرومیوں سے جوجھتے ہوئے خودکشی کر لی ۔ خودکشی کرنے سے پہلے اس نے جو نوٹ لکھا اس میں کسی کو بھی اپنی موت کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ اس نے لکھا تھا کہ غریبی کی وجہ سے اس کے تعلیمی اخراجات کو برداشت کر پانا اس کے والدین کیلئے ایک مسئلہ بن گیا ہے لہٰذا وہ اپنے والدین پر مزید اس گرانی کا سبب نہیں بننا چاہتی۔اس نے بارہویں میں امتیازی نمبرات حاصل کئے تھے

Suicide -  Pic : INN
خودکشی ۔ تصویر : آئی این این

کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنانے میں اس ملک کا تعلیمی نظام اہم کردار ادا کرتا ہے۔جس ملک کا تعلیمی نظام جس قدر بہتر ہوگا، اس ملک کا انسانی معاشرہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اسی قدر ترقی کے مدارج طے کرے گا۔ اس وقت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جس رفتار سے صنعت و حرفت، تجارت و زراعت اور زندگی سے وابستہ دیگر امور میں ترقی کے نئے اہداف سر کر رہے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کے تعلیمی نظام میں طلبہ کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ تعلیم کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ طلبہ کیلئے ایک ایسا تعلیمی ماحول تعمیر کیا جائے جو اُن کی صلاحیتوں اور لیاقتوں کے پروان چڑھنے کی راہ ہموار کر سکے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے یہ لازمی ہے کہ نظام ِ تعلیم کے ہر مرحلے پر شفافیت اور دیانت داری برتی جائے۔ تعلیمی نظام میں اس شفافیت اور دیانت داری کا انحصار بڑی حد تک طلبہ و اساتذہ اور اس نظام سے وابستہ ان دیگر امور کے مابین ایسا ربط ہو جو کسی طالب علم کیلئے حصول تعلیم کی راہ کو آسان بنا سکے۔اگر اس ربط میں کسی بھی قسم کی جانب داری یا تعصب کا دخل ہو جائے تو پھر نہ تو تعلیم کا بنیادی مقصد پورا ہو سکتا ہے، نہ ہی سماج کے ہر طبقے کیلئے تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
  اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک میں جو سماجی نظام رائج ہے وہ اصولی طور پر اس سماجی تفریق کو رد کرتا ہے جس میں کسی خاص مذہب یا قوم اور معاشی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ امتیازی رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس سماجی نظام کے تحت ہر انسان کو مساوی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کرنے کی کوشش کرے اور اس کوشش کو کامیاب بنانے میں حکومتیں اور انتظامیہ اس کی حوصلہ افزائی اور مدد کریں۔اس تناظر میں اگر وطن عزیز کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر چہ اصولی طور پر یہ نظام طلبہ کے درمیان کسی بھی طرح کی تفریق کو درست نہیں مانتا لیکن عمل کی سطح پر بعض اوقات یہ تصور غلط ٹھہرتا ہے۔ملک کے تعلیمی نظام میں اصول اور عمل کے درمیان اس تضاد کو اجاگر کرنے والی ایسی خبریں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہے کہ اس نظام میں سماجی اورمعاشی پس منظر کی بنیاد پر طلبہ سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ جب تعلیمی نظام میں تفریق پر مبنی ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں اکثر وہ طلبہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے سے محروم رہ جاتے ہیں جو معاشی یا سماجی اعتبار سے کمزور طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔تعلیمی نظام کی یہ تفریق اکثر ایسے ہونہار طلبہ کی حوصلہ شکنی کا سبب بنتی ہے جو زندگی میں کچھ نمایاں اور بہتر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
 ہندوستان کے تعلیمی نظام کی یہ پیچیدہ صورتحال کبھی کبھی کسی ہونہار طالب علم کےکریئر کو نہ صرف خراب کر دیتی ہے بلکہ اکثر ایسی پریشان کن صورتحال کے سبب ذہین اور حساس طلبہ اپنی زندگی کو ختم کرنے کا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسی ہی ایک افسوس ناک خبر منظر عام پر آئی جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اگر طالب علم معاشی اعتبار سے کمزور ہو تو خواہ وہ صلاحیت اور لیاقت کے معاملے میں کتنا ہی بلند درجہ رکھتا ہو، اس کی ترقی کی راہ مسدود ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں حساس طالب علم کو اپنا مستقبل جب غیریقینی نظر آنے لگتا ہے تو وہ مجبوراً ایسی زندگی کو ختم کرنے کا  فیصلہ کر لیتا ہے جس میں ہر قدم پر اس کیلئے صرف مسائل اور محرومیاں ہی اس کا مقدر بن جائیں۔حیدرآباد کی ایشوریہ ریڈی نے ایسے ہی مسائل اور محرومیوں سے جوجھتے ہوئے بالآخر خودکشی کر لی ۔ خودکشی کرنے سے پہلے اس نے جو نوٹ لکھا اس میں کسی کو بھی اپنی موت کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ اس نوٹ میں اس نے لکھا تھا کہ غریبی کی وجہ سے اس کے تعلیمی اخراجات برداشت کر پانا اس کے والدین کیلئے ایک مسئلہ بن گیا ہے لہٰذا وہ اپنے والدین پر مزید اس گرانی کا سبب نہیں بننا چاہتی۔ایشوریہ نے بارہویں جماعت میں امتیازی نمبرات حاصل کئے تھے اور اس کی کارکردگی کے سبب اسے وزارت سائنس اورٹیکنالوجی نے اسکالرشپ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس نے مزید تعلیم کیلئے دہلی کے لیڈی شری رام کالج میں داخلہ لیا تھا جہاں سے وہ بی ایس سی کی پڑھائی کر رہی تھی لیکن اس کورس کے دوسرے سال تک آتے آتے اس کے سامنے ایسی مالی مشکلات کھڑی ہو گئیں کہ تعلیم کے سفر کو بغیر کسی رکاوٹ کے طے کر پانا مشکل نظر آنے لگا۔ اس کے والدین نے اعلیٰ تعلیم کے اس کے خواب کو پورا کرنے کیلئے اپنا گھر کرائے پر دے دیا اور اس کے چھوٹے بھائی کی اسکولی تعلیم بھی چھڑا دی۔اس کے باوجود مالی مشکلات کم نہ ہوئیں اور دہلی میں ایشوریہ کی رہائش کا بندو بست اور آن لائن تعلیم کیلئے لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ جیسے وسائل کی عدم دستیابی نے بالآخر ایشوریہ کو اس حد تک مایوس اور پریشان کردیا کہ اس نے خودکشی جیسا انتہائی  فیصلہ کر لیا۔
 ایشوریہ نے اسکول اور کالج کی تعلیم میں جس طرح اپنی لیاقت کا مظاہرہ کیا تھا، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر اسے اعلیٰ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کا موقع ملتا تو وہ یقیناً نمایاں کارکردگی انجام دیتی۔ اس نے بی ایس سی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آئی اے ایس بننے کا خواب دیکھا تھا لیکن ملک کے پیچیدہ تعلیمی نظام کے سبب نہ صرف اس کا یہ خواب ادھورا رہ گیا بلکہ اس کی زندگی کا سفر بھی ختم ہو گیا۔ وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی نے اسے جو اسکالر شپ دی تھی کالج انتظامیہ کی غیر سنجیدگی اور تساہلی کے سبب بی ایس سی کے دوسرے سال میں یہ اسکالر شپ حاصل کرنا اس کیلئے ایک بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔ تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے اس کے والدین جو تگ و دو کر رہے تھے ،اس نے نفسیاتی طور پر ایشوریہ کی شخصیت پر منفی اثر ڈالا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہونہار طالب علم اپنی منزل حاصل کرنے سے پہلے ہی اپنی زندگی کا سفر ختم کرنے پر مجبور ہو گئی۔
 ہندوستان کے تعلیمی نظام کی یہ پیچیدہ صورتحال ایشوریہ جیسے کئی ہونہار طلبہ کی حوصلہ شکنی کی وجہ بنتا ہے۔ اگر اپنے گرد و اطراف کے سماج پر نظر ڈالی جائے تو یہ افسوس ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ اکثر ایسے ہونہار طلبہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے سے محروم رہ جاتے ہیں جو مالی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں ۔ اکثر یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ مذہبی یا سماجی تعصب کی بنا پر بھی ایسے ہونہار طلبہ کے آگے بڑھنے کے راستے میں دانستہ طور پر ایسی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں جو اُن کی حوصلہ شکنی کا سبب بنتی ہیں۔تعلیمی نظام میں اگر لیاقت اور صلاحیت کے بجائے اس قسم کے تعصب کی بنا پر طلبہ کے ساتھ امیتازی سلوک کیا جائے گا تو ظاہر ہے کہ ایسی صورت میںتعلیم کا معیار متاثر ہوگا۔ اگر کسی بھی قسم کے تعصب یا جانب داری کی بنا پر تعلیم کے معیار سے سمجھوتہ کیا جائے تو ملک یا معاشرہ کی ترقی اور خوشحالی کو کیوں کر یقینی بنانے کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت اور نظام تعلیم کے انتظامی امور سے وابستہ افراد اس قسم کے دعوے مسلسل کرتے ہیں لیکن اس نظام کی ایسی تلخ اور افسوس ناک حقیقتوں پرسنجیدہ توجہ نہیں دیتے۔ 
 ان دنوں ملک میں نئی تعلیمی پالیسی کی تشہیر بڑے زور و شور سے کی جارہی ہے۔ حکومت اس پالیسی کے ان فوائد کی طرف عوام کی توجہ مرکوز کرنے میں مصروف ہے جو سماج کے ہر فرد کو اس کی صلاحیت کی بنا پر آگے بڑھنے کا موقع فراہم کریں گے۔حکومت کو نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے ساتھ ہی تعلیمی نظام کی ان پیچیدگیوں کو بھی دور کرنے پر توجہ دینا چاہئے جو ایشوریہ جیسے ہزاروں ہونہار طلبہ کو محرومی اور مایوسی کے احساس میں مبتلا کر دیتے ہیں۔اگر تعلیمی نظام میں مذہب،  قوم یا معاشی پس منظر کی بنیاد پر تعصب برتا جائے گا تواس نئی تعلیمی پالیسی سے بھی تعلیم کے معیار میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوگا۔ تعلیمی نظام میں طالب علم کو اس کی لیاقت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کویقینی بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کا حصول تب تک ممکن نہیں ہوگا جب تک کہ اس نظام میں طالب علم کو بغیر کسی تعصب یا جانب داری کے مرکزی حیثیت حاصل ہو اور تعلیمی امور سے وابستہ ذمہ دار افراد اس کے آگے بڑھنے میں اس کی مدد اور حوصلہ افزائی کریں۔اگر ملک اور معاشرہ کو ترقی یافتہ اور خوشحالی بنانا ہے تو حکومت کو اس جانب سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK